سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
20. باب وَمِنْ سُورَةِ مَرْيَمَ
20. باب: سورۃ مریم سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3155
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، وابو موسى محمد بن المثنى، قالا: حدثنا ابن إدريس، عن ابيه، عن سماك بن حرب، عن علقمة بن وائل، عن المغيرة بن شعبة، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نجران، فقالوا لي: الستم تقرءون يا اخت هارون وقد كان بين عيسى، وموسى ما كان، فلم ادر ما اجيبهم، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال: " الا اخبرتهم انهم كانوا يسمون بانبيائهم والصالحين قبلهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن إدريس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، وَأَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى نَجْرَانَ، فَقَالُوا لِي: أَلَسْتُمْ تَقْرَءُونَ يَا أُخْتَ هَارُونَ وَقَدْ كَانَ بَيْنَ عِيسَى، وَمُوسَى مَا كَانَ، فَلَمْ أَدْرِ مَا أُجِيبُهُمْ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: " أَلَا أَخْبَرْتَهُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ بِأَنْبِيَائِهِمْ وَالصَّالِحِينَ قَبْلَهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ إِدْرِيسَ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نجران بھیجا (وہاں نصاریٰ آباد تھے) انہوں نے مجھ سے کہا: کیا آپ لوگ «يا أخت هارون» ۱؎ نہیں پڑھتے؟ جب کہ موسیٰ و عیسیٰ کے درمیان (فاصلہ) تھا جو تھا ۲؎ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ میں لوٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا، تو آپ نے فرمایا: تم نے انہیں کیوں نہیں بتا دیا کہ لوگ اپنے سے پہلے کے انبیاء و صالحین کے ناموں پر نام رکھا کرتے تھے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح غریب ہے، اور ہم اسے صرف ابن ادریس ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الآداب 1 (2135) (تحفة الأشراف: 11519) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اے ہارون کی بہن تیرا باپ غلط آدمی نہیں تھا، اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔
۲؎: پھر تو یہ بات غلط ہے کیونکہ یہاں خطاب مریم سے ہے مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے، ہارون موسیٰ کے بھائی تھے، اور موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کے زمانوں میں ایک لمبا فاصلہ ہے، پھر مریم کو ہارون کی بہن کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟۔
۳؎: یعنی آیت میں جس ہارون کا ذکر ہے وہ مریم کے بھائی ہیں، اور وہ ہارون جو موسیٰ کے بھائی ہیں وہ اور ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن مختصر تحفة الودود

   صحيح مسلم5598مغيرة بن شعبةيسمون بأنبيائهم والصالحين قبلهم
   جامع الترمذي3155مغيرة بن شعبةألا أخبرتهم أنهم كانوا يسمون بأنبيائهم والصالحين قبلهم
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3155 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3155  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے ہارون کی بہن تیرا باپ غلط آدمی نہیں تھا،
اور نہ تیری ماں بدکارتھی۔

2؎:
پھر تو یہ بات غلط ہے کیوں کہ یہاں خطاب مریم سے ہے مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے،
ہارون موسیٰ کے بھائی تھے،
اور موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے زمانوں میں ایک لمبا فاصلہ ہے،
پھر مریم کو ہارون کی بہن کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
3؎:
یعنی آیت میں جس ہارون کا ذکر ہے وہ مریم کے بھائی ہیں،
اور وہ ہارون جو موسیٰ کے بھائی ہیں وہ اور ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3155   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5598  
حضرت مغیرہ بن شعبہ علیہ السلام بیان کرتے ہیں، جب میں علاقہ نجران آیا، لوگوں نے مجھ سے سوال کیا اور کہا، تم پڑھتے ہو، ہارون کی بہن ﴿يَا اُختَ هٰارُونَ﴾ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5598]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت مریم علیہا السلام کو ﴿يَا أُخْتَ هَارُونَ﴾ کہہ کر پکارا گیا ہے،
حالانکہ ہارون علیہ السلام،
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہیں،
جو حضرت مریم اور عیسیٰ علیہم السلام سے کافی عرصہ پہلے گزر چکے ہیں،
آپﷺ نے فرمایا کہ ہارون سے مراد یہاں موسیٰ علیہ السلام کا بھائی نہیں ہے،
بلکہ اور ہارون ہے اور بنو اسرائیل،
اپنی اولاد کے نام گزشتہ انبیاء اور نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیتے تھے اور حضرت مریم کو ﴿يَا أُخْتَ هَارُونَ﴾ اس انسان کی نیکی اور پارسائی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے کہا گیا،
وگرنہ وہ ان کا حقیقی بھائی نہ تھا اور اب علماء کے نزدیک بالاتفاق،
انبیاء کے نام پر نام رکھنا جائز ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو محمد نام رکھنے سے منع فرمایا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نام کا شخص اگر کوئی غلط حرکت کرے تو لوگ اس کی غلط کاری پر لعن طعن کرتے ہیں تو گویا اس کے سبب آپ کے نام کو برا بھلا کہا گیا تو یہ آپ کے نام کی عظمت و احترام کے منافی ہے،
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا،
یہ نام نہ رکھو،
لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ یہ نام آپ نے خود بعض لوگوں کا رکھا ہے تو وہ خاموش ہو گئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5598   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.