سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
حدیث نمبر: 3515
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا القاسم بن دينار الكوفي، حدثنا إسحاق بن منصور الكوفي، عن إسرائيل، عن عبد الرحمن بن ابي بكر وهو المليكي، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما سئل الله شيئا احب إليه من ان يسال العافية ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد الرحمن بن ابي بكر المليكي.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ الْكُوفِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ الْمُلَيْكِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا سُئِلَ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيِّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے جو بھی چیزیں مانگی گئی ہیں ان میں اللہ کو سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس سے عافیت (دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے نجات) مانگی جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اور ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابوبکر ملیکی کی روایت سے جانتے ہیں، (اور یہ ضعیف ہیں)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8504) (ضعیف) (سند میں ”عبد الرحمن بن ابی بکر ملیکی“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ زبير على زئي: (3515) إسناده ضعيف / يأتي:3548 مطولاً
عبدالرحمن أبى بكر المليكي: ضعيف (تقدم:2879) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن ماجه (3851) وغيره
86. باب
86. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3516
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا إبراهيم بن عمر بن ابي الوزير، حدثنا زنفل بن عبد الله ابو عبد الله، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة، عن ابي بكر الصديق، ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان إذا اراد امرا قال: اللهم خر لي واختر لي ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث زنفل وهو ضعيف عند اهل الحديث، ويقال له زنفل بن عبد الله العرفي وكان يسكن عرفات، وتفرد بهذا الحديث ولا يتابع عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا زَنْفَلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ إِذَا أَرَادَ أَمْرًا قَالَ: اللَّهُمَّ خِرْ لِي وَاخْتَرْ لِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَنْفَلٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَيُقَالُ لَهُ زَنْفَلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَرَفِيُّ وَكَانَ يَسْكُنُ عَرَفَاتٍ، وَتَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو یہ دعا فرماتے: «اللهم خر لي واختر لي» اے اللہ! میرے لیے بہتر کا انتخاب فرما اور میرے لیے بہتر پسند فرما۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے
۲- اور ہم اسے زنفل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے نہیں جانتے، اور یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، اور انہیں زنفل بن عبداللہ عرفی بھی کہتے ہیں، وہ عرفات میں رہتے تھے، وہ اس حدیث میں منفرد ہیں، یعنی یہ روایت صرف انہوں نے ہی بیان کی ہے (کسی اور نے نہیں) اور کسی نے بھی ان کی متابعت نہیں کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6638) (ضعیف) (سند میں ”زنفل“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1515) // ضعيف الجامع الصغير (4330) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3516) إسناده ضعيف
زنفل بن عبدالله: ضعيف (تق:2038)
حدیث نمبر: 3517
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا حبان بن هلال، حدثنا ابان هو ابن يزيد العطار، حدثنا يحيى، ان زيد بن سلام حدثه، ان ابا سلام حدثه، عن ابي مالك الاشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الوضوء شطر الإيمان، والحمد لله تملا الميزان وسبحان الله والحمد لله تملآن او تملا ما بين السموات والارض، والصلاة نور، والصدقة برهان، والصبر ضياء، والقرآن حجة لك او عليك، كل الناس يغدو فبائع نفسه فمعتقها او موبقها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ زَيْدَ بْنَ سَلَّامٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا سَلَّامٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوُضُوءُ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ أَوْ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو مالک اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو آدھا ایمان ہے، اور «الحمد لله» (اللہ کی حمد) میزان کو ثواب سے بھر دے گا اور «سبحان الله» اور «الحمد لله» یہ دونوں بھر دیں گے آسمانوں اور زمین کے درمیان کی جگہ کو یا ان میں سے ہر ایک بھر دے گا آسمانوں اور زمین کے درمیان کی ساری خلا کو (اجر و ثواب سے) «صلاة» نور ہے، اور «صدقة» دلیل اور کسوٹی ہے (ایمان کی) اور «صبر» روشنی ہے اور «قرآن» تمہارے حق میں حجت و دلیل ہے یا اور تمہارے خلاف حجت ہے۔ ہر انسان صبح اٹھ کر اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے چنانچہ یا تو (اللہ کے یہاں فروخت کر کے) اس کو (جہنم سے) آزاد کرا لیتا ہے، یا (شیطان کے ہاں فروخت کر کے) اس کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطھارة 1 (223) (تحفة الأشراف: 12167) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: علماء نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں، سب بہتر قول بقول صاحب تحفہ الاحوذی ہے کہ یہاں ایمان سے مراد «صلاة» ہے جیسا کہ ارشاد باری «وما كان الله ليضيع إيمانكم» (البقرۃ: ۱۴۳) میں «إيمان» سے مراد «صلاة» ہے، اور «صلاة» کے لیے وضو شرط ہے، (وضو میں طہارت کبریٰ بھی شامل ہے، اور بعض روایات میں «الطہور» کا لفظ بھی آیا ہے)۔
۲؎: صدقہ ایمان کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ کے لیے صدقہ وہی کرتا ہے جس کو اللہ پر ایمان ہوتا ہے۔
۳؎: یعنی اگر قرآن پر عمل کیا ہو گا تو قرآن فائدہ دے گا، ورنہ خلاف میں گواہی دے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (280)
87. باب
87. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3518
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن عبد الرحمن بن زياد بن انعم، عن عبد الله بن يزيد، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " التسبيح نصف الميزان، والحمد لله يملؤه، ولا إله إلا الله ليس لها دون الله حجاب حتى تخلص إليه ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه وليس إسناده بالقوي، وعبد الرحمن بن زياد بن انعم هو الإفريقي، وقد ضعفه احمد بن حنبل، ويحيى بن معين، وعبد الله بن يزيد هو ابو عبد الرحمن الحبلي.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " التَّسْبِيحُ نِصْفُ الْمِيزَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ يَمْلَؤُهُ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَيْسَ لَهَا دُونَ اللَّهِ حِجَابٌ حَتَّى تَخْلُصَ إِلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ هُوَ الإِفْرِيقِيُّ، وَقَدْ ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَيَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ هُوَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «تسبيح» (سبحان اللہ کہنے سے) نصف میزان (آدھا پلڑا) بھر جائے گا، اور «الحمد لله» میزان (پلڑے کے باقی خالی حصے) کو پورا بھر دے گا، اور «لا إله إلا الله» کے تو اللہ تک پہنچنے میں کوئی حجاب و رکاوٹ ہے ہی نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8863) (ضعیف) (سند میں ”اسماعیل بن عیاش“ غیر شامیوں سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز ”عبد الرحمن بن زیاد بن انعم افریقی“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2313 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (2510) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3518) إسناده ضعيف
عبدالرحمن الإفريقي ضعيف (تقدم:54) والحديث الآتي (الأصل: 3519) يغني عنه
حدیث نمبر: 3519
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن جري النهدي، عن رجل من بني سليم، قال: عدهن رسول الله صلى الله عليه وسلم في يدي او في يده، التسبيح نصف الميزان، والحمد لله يملؤه، والتكبير يملا ما بين السماء والارض، والصوم نصف الصبر، والطهور نصف الإيمان". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد رواه شعبة، وسفيان الثوري، عن ابي إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ جُرَيٍّ النَّهْدِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، قَالَ: عَدَّهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِي أَوْ فِي يَدِهِ، التَّسْبِيحُ نِصْفُ الْمِيزَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ يَمْلَؤُهُ، وَالتَّكْبِيرُ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّوْمُ نِصْفُ الصَّبْرِ، وَالطُّهُورُ نِصْفُ الْإِيمَانِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
بنی سلیم کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ کی انگلیوں یا اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر گن کر بتایا کہ «سبحان الله» نصف میزان رہے گا اور «الحمد لله» اس پورے پلڑے کو بھر دے گا اور «الله أكبر» آسمان و زمین کے درمیان کی ساری جگہوں کو بھر دے گا، روزہ آدھا صبر ہے، اور پاکی نصف ایمان ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے اور اس حدیث کو شعبہ اور سفیان ثوری نے ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15541) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے، اور ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہوں اور خود ”جری النھدی“ لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (296)، التعليق الرغيب (2 / 246) // ضعيف الجامع الصغير (2509) //
88. باب
88. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3520
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حاتم المؤدب، حدثنا علي بن ثابت، حدثني قيس بن الربيع وكان من بني اسد، عن الاغر بن الصباح، عن خليفة بن حصين، عن علي بن ابي طالب، قال: اكثر ما دعا به رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية عرفة في الموقف:" اللهم لك الحمد كالذي نقول وخيرا مما نقول، اللهم لك صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي وإليك مآبي ولك رب تراثي، اللهم إني اعوذ بك من عذاب القبر ووسوسة الصدر وشتات الامر، اللهم إني اعوذ بك من شر ما تجيء به الريح ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه وليس إسناده بالقوي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ وَكَانَ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، عَنِ الْأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: أَكْثَرُ مَا دَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ فِي الْمَوْقِفِ:" اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَالَّذِي نَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ، اللَّهُمَّ لَكَ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي وَإِلَيْكَ مَآبِي وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الْأَمْرِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقوف عرفہ کے دوران عرفہ کی شام اکثر جو دعا مانگا کرتے تھے وہ یہ تھی: «اللهم لك الحمد كالذي نقول وخيرا مما نقول اللهم لك صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي وإليك مآبي ولك رب تراثي اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر ووسوسة الصدر وشتات الأمر اللهم إني أعوذ بك من شر ما تجيء به الريح» اے اللہ! تیرے لیے ہی ہیں سب تعریفیں جیسی کہ تو نے ہمیں بتائی ہیں اور اس سے بہتر جیسی کہ ہم تیری تعریف کر سکتے ہیں، اے اللہ! تیرے لیے ہی ہے میری صلاۃ، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، اور تیری ہی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، اے میرے رب! تیرے لیے ہی ہے میری میراث، اے اللہ میں عذاب قبر سے، سینے کے وسوسہ سے اور متفرق و پراگندہ کام سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس شر سے جسے ہوا لے کر آتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10084) (ضعیف) (سند میں ”قیس بن ربیع“ ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (2918) // ضعيف الجامع الصغير (1214) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3520) إسناده ضعيف
قيس: ضعيف (تقدم:3308)
89. باب
89. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3521
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حاتم المؤدب، حدثنا عمار بن محمد ابن اخت سفيان الثوري، حدثنا الليث بن ابي سليم، عن عبد الرحمن بن سابط، عن ابي امامة، قال: دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بدعاء كثير لم نحفظ منه شيئا، قلنا: يا رسول الله، دعوت بدعاء كثير لم نحفظ منه شيئا، فقال: " الا ادلكم على ما يجمع ذلك كله، تقول: اللهم إنا نسالك من خير ما سالك منه نبيك محمد صلى الله عليه وسلم، ونعوذ بك من شر ما استعاذ منه نبيك محمد صلى الله عليه وسلم، وانت المستعان وعليك البلاغ ولا حول ولا قوة إلا بالله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدُعَاءٍ كَثِيرٍ لَمْ نَحْفَظْ مِنْهُ شَيْئًا، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعَوْتَ بِدُعَاءٍ كَثِيرِ لَمْ نَحْفَظْ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ: " أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَجْمَعُ ذَلِكَ كُلَّهُ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ساری دعائیں کیں، مگر مجھے ان میں سے کوئی دعا یاد نہ رہی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! دعائیں تو آپ نے بہت سی کیں مگر میں کوئی دعا یاد نہ رکھ سکا، آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتا دوں جو ان سب چیزوں (دعاؤں) کی جامع ہو، کہو: «اللهم إنا نسألك من خير ما سألك منه نبيك محمد صلى الله عليه وسلم ونعوذ بك من شر ما استعاذ منه نبيك محمد صلى الله عليه وسلم وأنت المستعان وعليك البلاغ ولا حول ولا قوة إلا بالله» اے اللہ! ہم تجھ سے وہ بھلائی (خیر) مانگتے ہیں جو تجھ سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہے اور ہم تیری پناہ چاہتے ہیں اس شر (برائی) سے جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، تو ہی مددگار ہے، اور تیرے ہی اختیار میں ہے (خیر و شر کا) پہچانا، اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور عبادت کرنے کی قوت اللہ کے سہارے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4893) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3356) // ضعيف الجامع الصغير (2165) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3521) إسناده ضعيف
ليث ضعيف (تقدم:218) و عبدالرحمن بن سابط لم يسمع من أبى أمامة رضى الله عنه، انظر حديث:3499
90. باب
90. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے «یا مقلب القلوب …» بکثرت پڑھنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3522
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو موسى الانصاري، حدثنا معاذ بن معاذ، عن ابي كعب صاحب الحرير، حدثني شهر بن حوشب، قال: قلت لام سلمة: يا ام المؤمنين، ما كان اكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان عندك، قالت: كان اكثر دعائه: " يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك "، قالت: فقلت: يا رسول الله، ما لاكثر دعاءك يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك؟ قال: يا ام سلمة: " إنه ليس آدمي إلا وقلبه بين اصبعين من اصابع الله فمن شاء اقام ومن شاء ازاغ "، فتلا معاذ: ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا سورة آل عمران آية 8، قال: وفي الباب، عن عائشة، والنواس بن سمعان، وانس، وجابر، وعبد الله بن عمرو، ونعيم بن همار. قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِي كَعْبٍ صَاحِبِ الْحَرِيرِ، حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، مَا كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدَكِ، قَالَتْ: كَانَ أَكْثَرُ دُعَائِهِ: " يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لأَكْثَرِ دُعَاءَكَ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ؟ قَالَ: يَا أُمَّ سَلَمَةَ: " إِنَّهُ لَيْسَ آدَمِيٌّ إِلَّا وَقَلْبُهُ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ فَمَنْ شَاءَ أَقَامَ وَمَنْ شَاءَ أَزَاغَ "، فَتَلَا مُعَاذٌ: رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا سورة آل عمران آية 8، قَالَ: وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَالنَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَنُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہ رضی الله عنہا سے پوچھا: ام المؤمنین! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام آپ کے یہاں ہوتا تو آپ کی زیادہ تر دعا کیا ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: آپ زیادہ تر: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے، پڑھتے تھے، خود میں نے بھی آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ اکثر یہ دعا: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے ام سلمہ! کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے اس کی دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، تو اللہ جسے چاہتا ہے (دین حق پر) قائم و ثابت قدم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا دل ٹیڑھا کر دیتا ہے پھر (راوی حدیث) معاذ نے آیت: «ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا» اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہدایت دے دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی (گمراہی) نہ پیدا کر (آل عمران: ۸)، پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، نواس بن سمعان، انس، جابر، عبداللہ بن عمرو اور نعیم بن عمار رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18164)، و مسند احمد (6/315) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح ظلال الجنة (223)
91. باب
91. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3523
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حاتم المؤدب، حدثنا الحكم بن ظهير، حدثنا علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: شكا خالد بن الوليد المخزومي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما انام الليل من الارق، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا اويت إلى فراشك فقل: اللهم رب السموات السبع وما اظلت، ورب الارضين وما اقلت، ورب الشياطين وما اضلت، كن لي جارا من شر خلقك كلهم جميعا ان يفرط علي احد منهم او ان يبغي، عز جارك وجل ثناؤك ولا إله غيرك ولا إله إلا انت ". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بالقوي، والحكم بن ظهير قد ترك حديثه بعض اهل الحديث، ويروى هذا الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا من غير هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ ظُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: شَكَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنَامُ اللَّيْلَ مِنَ الْأَرَقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ، وَرَبَّ الْأَرَضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّهِمْ جَمِيعًا أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَوْ أَنْ يَبْغِيَ، عَزَّ جَارُكَ وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَالْحَكَمُ بْنُ ظُهَيْرٍ قَدْ تَرَكَ حَدِيثَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ خالد بن ولید مخزومی رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول! میں رات بھر نیند نہ آنے کی وجہ سے سو نہیں پاتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے بسترے پر سونے کے لیے جاؤ تو پڑھو: «اللهم رب السموات السبع وما أظلت ورب الأرضين وما أقلت ورب الشياطين وما أضلت كن لي جارا من شر خلقك كلهم جميعا أن يفرط علي أحد منهم أو أن يبغي عز جارك وجل ثناؤك ولا إله غيرك لا إله إلا أنت» اے اللہ! ساتوں آسمانوں، اور جن پر وہ سایہ فگن ہیں ان سب کے رب! ساری زمینوں اور ان ساری چیزوں کے رب جن کا وہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور اے شیاطین اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان سب کے رب! اپنی ساری مخلوق کے شر سے بچانے کے لیے میرا پڑوسی بن جا، تاکہ ان میں سے کوئی مجھ پر نہ ظلم و زیادتی کر سکے، اور نہ ہی بغاوت و سرکشی کا مرتکب ہو، تیرا پڑوسی باعزت ہو، اور تیری ثنا (و تعریف) بڑھ چڑھ کر ہو، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں معبود تو بس تو ہی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے،
۲- حکم بن ظہیر جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں، بعض محدثین ان کی بیان کردہ حدیث نہیں لیتے،
۳- یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دوسری سند سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1940) (ضعیف) (سند میں ”حکم بن ظہیر“ متروک الحدیث ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الكلم الطيب (47 / 33)، المشكاة (2411) // ضعيف الجامع الصغير (408) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3523) إسناده ضعيف جدًا
الحكم بن ظهير: متروك رمي بالرفض واتهمه ابن معين (تق: 1445)
92. باب
92. باب: دکھ تکلیف کے وقت دعا پڑھنے کا باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3524
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حاتم المكتب، حدثنا ابو بدر شجاع بن الوليد، عن الرحيل بن معاوية اخي زهير بن معاوية، عن الرقاشي، عن انس بن مالك، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كربه امر قال: يا حي يا قيوم برحمتك استغيث ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ الرُّحَيْلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ أَخِي زُهَيْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَرَبَهُ أَمْرٌ قَالَ: يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی کام سخت تکلیف و پریشانی میں ڈال دیتا تو آپ یہ دعا پڑھتے: «يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث» اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے! تیری رحمت کے وسیلے سے تیری مدد چاہتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1677) (حسن) (سند میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، دیکھیے الکلم الطیب رقم 118)»

قال الشيخ الألباني: حسن الكلم الطيب (118 / 76)

Previous    13    14    15    16    17    18    19    20    21    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.