سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: علم اور فہم دین
Chapters on Knowledge
1. باب مَا جَاءَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ
1. باب: جب اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے​۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2645
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، حدثني عبد الله بن سعيد بن ابي هند، عن ابيه، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين " , وفي الباب عن عمر، وابي هريرة، ومعاوية , هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ " , وفي الباب عن عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَمُعَاوِيَةَ , هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، ابوہریرہ، اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (5667)، وانظر مسند احمد (1/306) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: دین کی سمجھ سے مراد کتاب و سنت کا علم، ذخیرہ احادیث میں صحیح، ضعیف اور موضوع روایات کا علم، اسلامی شریعت کے احکام و مسائل کا علم اور حلال و حرام میں تمیز پیدا کرنے کا ملکہ ہے، اس نظر یہ سے اگر دیکھا جائے تو صحابہ کرام، محدثین عظام سے بڑھ کر اس حدیث کا مصداق اور کون ہو سکتا ہے، جنہوں نے بے انتہائی محنت کر کے احادیث کے منتشر ذخیرہ کو جمع کیا اور پھر انہیں مختلف کتب و ابواب کے تحت فقہی انداز میں مرتب کیا، افسوس صد افسوس ایسے لوگوں پر جو محدثین کی ان خدمات جلیلہ کو نظر انداز کر کے ایسے لوگوں کو فقیہ گردانتے ہیں جن کی فقاہت میں کتاب و سنت کی بجائے ان کی اپنی آراء کا زیادہ دخل ہے جب کہ محدثین کرام نے اپنی آراء سے یکسر اجتناب کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (220)
2. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ طَلَبِ الْعِلْمِ
2. باب: علم حاصل کرنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2646
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو اسامة، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا إلى الجنة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان (و ہموار) کر دیتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 18 (2699)، سنن ابی داود/ العلم 1 (3643)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (225)، ویأتي في القراءت 12 (2945) (تحفة الأشراف: 12486)، و مسند احمد (2/252، 325، 407)، وسنن الدارمی/المقدمة 32 (356) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، معلوم ہوا کہ علم کے حصول کے لیے سفر کرنا مستحب ہے، موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام کے ساتھ علم حاصل کرنے کے لیے سفر کیا، اور عبداللہ بن قیس رضی الله عنہ سے ایک حدیث کے علم کے لیے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ نے ایک مہینہ کا سفر طے کیا، علماء سلف حدیث کی طلب میں دور دراز کا سفر کرتے تھے، اگر خلوص نیت کے ساتھ علم شرعی کے حصول کی کوشش کی جائے تو اللہ رب العالمین جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (225)
حدیث نمبر: 2647
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، قال: حدثنا خالد بن يزيد العتكي، عن ابي جعفر الرازي، عن الربيع بن انس، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من خرج في طلب العلم فهو في سبيل الله حتى يرجع " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ورواه بعضهم فلم يرفعه.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْعَتَكِيُّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَرْفَعْهُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں (شمار) ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعض اہل علم نے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 830) (حسن) (اس کے تین رواة ”خالد بن یزید“ ابو جعفر رازی“ اور ”ربیع بن انس“ پر کلام ہے، اور حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے، نیز ابوہریرہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب 87، 88، السراج المنیر 254، و الضعیفة رقم 2037، تراجع الألبانی 354)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (220)، الضعيفة (2037)، الروض النضير (109) // ضعيف الجامع الصغير (5570) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2647) إسناده ضعيف
أبو جعفر الرازي ضعيف عن الربيع بن أنس وحسن الحديث عن غيره (وانظر د 1182)
تعديلات:
وروي الحاكم (91/1 ح 309) من حديث أبى هريره عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ”من جاء مسجدنا هذا يتعلم خيرًا أو يعلمه فهو كالمجاهد فى سبيل الله ومن جاء بغير هذا كان كالرجل يرى الشي يعجبه وليس له . . .“ وسنده حسن
حدیث نمبر: 2648
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا محمد بن المعلى، حدثنا زياد بن خيثمة، عن ابي داود، عن عبد الله بن سخبرة، عن سخبرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من طلب العلم كان كفارة لما مضى " , قال ابو عيسى: هذا حديث ضعيف الإسناد، ابو داود يضعف في الحديث، ولا نعرف لعبد الله بن سخبرة كبير شيء ولا لابيه، واسم ابي داود: نفيع الاعمى تكلم فيه قتادة وغير واحد من اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُعَلَّى، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَخْبَرَةَ، عَنْ سَخْبَرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفُ الْإِسْنَادِ، أَبُو دَاوُدَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَلَا نَعْرِفُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَخْبَرَةَ كَبِيرَ شَيْءٍ وَلَا لِأَبِيهِ، وَاسْمُ أَبِي دَاوُدَ: نُفَيْعٌ الْأَعْمَى تَكَلَّمَ فِيهِ قَتَادَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
سخبرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو علم حاصل کرے گا تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند ضعیف ہے،
۲- راوی ابوداود نفیع اعمی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،
۳- ہم عبداللہ بن سخبرہ سے مروی زیادہ حدیثیں نہیں جانتے اور نہ ان کے باپ کی (یعنی یہ دونوں باپ بیٹے غیر معروف قسم کے لوگ ہیں)، ابوداؤد کا نام نفیع الاعمیٰ ہے۔ ان کے بارے میں قتادہ اور دوسرے بہت سے اہل علم نے کلام کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3814) (موضوع) (سند میں ابوداود نفیع اعمی متروک الحدیث راوی ہے، دیکھئے: الضعیفة 5017)»

قال الشيخ الألباني: موضوع، المشكاة (221)، الضعيفة (5017) // ضعيف الجامع الصغير (5686) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2648) إسناده ضعيف جدًا
أبو داود نفيع: متروك وقد كذبه ابن معين (تق: 7181)
3. باب مَا جَاءَ فِي كِتْمَانِ الْعِلْمِ
3. باب: علم چھپانے کی مذمت۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2649
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن بديل بن قريش اليامي الكوفي، حدثنا عبد الله بن نمير، عن عمارة بن زاذان، عن علي بن الحكم، عن عطاء، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سئل عن علم علمه ثم كتمه الجم يوم القيامة بلجام من نار " , وفي الباب عن جابر، وعبد الله بن عمرو , قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ " , وفي الباب عن جَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 9 (3658)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 24 (261) (تحفة الأشراف: 14196) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہو کہ علم دین سے متعلق سوال کرنے والے کو دین کی صحیح بات نہ بتلانا یا دین کی معلومات حاصل کرنے سے متعلق و سائل (مثلاً کتابوں وغیرہ) کا انکار کر دینا سخت وعید اور گناہ کا باعث ہے، اسی طرح دین کے صحیح مسائل کو اس کی جانکاری کے باوجود چھپانا اور لوگوں کے سامنے واضح نہ کرنا باعث گناہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (264)
4. باب مَا جَاءَ فِي الاِسْتِيصَاءِ بِمَنْ يَطْلُبُ الْعِلْمَ
4. باب: علم (دین) حاصل کرنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2650
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابو داود الحفري، عن سفيان، عن ابي هارون العبدي، قال: كنا ناتي ابا سعيد فيقول: مرحبا بوصية رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الناس لكم تبع وإن رجالا ياتونكم من اقطار الارضين يتفقهون في الدين فإذا اتوكم فاستوصوا بهم خيرا " , قال ابو عيسى: قال علي بن عبد الله: قال يحيى بن سعيد: كان شعبة يضعف ابا هارون العبدي، قال يحيى بن سعيد: ما زال ابن عون يروي، عن ابي هارون العبدي حتى مات، قال ابو عيسى: وابو هارون اسمه: عمارة بن جوين.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي أَبَا سَعِيدٍ فَيَقُولُ: مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: كَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ أَبَا هَارُونَ الْعَبْدِيَّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا زَالَ ابْنُ عَوْنٍ يَرْوِي، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ حَتَّى مَاتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو هَارُونَ اسْمُهُ: عُمَارَةُ بْنُ جُوَيْنٍ.
ابوہارون کہتے ہیں کہ ہم ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے پاس (علم دین حاصل کرنے کے لیے) آتے، تو وہ کہتے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ تمہارے پیچھے ہیں ۱؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی بن عبداللہ بن المدینی نے کہا: یحییٰ بن سعید کہتے تھے: شعبہ ابوہارون عبدی کو ضعیف قرار دیتے تھے،
۲- یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: ابن عون جب تک زندہ رہے ہمیشہ ابوہارون عبدی سے روایت کرتے رہے،
۳- ابوہارون کا نام عمارہ بن جوین ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 22 (249) (تحفة الأشراف: 4262) (ضعیف) (سند میں ابو ہارون العیدی عمارة بن جوین مشہور کذابین میں سے ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی لوگ تمہارے افعال و اقوال کے تابع ہیں، چونکہ تم نے مجھ سے مکارم اخلاق کی تعلیم حاصل کی ہے، اس لیے تمہارے بعد آنے والے تمہارے مطیع و پیروکار ہوں گے اس لیے ان کی دلجوئی کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (249) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (50)، المشكاة (215)، ضعيف الجامع الصغير (1797) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2650) إسناده ضعيف جدًا / جه 249
أبو هارون العبدي متروك (تقدم: 1950) و روي الحاكم (881 ح 298) بسند آخر عن أبى سعيد الخدري أنه قال: ”مرحبا بوصية رسول الله صلى الله عليه وسلم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوصينا بكم“ وصححه الحاكم ووافقه الذهبي على شرط مسلم! وفي سنده نظر .
تعديلات
و روي ابن أبى حاتم عن ابن مسعود رضى الله عنه: جاء صفوان بن عسال إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: ”مرحبًا ماجاء بك؟ فقال: يا رسول الله! جئت أطلب العلم۔ قال: مرحبًا بطالب العلم، إن طالب العلم لتحف به الملائكة وتظله بأجنحتها ويركب بعضها بعضًا حتي يبلغوا السماء الدنيا من حبهم لما طلب۔“ (كتاب الجرح والتعديل 13/2، وسنده حسن)
حدیث نمبر: 2651
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا نوح بن قيس، عن ابي هارون العبدي، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ياتيكم رجال من قبل المشرق يتعلمون، فإذا جاءوكم فاستوصوا بهم خيرا " , قال: فكان ابو سعيد إذا رآنا قال: مرحبا بوصية رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث ابي هارون , عن ابي سعيد الخدري.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَأْتِيكُمْ رِجَالٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَتَعَلَّمُونَ، فَإِذَا جَاءُوكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا " , قَالَ: فَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ إِذَا رَآنَا قَالَ: مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي هَارُونَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس پورب سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔ راوی حدیث کہتے ہیں: ابو سعید خدری رضی الله عنہ کا حال یہ تھا کہ جب وہ ہمیں (طالبان علم دین کو) دیکھتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق ہمیں خوش آمدید کہتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ہم اس حدیث کو صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (249) // ضعيف سنن ابن ماجة الصفحة (19)، ضعيف الجامع الصغير (6411) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2651) إسناده ضعيف جدًا / انظر الحديث السابق: 2650
5. باب مَا جَاءَ فِي ذَهَابِ الْعِلْمِ
5. باب: علم کے ختم ہو جانے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2652
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني، حدثنا عبدة بن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يترك عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا " , وفي الباب عن عائشة، وزياد بن لبيد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى هذا الحديث الزهري، عن عروة، عن عبد الله بن عمرو، وعن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا " , وفي الباب عن عَائِشَةَ، وَزِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ هَذَا.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے، لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعہ سے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ اپنا سردار جاہلوں کو بنا لیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے، اور زہری نے (ایک دوسری سند سے) عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی الله عنہا کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- اس باب میں عائشہ اور زیاد بن لبید سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 34 (100)، والإعتصام 8 (7307)، صحیح مسلم/العلم 5 (2673)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 8 (52) (تحفة الأشراف: 8883)، و مسند احمد (2/162، 190)، وسنن الدارمی/المقدمة 26 (245) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علمائے دین ختم ہو جائیں گے، جاہل پیشوا، امام اور سردار بن جائیں گے، انہیں قرآن و حدیث کا کچھ بھی علم نہیں ہو گا، پھر بھی یہ مجتہد و مفتی بن کر دینی مسائل کو بیان کریں گے، اپنے فتووں اور من گھڑت مسئلوں کے ساتھ یہ دوسروں کی گمراہی کا باعث بنیں گے۔ اے رب العالمین! اس امت کو ایسے جاہل پیشوا اور امام سے محفوظ رکھ، آمین۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (52)
حدیث نمبر: 2653
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني معاوية بن صالح، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن ابيه جبير بن نفير، عن ابي الدرداء، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فشخص ببصره إلى السماء ثم قال:" هذا اوان يختلس العلم من الناس حتى لا يقدروا منه على شيء "، فقال زياد بن لبيد الانصاري: كيف يختلس منا وقد قرانا القرآن؟ فوالله لنقرانه، ولنقرئنه نساءنا، وابناءنا، فقال: " ثكلتك امك يا زياد إن كنت لاعدك من فقهاء اهل المدينة، هذه التوراة والإنجيل عند اليهود , والنصارى فماذا تغني عنهم " , قال جبير: فلقيت عبادة بن الصامت، قلت: الا تسمع إلى ما يقول اخوك ابو الدرداء؟ فاخبرته بالذي قال ابو الدرداء، قال: " صدق ابو الدرداء إن شئت لاحدثنك باول علم يرفع من الناس الخشوع يوشك ان تدخل مسجد جماعة فلا ترى فيه رجلا خاشعا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ومعاوية بن صالح ثقة عند اهل الحديث، ولا نعلم احدا تكلم فيه غير يحيى بن سعيد القطان، وقد روي عن معاوية بن صالح نحو هذا، وروى بعضهم هذا الحديث، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن ابيه، عن عوف بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ:" هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ "، فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ: كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ؟ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ، وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا، وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ: " ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ , وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ " , قَالَ جُبَيْرٌ: فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قُلْتُ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، قَالَ: " صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنَ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ نَحْوُ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا: ایسا وقت (آ گیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہو گا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا: (اللہ کے رسول!) علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود و نصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے؟ ۱؎ (کیا فائدہ پہنچایا تورات اور انجیل نے ان کو؟)۔ جبیر (راوی) کہتے ہیں: میری ملاقات عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کیا کہتے ہیں؟ پھر ابوالدرداء رضی الله عنہ نے جو کہا تھا وہ میں نے انہیں بتا دیا۔ انہوں نے کہا: ابوالدرداء رضی الله عنہ نے سچ کہا۔ اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اور یحییٰ بن سعید قطان کے سوا ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو،
۳- معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے،
۴- بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر سے، عبدالرحمٰن نے اپنے والد جبیر سے، جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10928) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان کتابوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا؟ جس طرح یہود و نصاریٰ تورات و انجیل کو پا کر اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے، قرب قیامت میں یہی حال تم مسلمانوں کا بھی ہو گا، کیونکہ تمہارے اچھے علماء ختم ہو جائیں گے، اور قرآن تمہارے پاس ہو گا، پھر بھی تم اس کے فیض سے محروم رہو گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج اقتضاء العلم العمل (89)
6. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَطْلُبُ بِعِلْمِهِ الدُّنْيَا
6. باب: علم (دین) سے دنیا حاصل کرنے والے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2654
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو الاشعث احمد بن المقدام العجلي البصري، حدثنا امية بن خالد، حدثنا إسحاق بن يحيى بن طلحة، حدثني ابن كعب بن مالك، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من طلب العلم ليجاري به العلماء، او ليماري به السفهاء، او يصرف به وجوه الناس إليه ادخله الله النار " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وإسحاق بن يحيى بن طلحة ليس بذاك القوي عندهم، تكلم فيه من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْحَاق بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ عِنْدَهُمْ، تُكُلِّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے ۱؎، کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۳- اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ محدثین کے نزدیک کچھ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں، ان کے حافظہ کے سلسلے میں کلام کیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11140) (حسن) (سند میں اسحاق ضعیف ہیں شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کرے ان پر اپنی علمیت و قابلیت کا سکہ جمائے۔
۲؎: معلوم ہوا کہ علم دین حاصل کرنے والے کی نیت صالح ہونی چاہیئے، وہ کسی دنیاوی حرص و طمع کے بغیر اس کے حصول کی کوشش کرے، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم رہے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (223 - 225)، التعليق الرغيب (1 / 68)

قال الشيخ زبير على زئي: (2654) إسناده ضعيف
إسحاق بن يحيي ضعيف (تق: 390) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن ماجه (253) وغيره

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.