سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: علم اور فہم دین
3. باب مَا جَاءَ فِي كِتْمَانِ الْعِلْمِ
باب: علم چھپانے کی مذمت۔
حدیث نمبر: 2649
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ " , وفي الباب عن جَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 9 (3658)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 24 (261) (تحفة الأشراف: 14196) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہو کہ علم دین سے متعلق سوال کرنے والے کو دین کی صحیح بات نہ بتلانا یا دین کی معلومات حاصل کرنے سے متعلق و سائل (مثلاً کتابوں وغیرہ) کا انکار کر دینا سخت وعید اور گناہ کا باعث ہے، اسی طرح دین کے صحیح مسائل کو اس کی جانکاری کے باوجود چھپانا اور لوگوں کے سامنے واضح نہ کرنا باعث گناہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (264)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2649 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2649
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوکہ علم دین سے متعلق سوال کرنے والے کو دین کی صحیح بات نہ بتلانا یا دین کی معلومات حاصل کرنے سے متعلق وسائل (مثلا کتابوں وغیرہ) کا انکار کردینا سخت وعید اور گناہ کا باعث ہے،
اسی طرح دین کے صحیح مسائل کو اس کی جانکاری کے باوجود چھپانا اور لوگوں کے سامنے واضح نہ کرنا باعث گناہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2649
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 223
´دین کی بات چھپانے والے کے لئے وعید`
«. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «من سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے دین کی کوئی ایسی بات پوچھی گئی ہو جس کو وہ جانتا ہے۔ پھر اس نے اس کو چھپا لیا یعنی نہیں بتایا، تو قیامت کے روز دینی بات چھپانے کی وجہ سے اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔“ اس حدیث کو احمد و ابوداؤد و ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 223]
تحقیق الحدیث:
یہ حدیث حسن ہے۔
اسے ترمذی نے حسن، ابن حبان [الاحسان: 95]، [حاكم 1؍1۔ 1 ح344] اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
◄ عطاء بن ابی رباح کی اس روایت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے سماع میں کلام ہے، اگرچہ مستدرک الحاکم میں قاسم بن محمد بن حماد کی روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے۔
◄ قاسم بن محمد الدلال پر تین محدثین نے جرح اور تین نے توثیق کی ہے۔! صحیح ابن حبان [الاحسان: 96] اور المستدرک للحاکم [1؍1۔ 2 ح346 وصححه] وغیرہما میں اس کا حسن لذاتہ شاہد: «من كتم علما ألجمه الله يوم القيامة بلجام من نار.» موجود ہے، جس کے ساتھ یہ حسن ہے۔ «والحمد لله»
فقہ الحدیث:
➊ حق چھپانا حرام ہے۔
➋ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو علم کی بعض باتیں عام لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرنا بھی جائز ہے۔ مثلاً:
① نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ایک بات بتائی پھر اسے لوگوں کو بتانے سے منع کر دیا تھا تاکہ کہیں لوگ اسی پر بھروسا نہ کر بیٹھیں۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 128 - 129] اور [صحيح مسلم 32]
② سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو ایک خواب کی تعبیر میں کچھ غلطی لگی تھی، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أصبت بعضا وأخطأت بعضا.»
”تمہاری بعض باتیں صحیح ہیں اور بعض میں غلطی لگی ہے۔“ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آپ مجھے ضرور بتائیں کہ مجھے کیا غلطی لگی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم نہ کھاؤ۔“ [صحيح بخاري: 7046،صحيح مسلم: 2269]
یعنی آپ نے وہ غلطی انہیں نہیں بتائی تھی، لہٰذا اگر کوئی عذر ہو یا فساد وغیرہ کا ڈر ہو تو بعض باتیں نہ بتانا بھی جائز ہے لیکن اہم موقع اور ضروری بیان کے وقت علم کی بات چھپانا جائز نہیں بلکہ کتمانِ حق ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
③ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک علم (جس کا تعلق سیاسی اُمور سے تھا) بتایا تھا، جسے انہوں نے لوگوں کے سامنے بیان نہیں کیا۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 120]
➌ سنن ابن ماجہ [264] والی روایت کی سند یوسف بن ابراہیم کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن صحیح ابن حبان [96] والے مذکورہ حسن شاہد کی وجہ سے یہ روایت بھی حسن ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 223
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3658
´علم چھپانے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے کوئی دین کا مسئلہ پوچھا گیا اور اس نے اسے چھپا لیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائے گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3658]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اس کا تعلق بقول فضیل بن عیاض فرائض سے ہے۔
جن کا سیکھناعام مسلمان پر فرض ہے۔
تو عالم کو ان کا بتانا فرض ہے۔
علاوہ ازیں جو واجب نہیں۔
ان کا بتانا بھی واجب نہیں۔
واللہ اعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3658
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث261
´علم چھپانے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی علم دین یاد رکھتے ہوئے اسے چھپائے، تو اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنا کر لایا جائے گا۔“ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 261]
اردو حاشہ:
(1)
امام خطابی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
اس سے وہ علم مراد ہے جس کا سائل کو علم ہونا انتہائی ضروری ہے، مثلا:
نماز کا طریقہ وغیرہ۔
نفلی علوم کے بارے میں یہ وعید لازم نہیں آتی، مثلا:
نحو، صرف یا منطق و فلسفہ کا علم۔
(2)
بعض اوقات ایک مسئلہ سائل کی ذہنی سطح سے بلند ہوتا ہے جسے سمجھنا اس کے لیے دشوار ہوتا ہے، مثلا:
ایک عام آدمی جو صرف یہ سمجھ سکتا ہے کہ حدیث صحیح ہوتی ہے یا ضعیف۔
وہ اگر ضعیف کے اسباب یا کسی راوی کے بارے میں علمائے جراح و تعدیل کے اقوال کے بارے میں سوال کرے تو اسے مناسب طریقے سے ٹالا جا سکتا ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے کی کیا وجہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں وجہ بیان کرنے کی بجائے اس کی حکمت اور فائدہ بیان فرما دیا۔
ارشاد ہے:
﴿يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِىَ مَوَٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلْحَجِّ﴾ (البقرة: 189)
”لوگ آپ سے چاند کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے وہ لوگوں کے لیے وقت (کے اندازے)
کا ذریعہ ہے، خصوصا حج کے لیے۔“
اسی طرح جب روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا گیا:
﴿قُلِ ٱلرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّى﴾ (بنی اسرائیل: 85)
”فرما دیجئے روح میرے رب کے حکم سے ہے۔
" یعنی اللہ کے حکم سے ایک چیز پیدا ہو گئی ہے جس کی حقیقت تم نہیں سمجھ سکتے۔“
(3)
جس شخص کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ وہ علم کا ناجائز استعمال کرے گا اسے بھی جواب دینے سے گریز کیا جا سکتا ہے۔
حجاج بن یوسف نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے سخت سزا کیا دی ہے؟ انہوں نے عرنیین کا واقعہ بیان فرما دیا جس میں ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ آئے انہیں مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو وہ بیمار ہو گئے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاج کے لیے اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب تجویز فرمایا۔
آپ نے انہیں صدقے کے اونٹوں کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ اپنا علاج کر سکیں۔
یہ لوگ جب صحت یاب ہو گئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لوٹ لیے اور آپ کے چرواہے کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گرفتاری کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ایک لشکر بھیجا جو انہیں گرفتار کر کے لے آیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیے اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائیاں پھیر دیں اور انہیں دھوپ میں پیاسے ڈال دیا حتی کہ تڑپ تڑپ کر مر گئے۔
انہوں نے آپ کے چرواہے کو اسی طرح قتل کیا تھا، لہذا ان کے عمل کے مطابق سزا دی گئی۔ (صحيح البخاري، الوضوء، باب ابوال الابل والدواب...الخ، حديث: 233)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
کاش وہ یہ حدیث بیان نہ کرتے کیونکہ حجاج بن یوسف اسی حدیث سے دلیل لے کر لوگوں کو سخت اذیتیں دیتا تھا۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر، سورہ مائدہ: 33)
(4)
جب کسی کا امتحان لینے کی غرض سے سوال کیا جائے تاکہ اس کی علمی استعداد کا صحیح اندازہ ہو سکے تو جس سے سوال کیا گیا ہے اسے اس کی معلومات کے مطابق جواب دینے کا موقع دینا چاہیے، دوسرے آدمی کا اس کی مدد کرنا درست نہیں، کیونکہ اس سےامتحان کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات اس کی وجہ سے ایک لائق آدمی کی حق تلفی ہو جاتی ہے اور نا اہل آدمی کو وہ مقام مل جاتا ہے جس کا وہ مستحق نہیں۔
امتحان میں ناجائز ذرائع استعمال کر کے کامیاب ہونا اس وعید کے تحت آتا ہے۔ (المتشبع بما لم يعط، كلابس ثوبي زور) (صحيح مسلم‘ اللباس، باب النهي عن التزوير في اللباس وغيره، والتشبع بما لم يعط، حديث: 2129)
”جس شخص کو ایک چیز حاصل نہیں اور وہ تکلفاً خود کو اس سے بہرہ ور ظاہر کرتا ہے، اس نے گویا جھوٹ کے دو کپڑے پہن رکھے ہیں۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 261
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث266
´علم چھپانے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھا گیا، اور جاننے کے باوجود اس نے اس کو چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 266]
اردو حاشہ:
جو مسئلہ معلوم نہ ہو، اسے اپنی رائے سے بنا کر بیان کرنا بھی بڑا گناہ ہے۔
ہاں تلاش کے باوجود قرآن یا حدیث میں سے نہ ملے، تب اجتہاد کرنا جائز ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 266