(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما سمي الخضر لانه جلس على فروة بيضاء فاهتزت تحته خضراء "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرَ لِأَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَاهْتَزَّتْ تَحْتَهُ خَضْرَاءَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خضر نام اس لیے پڑا کہ وہ سوکھی ہوئی گھاس پر بیٹھے، تو وہ ہری گھاس میں تبدیل ہو گئی“(یہ اللہ کی طرف سے معجزہ تھا)۔
ابو الدرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے قول «وكان تحته كنز لهما»”ان دونوں یتیم بچوں کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن تھا“(الکہف: ۸۲)، کے بارے میں فرمایا: ”کنز سے مراد سونا چاندی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10996) (ضعیف) (سند میں یزید بن یوسف الصنعانی ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: (الحديث الذي في سنده: يزيد بن يوسف عن مكحول) ضعيف جدا، (الحديث الذي في سنده يزيد بن يزيد بن جابر عن مكحول) ضعيف جدا، الروض النضير (940)
قال الشيخ زبير على زئي: (3152) إسناده ضعيف يزيد بن يوسف: ضعيف (تق: 7794)
اس سند سے یزید بن یزید بن جابر کے واسطہ سے مکحول سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «* تخريج (م): انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: (الحديث الذي في سنده: يزيد بن يوسف عن مكحول) ضعيف جدا، (الحديث الذي في سنده يزيد بن يزيد بن جابر عن مكحول) ضعيف جدا، الروض النضير (940)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، وغير واحد، المعنى واحد واللفظ لمحمد بن بشار، قالوا: حدثنا هشام بن عبد الملك، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن ابي رافع، من حديث ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم في السد، قال: " يحفرونه كل يوم حتى إذا كادوا يخرقونه، قال الذي عليهم: ارجعوا فستخرقونه غدا، فيعيده الله كامثل ما كان حتى إذا بلغ مدتهم، واراد الله ان يبعثهم على الناس، قال الذي عليهم: ارجعوا فستخرقونه غدا إن شاء الله واستثنى، قال: فيرجعون فيجدونه كهيئته حين تركوه فيخرقونه فيخرجون على الناس فيستقون المياه، ويفر الناس منهم فيرمون بسهامهم في السماء فترجع مخضبة بالدماء، فيقولون: قهرنا من في الارض وعلونا من في السماء قسوة وعلوا فيبعث الله عليهم نغفا في اقفائهم فيهلكون، فوالذي نفس محمد بيده إن دواب الارض تسمن وتبطر وتشكر شكرا من لحومهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، إنما نعرفه من هذا الوجه مثل هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، المعنى واحد واللفظ لِمُحَمَّدِ بن بشار، قَالُوا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّدِّ، قَالَ: " يَحْفِرُونَهُ كُلَّ يَوْمٍ حَتَّى إِذَا كَادُوا يَخْرِقُونَهُ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا، فَيُعِيدُهُ اللَّهُ كَأَمْثَلِ مَا كَانَ حَتَّى إِذَا بَلَغَ مُدَّتَهُمْ، وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ: ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَاسْتَثْنَى، قَالَ: فَيَرْجِعُونَ فَيَجِدُونَهُ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ فَيَخْرِقُونَهُ فَيَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ فَيَسْتَقُونَ الْمِيَاهَ، وَيَفِرُّ النَّاسُ مِنْهُمْ فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ فِي السَّمَاءِ فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدِّمَاءِ، فَيَقُولُونَ: قَهَرْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ وَعَلَوْنَا مَنْ فِي السَّمَاءِ قَسْوَةً وَعُلُوًّا فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَهْلِكُونَ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ تَسْمَنُ وَتَبْطَرُ وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِثْلَ هَذَا.
ابورافع، ابوہریرہ رضی الله عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث میں سے «سد»(سکندری) سے متعلق حصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(یاجوج و ماجوج اور ان کی ذریت) اسے ہر دن کھودتے ہیں، جب وہ اس میں شگاف ڈال دینے کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کا نگراں (جو ان سے کام کرا رہا ہوتا ہے) ان سے کہتا ہے: واپس چلو کل ہم اس میں سوراخ کر دیں گے، ادھر اللہ اسے پہلے زیادہ مضبوط و ٹھوس بنا دیتا ہے، پھر جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی اور اللہ ان کو لوگوں تک لے جانے کا ارادہ کرے گا، اس وقت دیوار کھودنے والوں کا نگراں کہے گا: لوٹ جاؤ کل ہم اسے ان شاءاللہ توڑ دیں گے“، آپ نے فرمایا: ”پھر جب وہ (اگلے روز) لوٹ کر آئیں گے تو وہ اسے اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں وہ اسے چھوڑ کر گئے تھے ۱؎، پھر وہ اسے توڑ دیں گے، اور لوگوں پر نکل پڑیں گے (ٹوٹ پڑیں گے) سارا پانی پی جائیں گے، لوگ ان سے بچنے کے لیے بھاگیں گے، وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھیکیں گے، تیر خون میں ڈوبے ہوئے واپس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم زمین والوں پر غالب آ گئے اور آسمان والے سے بھی ہم قوت و بلندی میں بڑھ گئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے) پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا جس سے وہ مر جائیں گے“، آپ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، زمین کے جانور ان کا گوشت کھا کھا کر موٹے ہو جائیں گے اور اینٹھتے پھریں گے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے ایسے ہی جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 33 (4080) (تحفة الأشراف: 14670)، و مسند احمد (2/510-511) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے اس لیے کہ قتادہ کا سماع ابو رافع سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم: 1735)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس نے اس بار «إن شاء اللہ» کہا ہو گا، پہلے وہ ایسا کہنا بھول جایا کرے گا کیونکہ اللہ کی یہی مصلحت ہو گی۔
۲؎: مؤلف یہ حدیث ارشاد باری: «إن يأجوج ومأجوج مفسدون في الأرض»(الکہف: ۹۴) کی تفسیر میں لائے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4080)
قال الشيخ زبير على زئي: (3153) إسناده ضعيف / جه 4080 قتادة عنعن (تقدم: 30) في الروايات الثابتة عنه و صرح بالسماع فى رواية سعيد بن أبى عروبة (أحمد 511.510/2 و ابن ماجه: 4080) ولكن سعيد بن أبى عروبة مدلس وعنعن (تقدم:30) وصرح بالسماع فى رواية سليمان التيمي (الإحسان:6829/6790) ولكن سليمان التيمي مدلس وعنعن (تقدم:2035) وروي العقيلي فى الضعفاء (285/2ت 855) عن أبى ھريرة رضى الله عنه موقوفاً: ”يا جوج وما جوج يحفرون كل يوم السد .“ فذكر الحديث مثله . وسنده حسن موقوف ولعله مأخوز عن كعب الأحبار رحمه الله . والله أعلم
(قدسي) حدثنا محمد بن بشار، وغير واحد، قالوا: حدثنا محمد بن بكر البرساني، عن عبد الحميد بن جعفر، اخبرني ابي، عن ابن ميناء، عن ابي سعد بن ابي فضالة الانصاري وكان من الصحابة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا جمع الله الناس ليوم القيامة يوم لا ريب فيه نادى مناد من كان اشرك في عمل عمله لله احدا فليطلب ثوابه من عند غير الله فإن الله اغنى الشركاء عن الشرك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن بكر.(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنِ ابْنِ مِينَاءَ، عَنْ أَبِي سَعْدِ بْنِ أَبِي فَضَالَةَ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا جَمَعَ اللَّهُ النَّاسَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ يَوْمَ لَا رَيْبَ فِيهِ نَادَى مُنَادٍ مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ أَحَدًا فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ.
ابوسعید بن ابی فضالہ انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جس کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ہے جمع کرے گا تو پکارنے والا پکار کر کہے گا: جس نے اللہ کے واسطے کوئی کام کیا ہو اور اس کام میں کسی کو شریک کر لیا ہو، وہ جس غیر کو اس نے شریک کیا تھا اسی سے اپنے عمل کا ثواب مانگ لے، کیونکہ اللہ شرک سے کلی طور پر بیزار و بے نیاز ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن بکر کی روایت سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، وابو موسى محمد بن المثنى، قالا: حدثنا ابن إدريس، عن ابيه، عن سماك بن حرب، عن علقمة بن وائل، عن المغيرة بن شعبة، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نجران، فقالوا لي: الستم تقرءون يا اخت هارون وقد كان بين عيسى، وموسى ما كان، فلم ادر ما اجيبهم، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال: " الا اخبرتهم انهم كانوا يسمون بانبيائهم والصالحين قبلهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن إدريس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، وَأَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى نَجْرَانَ، فَقَالُوا لِي: أَلَسْتُمْ تَقْرَءُونَ يَا أُخْتَ هَارُونَ وَقَدْ كَانَ بَيْنَ عِيسَى، وَمُوسَى مَا كَانَ، فَلَمْ أَدْرِ مَا أُجِيبُهُمْ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: " أَلَا أَخْبَرْتَهُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ بِأَنْبِيَائِهِمْ وَالصَّالِحِينَ قَبْلَهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ إِدْرِيسَ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نجران بھیجا (وہاں نصاریٰ آباد تھے) انہوں نے مجھ سے کہا: کیا آپ لوگ «يا أخت هارون»۱؎ نہیں پڑھتے؟ جب کہ موسیٰ و عیسیٰ کے درمیان (فاصلہ) تھا جو تھا ۲؎ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ میں لوٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا، تو آپ نے فرمایا: ”تم نے انہیں کیوں نہیں بتا دیا کہ لوگ اپنے سے پہلے کے انبیاء و صالحین کے ناموں پر نام رکھا کرتے تھے“۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے، اور ہم اسے صرف ابن ادریس ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اے ہارون کی بہن تیرا باپ غلط آدمی نہیں تھا، اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔
۲؎: پھر تو یہ بات غلط ہے کیونکہ یہاں خطاب مریم سے ہے مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے، ہارون موسیٰ کے بھائی تھے، اور موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کے زمانوں میں ایک لمبا فاصلہ ہے، پھر مریم کو ہارون کی بہن کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟۔
۳؎: یعنی آیت میں جس ہارون کا ذکر ہے وہ مریم کے بھائی ہیں، اور وہ ہارون جو موسیٰ کے بھائی ہیں وہ اور ہیں۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا النضر بن إسماعيل ابو المغيرة، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم وانذرهم يوم الحسرة سورة مريم آية 39، قال: " يؤتى بالموت كانه كبش املح حتى يوقف على السور بين الجنة والنار، فيقال: يا اهل الجنة، فيشرئبون، ويقال: يا اهل النار، فيشرئبون، فيقال: هل تعرفون هذا؟ فيقولون: نعم هذا الموت، فيضجع فيذبح فلولا ان الله قضى لاهل الجنة الحياة فيها والبقاء لماتوا فرحا، ولولا ان الله قضى لاهل النار الحياة فيها والبقاء لماتوا ترحا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيل أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ سورة مريم آية 39، قَالَ: " يُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَأَنَّهُ كَبْشٌ أَمْلَحُ حَتَّى يُوقَفَ عَلَى السُّورِ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَشْرَئِبُّونَ، وَيُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَشْرَئِبُّونَ، فَيُقَالُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ، فَيُضْجَعُ فَيُذْبَحُ فَلَوْلَا أَنَّ اللَّهَ قَضَى لِأَهْلِ الْجَنَّةِ الْحَيَاةَ فِيهَا وَالْبَقَاءَ لَمَاتُوا فَرَحًا، وَلَوْلَا أَنَّ اللَّهَ قَضَى لِأَهْلِ النَّارِ الْحَيَاةَ فِيهَا وَالْبَقَاءَ لَمَاتُوا تَرَحًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وأنذرهم يوم الحسرة»”اے نبی! ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ“(مریم: ۳۹)، پڑھی (پھر) فرمایا: ”موت چتکبری بھیڑ کی صورت میں لائی جائے گی اور جنت و جہنم کے درمیان دیوار پر کھڑی کر دی جائے گی، پھر کہا جائے گا: اے جنتیو! جنتی گردن اٹھا کر دیکھیں گے، پھر کہا جائے گا: اے جہنمیو! جہنمی گردن اٹھا کر دیکھنے لگیں گے، پوچھا جائے گا: کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ سب کہیں گے: ہاں، یہ موت ہے، پھر اسے پہلو کے بل پچھاڑ کر ذبح کر دیا جائے گا، اگر اہل جنت کے لیے زندگی و بقاء کا فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو وہ خوشی سے مر جاتے، اور اگر اہل جہنم کے لیے جہنم کی زندگی اور جہنم میں ہمیشگی کا فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو وہ غم سے مر جاتے“۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله: " فلولا أن الله قضى ... " انظر الحديث (2696، 2683) // (465 - 2696) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3156) إسناده ضعيف النضر بن إسماعيل: ليس بالقوي (تق:7130) وأخرجه البخاري فى صحيحه (4730) من حديث الأعمش بغير ھذا اللفظ وحديثه ھو الصحيح
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا الحسين بن محمد، حدثنا شيبان، عن قتادة، في قوله: ورفعناه مكانا عليا سورة مريم آية 57 قال: حدثنا انس بن مالك، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لما عرج بي رايت إدريس في السماء الرابعة "، قال: وفي الباب، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح، وقد رواه سعيد بن ابي عروبة، وهمام، وغير واحد عن قتادة، عن انس، عن مالك بن صعصعة، عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث المعراج بطوله وهذا عندنا مختصر من ذاك.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، فِي قَوْلِهِ: وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا سورة مريم آية 57 قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا عُرِجَ بِي رَأَيْتُ إِدْرِيسَ فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَهَمَّامٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ بِطُولِهِ وَهَذَا عِنْدَنَا مُخْتَصَرٌ مِنْ ذَاكَ.
قتادہ آیت «ورفعناه مكانا عليا»۱؎ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں نے ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور سعید بن ابی عروہ، ہمام اور کئی دیگر راویوں نے قتادہ سے، قتادہ نے انس سے اور انس نے مالک بن صعصعہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث معراج پوری کی پوری روایت کی، اور یہ ہمارے نزدیک اس سے مختصر ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری خدری رضی الله عنہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: ”جتنا آپ ہمارے پاس آتے ہیں، اس سے زیادہ آنے سے آپ کو کیا چیز روک رہی ہے؟ اس پر آیت «وما نتنزل إلا بأمر ربك»”تمہارے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں اسی کے پاس ان تمام باتوں کا علم ہے جو ہمارے آگے ہیں، جو ہمارے پیچھے ہیں، اور ان کے درمیان ہیں“(مریم: ۶۴)، نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم سے حسین بن حریث نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا اور وکیع نے عمر بن ذر سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، قال: سالت مرة الهمداني، عن قول الله عز وجل: وإن منكم إلا واردها سورة مريم آية 71 فحدثني ان عبد الله بن مسعود حدثهم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يرد الناس النار ثم يصدرون منها باعمالهم، فاولهم كلمح البرق ثم كالريح ثم كحضر الفرس ثم كالراكب في رحله ثم كشد الرجل ثم كمشيه "، قال: هذا حديث حسن، ورواه شعبة، عن السدي، فلم يرفعه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا سورة مريم آية 71 فَحَدَّثَنِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثُمَّ يَصْدُرُونَ مِنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ، فَأَوَّلُهُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ كَالرِّيحِ ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ كَمَشْيِهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنِ السُّدِّيِّ، فَلَمْ يَرْفَعْهُ.
سدی کہتے ہیں کہ میں نے مرہ ہمدانی سے آیت «وإن منكم إلا واردها»”یہ امر یقینی ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس پر عبور کرے گا“(مریم: ۷۱)، کا مطلب پوچھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے ان لوگوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ جہنم میں جائیں گے، پھر اس سے اپنے اعمال کے سہارے نکلیں گے، پہلا گروہ (جن کے اعمال بہت اچھے ہوں گے) بجلی چمکنے کی سی تیزی سے نکل آئے گا۔ پھر ہوا کی رفتار سے، پھر گھوڑے کے تیز دوڑنے کی رفتار سے، پھر سواری لیے ہوئے اونٹ کی رفتار سے، پھر دوڑتے شخص کی، پھر پیدل چلنے کی رفتار سے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو شعبہ نے سدی سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔