عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا:
”جتنا آپ ہمارے پاس آتے ہیں، اس سے زیادہ آنے سے آپ کو کیا چیز روک رہی ہے؟ اس پر آیت
«وما نتنزل إلا بأمر ربك» ”تمہارے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں اسی کے پاس ان تمام باتوں کا علم ہے جو ہمارے آگے ہیں، جو ہمارے پیچھے ہیں، اور ان کے درمیان ہیں
“ (مریم: ۶۴)، نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم سے حسین بن حریث نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا اور وکیع نے عمر بن ذر سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4731
4731. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے فرمایا: ”آپ جتنا ہماری ملاقات کو آیا کرتے ہیں، اس سے زیادہ ملنے کے لیے کیوں نہیں آتے؟ آپ کے لیے کیا چیز باعث رکاوٹ ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اور ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے۔ ہمارے آگے اور پیچھے کی کل چیزیں اسی کی ملکیت ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4731]
حدیث حاشیہ:
یعنی ہم فرشتے پروردگار کے حکم کے تابع ہیں جب حکم ہوتا ہے اس وقت اترتے ہیں ہم خود مختار نہیں ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4731
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7455
7455. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”اے جبر ئیل! آپ کو ہمارے پاس اس سے زیادہ مرتبہ آنے میں کیا رکاوٹ ہے جتنا آپ سے پہلے آتے رہتے ہیں؟“ تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔ اسی کا ہے وہ سب کچھ جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے۔۔۔۔۔۔ آیت کریمہ میں مذکورہ جواب سیدنا محمد ﷺ کے لیے نازل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7455]
حدیث حاشیہ:
اس آیت اور حدیث سےحضرت اما م بخاری نے یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور حکم حادث ہوتا ہے کیونکہ فرشتوں کو وقتاً فوقتاً ارشادات اور احکام صادر ہوتے رہتے ہیں رد ہوا ان لوگوں کا جو اللہ کا کلام قدیم اور ازلی جانتے ہیں۔
البتہ یہ صحیح ہے کہ اللہ کا کلام مخلوق نہیں ہے بلکہ اس کی ذات کی طرح غیر مخلوق ہے۔
باقی اس میں آواز ہے، حروف ہیں جس لغت میں منظور ہوتا ہے اللہ اس میں کلام کرتا ہے۔
اہلحدیث کا یہی اعتقاد ہے اور جن متکمین نے اس کے خلاف اعتقاد قائم کئے ہیں وہ خو د بھی بہک گئے۔
دوسروں کو بھی بہکا گئے۔
ضلوا فأضلوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7455
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3218
3218. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے فرمایا: ”تم ہمارے پاس جتنا اب آتے ہو اس سے زیادہ مرتبہ کیوں نہیں آتے؟“ راوی کابیان ہے کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”ہم تو اس وقت آتے ہیں جب آپ کے پروردگار کا حکم ہوتا ہے۔ جو کچھ ہمارے سامنے یا پیچھے ہے سب اسی کا ہے۔۔۔ “ آخر آیت تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3218]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ فرشتے ہیں اور وہ حکم الٰہی کے تابع ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3218
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3218
3218. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے فرمایا: ”تم ہمارے پاس جتنا اب آتے ہو اس سے زیادہ مرتبہ کیوں نہیں آتے؟“ راوی کابیان ہے کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”ہم تو اس وقت آتے ہیں جب آپ کے پروردگار کا حکم ہوتا ہے۔ جو کچھ ہمارے سامنے یا پیچھے ہے سب اسی کا ہے۔۔۔ “ آخر آیت تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3218]
حدیث حاشیہ:
1۔
قرآن کریم کے سیاق وسباق سے اس آیت کا کوئی مفہوم سمجھ میں نہیں آسکتا۔
رسول اللہ ﷺ کی وضاحت سے یہ عقدہ حل ہواکہ یہ حضرت جبریل ؑ کا مقولہ ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ احادیث سے بالا قرآن فہمی کا دعویٰ کرنا ضلالت وگمراہی کے علاوہ کچھ نہیں۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ فرشتے ایک صاحب شعورمخلوق ہیں اور وہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔
امام بخاری ؒ نے ان کا وجود ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کو پیش کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3218
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4731
4731. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے فرمایا: ”آپ جتنا ہماری ملاقات کو آیا کرتے ہیں، اس سے زیادہ ملنے کے لیے کیوں نہیں آتے؟ آپ کے لیے کیا چیز باعث رکاوٹ ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اور ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے۔ ہمارے آگے اور پیچھے کی کل چیزیں اسی کی ملکیت ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4731]
حدیث حاشیہ:
1۔
ہم فرشتے خود مختار مخلوق نہیں بلکہ آپ کے پروردگار کے ماتحت ہیں جب حکم ہوتا ہے اس وقت اترتےہیں۔
2۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض تفسیری اجزاء ہیں جن کا علم صاحب وحی کے بتائے بغیر نہیں ہو سکتا کیونکہ بعض آیات سیاق وسباق کی محتاج ہوتی ہیں اور صرف حدیث ہی میں اس کا بیان ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اس جنت کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انھیں بناتے ہیں جو پرہیز گار ہوتے ہیں اور ہم (فرشتے)
نازل نہیں ہوتے جب تک آپ کے رب کا حکم نہ ہو۔
“ (مریم 19۔
63۔
64)
پہلی آیت میں متکلم اللہ تعالیٰ ہے دوسری آیت جو اس کے بالکل متصل ہے عبارت کے تسلسل کے پیش نظر دوسری آیت کا متکلم بھی اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہیے لیکن اس صورت میں لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی کسی دوسرے کے حکم سے نازل ہوتا ہے لیکن یہ مفہوم بالکل غیر اسلامی ہے اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ دوسری آیت فرشتوں کا جواب ہے جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیا تھا جب آپ نے ان سے یہ پوچھا تھا کہ تم بار بار کیوں نہیں آتے؟ فرشتوں کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں۔
اللہ کے حکم کے بغیر پر بھی نہیں ہلا سکتے ہمارا چڑھنا اترنا اللہ کے حکم کے تابع ہے وہی جانتا ہے کہ کس فرشتے کو کس پیغمبر کے پاس کس وقت بھیجنا ہے مقرب ترین فرشتے اور معزز ترین پیغمبر کو یہ بھی اختیار نہیں کہ جب چاہے کہیں چلا جائے جا کسی کو اپنے پاس بلالے۔
الغرض! ہمارا جلد یا دیر سے آنا اس کی حکمت کے تابع ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4731
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7455
7455. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”اے جبر ئیل! آپ کو ہمارے پاس اس سے زیادہ مرتبہ آنے میں کیا رکاوٹ ہے جتنا آپ سے پہلے آتے رہتے ہیں؟“ تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔ اسی کا ہے وہ سب کچھ جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے۔۔۔۔۔۔ آیت کریمہ میں مذکورہ جواب سیدنا محمد ﷺ کے لیے نازل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7455]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات و ظروف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام کی شدید ضرورت تھی۔
جب حضرت جبریل علیہ السلام کافی دیر بعد متعلقہ ہدایات لے کر آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا:
تم ہمارے پاس جیسے آیا کرتے ہو اس سے زیادہ دفعہ کیوں نہیں آتے؟ تو اس وقت انھوں نے وضاحت فرمائی کہ ہم کوئی باختیار مخلوق نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بندے ہیں جب ہمیں حکم ملتا ہے حاضر ہو جاتے ہیں اس دیر میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحتیں ہوتی ہیں۔
2۔
حدیث میں رب کے حکم سے مراد اس کا اذن ہے جسے کلام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور یہ کلام باعتبار اصل صفت ذاتیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے اور ہمیشہ متکلم رہے گا۔
لیکن باعتبار متعلق صفت فعلیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا اس کی مشیت کے تابع ہے جب چاہے جو چاہے کلامکرے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتاہے تو اتنا ہی کہتا ہے کہ "ہو جا"تو وہ (اسی وقت)
ہو جاتی ہے۔
“ (یٰس36۔
82)
اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے البتہ تعلق کے اعتبار سے حادث ہے کیونکہ فرشتوں کو وقتاً فوقتاً ارشادات و احکام صادر ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام امین کو زمین پر اترنے کا حکم دیتا ہے تو وہ تووہ اتر پڑتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اترنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیرو برکت کا پیش خیمہ ہوتا ہے یہی وہ فیصلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء اور اہل ایمان کے لیے پہلے سے کیا ہوا ہے واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7455