الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 534
حضرت ابو مالک اشعری ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صفائی (پاکیزگی) نصف ایمان ہے، الحمد للہ میزان کو بھر دیتا ہے، سبحان اللہ اور الحمد للہ دونوں آسمان اور زمین کے درمیان کو بھر دیتے ہیں۔ نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر روشنی ہے۔ قرآن تمھارے حق میں دلیل ہو گا، یا تمھارے خلاف۔ ہر انسان صبح کرتا ہے (گھر سے نکلتا ہے) اور اپنے آپ کو فروخت کرتا ہے (کام کاج میں مصروف ہوتا ہے) تو (اچھے اور نیک کام کر کے) اپنے آپ کو (اللہ کی پکڑ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:534]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
طہارت وپاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے،
کیونکہ دل کی صفائی وپاکزگی اور اخلاص نیت ہی پر ظاہری اطاعت وفرمانبرداری کا انحصار ہے،
اگر دل پاک وصاف نہیں ہے،
تو اعمال صالحہ بھی صادر نہیں ہوسکتے،
گویا طہارت کا تعلق باطن سے ہے اور باقی اعمال کا ظاہر ہے،
اس اعتبار سے یہ آدھا حصہ ہوا،
آدھا باطن اور آدھا ظاہر یا شطر ونصف کا لفظ،
طہارت وپاکیزگی کی اہمیت بتانے کے لیے بولا گیا ہے۔
مقصد یہ ہے،
کہ طہارت ایمان کا خاص جزو اور اس کا اہم وضروری شعبہ ہے۔
شاہ ولی اللہ نے اپنی بے مثال کتاب حجۃ البالغہ میں دین وشریعت کی اساس اور بنیاد چار چیزوں کو قرار دیا ہے،
اور باقی تمام ہدایات واحکام کو ان کے تحت داخل کیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں:
”فلاح وسعادت کی جس شاہراہ کی طرف انبیاءؑ نے دعوت دی،
اگرچہ اس کے بہت سے ابواب میں اور ہر باب کے تحت سینکڑوں ہزار وں احکام ہیں،
لیکن اپنی بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانات کے تحت آجاتے ہیں:
(1)
طہارت۔
(2)
اخبات۔
(3)
سماحت۔
(4)
عدالت۔
“ پھر شاہ صاحب نے ہر ایک کی انتہائی دلنشین حقیقت اور تفصیل بیان کی ہے۔
جو لائق مطالعہ ہے۔
(حجة اللہ البالغة: 1/53،
54) (2)
الْحَمْدُ لِلَّهِ:
میزان کو بھر دیتا ہے،
اس سے اعمال کے وجود اور میزان اعمال کا پتہ چلتا ہے،
کہ نیک اعمال کا وجود اور وزن ہے،
جس کی بنا پر ان کو تولا جائے گا۔
الحمد للہ کہنے کا مقصد اس یقین وحقیقت کا اظہار واعتراف ہے،
کہ سارے کمالات اور تمام وہ خوبیاں جن کی بنا پر کوئی حمد وثنا اور تعریف وتوصیف کا حقدار ٹھہرانا ہے،
وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہیں،
اس لیے اصل حمد وستائش اس کےلیے ہے۔
اس یقین وشہادت کا وزن اس قدر زیادہ ہے کہ اس سے ترازو اعمال بھر جائے گا۔
(3)
سُبْحَانَ اللهِ:
سبحان اللہ کہنے کا مقصد اس یقین وحقیقت کی شہادت ادا کرنا ہے،
کہ اللہ تعالیٰ کی مقدس ذات ہر عیب ونقص سے پاک ومنزہ ہے،
اور ہر اس بات سے پاک وبرتر ہے،
جو اس کی شان الوہیت کے منافی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کا اقرار واعتراف،
اس قدر بلند مرتبہ ہے،
کہ اس سے آسمان وزمین معمور ہو جاتا ہے۔
(4)
الصَّلَاةُ نُورٌ:
نماز ایک نور ہے،
جس کا یہ اثر ہے کہ انسان کو صحیح راستہ نظر آجاتا ہے،
اور وہ دنیا میں ہر قسم کی فواحش اور منکرات سے بچ کر چلتا ہے،
اس کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
”کہ نماز بلاشبہ فواحش اور منکرات سے روکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے کار گر اور بڑا ہتھیار ہے۔
“ (سورۂ عنکبوت: 45)
اور آخرت میں نماز کے نور کا ظہور اسی طرح ہو گا،
کہ وہ وہاں کے اندھیروں میں روشنی اور اجالا بن کرنمازی کا ساتھ دے گی۔
(5)
الصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ:
صدقہ وخیرات (اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے حصول کی خاطر)
انسان کے مسلم ومومن ہونے کی دلیل وبرہان ہے۔
اگر دل میں ایمان نہ ہو،
تو اپنی کمائی،
آخرت کی خاطر صدقہ کرنا آسان نہیں،
اور یہ اس صدقہ کا حکم ہے،
جو ریا نمود ونمائش اور اپنی بڑائی کے اظہار کےلیے نہ ہو۔
(6)
الصَّبْرُ ضِيَاءٌ:
صبر روشنی اور اجالا ہے،
یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت نفس کی خواہشات کو دبانا اور دین کی راہ میں ہر قسم کی تلخیاں اورناگواریاں برداشت کرنا،
اس صبر کا نتیجہ ہے۔
اس کی روشنی اور اجالے کے بغیر انسان نہ اطاعت کر سکتا ہے اورنہ معصیت ونافرمانی سے رک سکتا ہے،
اور نہ ہی سرد وگرم حالات میں جزع وفزع کرنے سے باز رہ سکتا ہے،
دین کی پابندی کا انحصار اس وصف کا مرہون منت ہے۔
(7)
الْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ:
قرآن تمہارے حق میں دلیل وحجت ہے یا تمہارے خلاف۔
اگر تم نے قرآن کو مشعل راہ بنایا اور اپنی زندگی کے تمام امور ومعاملات اس کی روشنی میں سر انجام دیئے،
تو وہ تمہارے حق میں دلیل وحجت بنے گا۔
اگر زندگی کا رویہ اس کے برخلاف ہوا،
اس کی اتباع وپیروی کو پس پشت ڈال دیا،
تو اس کی شہادت اور گواہی تمہارے خلاف ہوگی۔
(8)
كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو:
کہ ہر انسان خواہ وہ کس حال اور کس شغل میں زندگی گزار رہا ہے۔
ہر انسان کی زندگی ایک مسلسل تجارت اور سودا گری ہے اور اس کی متاع حیات اس کا سودا ہے،
اگر وہ اللہ کی بندگی اور اس کی رضا طلبی میں زندگی گزار رہا ہے،
تو اس نے متاع حیات سے انتہائی نفع حاصل کیا اور اپنی ذات کے لیے بہترین کمائی کر کے اس کی نجات کا سامان فراہم کیا،
اپنے آپ کو اللہ کے غضب اور ناراضگی سے بچا کر دوزخ سے بچا لیا۔
اس کے برعکس اگر انسان نے نفس پرستی اور خدا فراموشی کی زندگی گزاری،
تو اپنی متاع حیات کو تباہ وبرباد کیا،
جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے غضب وناراضگی کا مستحق ٹھہرا کر اپنے آپ کے لیے دوزخ میں جانے کا سامان تیار کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 534