ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم سے پہلے مال غنیمت کی خرید و فروخت سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 24 (2196)، (فی سیاق الحول من ذلک) (تحفة الأشراف: 4073) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن ابراہیم الباہلی، اور ”محمد بن زید العبدی“ دونوں مجہول راوی ہیں، اور ”جہضم“ میں کلام ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4015 - 4016 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (1563) إسناده ضعيف / جه 2196 محمد بن إبراھيم الباھلي مجھول (تق:5703) وفي شيخه نظر و لبعض الحديث شواھد
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى النيسابوري، حدثنا ابو عاصم النبيل، عن وهب بن خالد، قال: حدثتني ام حبيبة بنت عرباض بن سارية، ان اباها اخبرها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهى ان توطا السبايا حتى يضعن ما في بطونهن "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن رويفع بن ثابت، وحديث عرباض حديث غريب، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقال الاوزاعي: إذا اشترى الرجل الجارية من السبي وهي حامل، فقد روي عن عمر بن الخطاب، انه قال: لا توطا حامل حتى تضع، قال الاوزاعي: واما الحرائر، فقد مضت السنة فيهن بان امرن بالعدة، حدثني بذلك علي بن خشرم، قال: حدثنا عيسى بن يونس، عن الاوزاعي، بهذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، عَنْ وَهْبٍ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، أَنَّ أَبَاهَا أَخْبَرَهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى أَنْ تُوطَأَ السَّبَايَا حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، وَحَدِيثُ عِرْبَاضٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: إِذَا اشْتَرَى الرَّجُلُ الْجَارِيَةَ مِنَ السَّبْيِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: لَا تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّى تَضَعَ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: وَأَمَّا الْحَرَائِرُ، فَقَدْ مَضَتِ السُّنَّةُ فِيهِنَّ بِأَنْ أُمِرْنَ بِالْعِدَّةِ، حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حاملہ) قیدی عورتوں سے جماع کرنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اپنے پیٹ میں موجود بچوں کو جن نہ دیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عرباض رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں رویفع بن ثابت رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص قیدی عورتوں میں سے لونڈی خریدے اور وہ حاملہ ہو تو اس سلسلے میں عمر بن خطاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حاملہ جب تک بچہ نہ جنے اس سے وطی نہیں کی جائے گی، ۴- اوزاعی کہتے ہیں: آزاد عورتوں کے سلسلے میں تو یہ سنت چلی آ رہی ہے کہ ان کو عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وتقدم برقم 1474 (تحفة الأشراف: 9893) (صحیح) (سند میں ”ام حبیبہ“ مجہول ہیں مگر شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگ میں جو عورتیں گرفتار ہو جائیں گرفتاری سے ہی ان کا پچھلا نکاح ٹوٹ جاتا ہے، حمل سے ہوں تو وضع حمل کے بعد اور اگر غیر حاملہ ہوں تو ایک ماہواری کے بعد ان سے جماع کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ تقسیم کے بعد اس کے حصہ میں آئی ہوں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر الحديث (1474) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا برقم (1191 - 1517) //
ہلب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نصاریٰ کے کھانا کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”کوئی کھانا تمہارے دل میں شک نہ پیدا کرے کہ اس کے سلسلہ میں نصرانیت سے تمہاری مشابہت ہو جائے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأطعمة 24 (3784)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 26 (280)، (تحفة الأشراف: 11734)، و مسند احمد (5/226) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ ملت اسلامیہ ملت ابراہیمی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے کھانے سے متعلق زیادہ شک میں پڑنا اپنے آپ کو اس رہبانیت سے قریب کرنا ہے جو نصاریٰ کا دین ہے، لہٰذا اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ امام ترمذی نے اس باب میں مشرکین کے کھانے کا ذکر کیا ہے، جب کہ حدیث میں مشرکین کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے، حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ترمذی نے مشرکین سے اہل کتاب کو مراد لیا ہے۔
اس سند سے عدی بن حاتم رضی الله عنہ سے بھی اس جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اہل کتاب کے کھانے کے سلسلے میں رخصت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9876) (حسن) (سند میں ”مری بن قطری“ لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی حسن لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2830)
17. باب فِي كَرَاهِيَةِ التَّفْرِيقِ بَيْنَ السَّبْىِ
17. باب: قیدیوں کے درمیان تفریق کرنے کی کراہت کا بیان۔
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن عمر الشيباني، اخبرنا عبد الله بن وهب، اخبرني حيي، عن ابي عبد الرحمن الحبلي، عن ابي ايوب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من فرق بين والدة وولدها، فرق الله بينه وبين احبته يوم القيامة "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن علي، وهذا حديث حسن غريب، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، كرهوا التفريق بين السبي، بين الوالدة وولدها، وبين الولد والوالد، وبين الإخوة، قال ابو عيسى: قد سمعت البخاري، يقول: سمع ابو عبد الرحمن الحبلي، عن ابي ايوب الانصاري.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ الشَّيْبَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حُيَيٌّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا، فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، كَرِهُوا التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ، بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا، وَبَيْنَ الْوَلَدِ وَالْوَالِدِ، وَبَيْنَ الْإِخْوَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: قَدْ سَمِعْتُ البُخَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے ماں اور اس کے بچہ کے درمیان جدائی پیدا کی، اللہ قیامت کے دن اسے اس کے دوستوں سے جدا کر دے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ قیدیوں میں ماں اور بچے کے درمیان، باپ اور بچے کے درمیان اور بھائیوں کے درمیان جدائی کو ناپسند سمجھتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو عبيدة بن ابي السفر واسمه احمد بن عبد الله الهمداني الكوفي، ومحمود بن غيلان، قالا: حدثنا ابو داود الحفري، حدثنا يحيى بن زكرياء بن ابي زائدة، عن سفيان بن سعيد، عن هشام، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن علي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن جبرائيل هبط عليه، فقال له: خيرهم، يعني: اصحابك، في اسارى بدر، القتل او الفداء، على ان يقتل منهم قابلا مثلهم، قالوا: الفداء، ويقتل منا "، وفي الباب، عن ابن مسعود، وانس، وابي برزة، وجبير بن مطعم، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث الثوري، لا نعرفه إلا من حديث ابن ابي زائدة، وروى ابو اسامة، عن هشام، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه، وروى ابن عون، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وابو داود الحفري اسمه عمر بن سعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أبو عُبَيْدَةَ بن أبي السَّفَرِ وَاسْمُهُ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ جِبْرَائِيلَ هَبَطَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: خَيِّرْهُمْ، يَعْنِي: أَصْحَابَكَ، فِي أُسَارَى بَدْرٍ، الْقَتْلَ أَوِ الْفِدَاءَ، عَلَى أَنْ يُقْتَلَ مِنْهُمْ قَابِلًا مِثْلُهُمْ، قَالُوا: الْفِدَاءَ، وَيُقْتَلُ مِنَّا "، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَرَوَى أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، وَرَوَى ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَأَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ اسْمُهُ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل نے میرے پاس آ کر کہا: اپنے ساتھیوں کو بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں اختیار دیں، وہ چاہیں تو انہیں قتل کریں، چاہیں تو فدیہ لیں، فدیہ کی صورت میں ان میں سے آئندہ سال اتنے ہی آدمی قتل کئے جائیں گے، ان لوگوں نے کہا: فدیہ لیں گے اور ہم میں سے قتل کئے جائیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف ابن ابی زائدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- ابواسامہ نے بسند «هشام عن ابن سيرين عن عبيدة عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- ابن عون نے بسند «ابن سيرين عن عبيدة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے، ۴- اس باب میں ابن مسعود، انس، ابوبرزہ، اور جبیر بن مطعم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صحابہ کی یہ دلی خواہش تھی کہ یہ قیدی مشرف بہ اسلام ہو جائیں اور مستقبل میں اپنی جان دے کر شہادت کا درجہ حاصل کر لیں (حدیث کی سند اور معنی دونوں پر کلام ہے؟)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3973 / التحقيق الثاني)، الإرواء (5 / 48 - 49)
قال الشيخ زبير على زئي: (1567) إسناده ضعيف ھشام بن حسان عنعن (تقدم: 460) سفيان الثوري عنعن (تقدم:746)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن عمه، عن عمران بن حصين، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " فدى رجلين من المسلمين برجل من المشركين "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وعم ابي قلابة هو ابو المهلب واسمه عبد الرحمن بن عمرو ويقال: معاوية بن عمرو، وابو قلابة اسمه عبد الله بن زيد الجرمي، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان للإمام ان يمن على من شاء من الاسارى، ويقتل من شاء منهم، ويفدي من شاء، واختار بعض اهل العلم القتل على الفداء، وقال الاوزاعي: بلغني ان هذه الآية منسوخة قوله تعالى: فإما منا بعد وإما فداء سورة محمد آية 4، نسختها واقتلوهم حيث ثقفتموهم سورة البقرة آية 191، حدثنا بذلك هناد، حدثنا ابن المبارك، عن الاوزاعي، قال إسحاق بن منصور قلت لاحمد: إذا اسر الاسير، يقتل او يفادى احب إليك؟ قال: إن قدروا ان يفادوا فليس به باس، وإن قتل فما اعلم به باسا، قال إسحاق: الإثخان احب إلي، إلا ان يكون معروفا، فاطمع به الكثير.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَدَى رَجُلَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَمُّ أَبِي قِلَابَةَ هُوَ أَبُو الْمُهَلَّبِ وَاسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ: مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، وَأَبُو قِلَابَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ الْجَرْمِيُّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ لِلْإِمَامِ أَنْ يَمُنَّ عَلَى مَنْ شَاءَ مِنَ الْأُسَارَى، وَيَقْتُلَ مَنْ شَاءَ مِنْهُمْ، وَيَفْدِي مَنْ شَاءَ، وَاخْتَارَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْقَتْلَ عَلَى الْفِدَاءِ، وقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: بَلَغَنِي أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ مَنْسُوخَةٌ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً سورة محمد آية 4، نَسَخَتْهَا وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ سورة البقرة آية 191، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ قُلْتُ لِأَحْمَدَ: إِذَا أُسِرَ الْأَسِيرُ، يُقْتَلُ أَوْ يُفَادَى أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: إِنْ قَدَرُوا أَنْ يُفَادُوا فَلَيْسَ بِهِ بَأْسٌ، وَإِنْ قُتِلَ فَمَا أَعْلَمُ بِهِ بَأْسًا، قَالَ إِسْحَاق: الْإِثْخَانُ أَحَبُّ إِلَيَّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْرُوفًا، فَأَطْمَعُ بِهِ الْكَثِيرَ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوقلابہ کا نام عبداللہ بن زید جرمی ہے، ۳- اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ قیدیوں میں سے جس پر چاہے احسان کرے اور جسے چاہے قتل کرے، اور جن سے چاہے فدیہ لے، ۴- بعض اہل علم نے فدیہ کے بجائے قتل کو اختیار کیا ہے، ۵- امام اوزاعی کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ آیت «فإما منا بعد وإما فداء» منسوخ ہے اور آیت: «واقتلوهم حيث ثقفتموهم» اس کے لیے ناسخ ہے، ۶- اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سوال کیا: آپ کے نزدیک کیا بہتر ہے جب قیدی گرفتار ہو تو اسے قتل کیا جائے یا اس سے فدیہ لیا جائے، انہوں نے جواب دیا، اگر وہ فدیہ لے سکیں تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر انہیں قتل کر دیا جائے تو بھی میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، ۷- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک خون بہانا زیادہ بہتر ہے جب یہ مشہور ہو اور اکثر لوگ اس کی خواہش رکھتے ہوں۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر اخبره، ان امراة وجدت في بعض مغازي رسول الله صلى الله عليه وسلم مقتولة، فانكر رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك، " ونهى عن قتل النساء والصبيان "، وفي الباب، عن بريدة، ورباح ويقال: رياح بن الربيع، والاسود بن سريع، وابن عباس، والصعب بن جثامة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، كرهوا قتل النساء والولدان، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي، ورخص بعض اهل العلم في البيات، وقتل النساء فيهم والولدان وهو قول احمد، وإسحاق، ورخصا في البيات.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتُولَةً، فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، " وَنَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ "، وَفِي الْبَاب، عَنْ بُرَيْدَةَ، وَرَبَاحٍ وَيُقَالُ: رِيَاحُ بْنُ الرَّبِيعِ، وَالْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، كَرِهُوا قَتْلَ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيَاتِ، وَقَتْلِ النِّسَاءِ فِيهِمْ وَالْوِلْدَانِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَخَّصَا فِي الْبَيَاتِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت کی اور عورتوں و بچوں کے قتل سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں بریدہ، رباح، ان کو رباح بن ربیع بھی کہتے ہیں، اسود بن سریع ابن عباس اور صعب بن جثامہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ عورتوں اور بچوں کے قتل کو حرام سمجھتے ہیں، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ۴- کچھ اہل علم نے رات میں ان پر چھاپہ مارنے کی اور اس میں عورتوں اور بچوں کے قتل کی رخصت دی ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ان دونوں نے رات میں چھاپہ مارنے کی رخصت دی ہے۔
صعب بن جثامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے گھوڑوں نے مشرکین کی عورتوں اور بچوں کو روند ڈالا ہے، آپ نے فرمایا: ”وہ بھی اپنے آبا و اجداد کی قسم سے ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس حالت میں یہ سب اپنے بڑوں کے حکم میں تھے اور یہ مراد نہیں ہے کہ قصداً ان کا قتل کرنا مباح تھا، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو پامال کئے بغیر ان کے بڑوں تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ بڑوں کے ساتھ مخلوط ہونے کی وجہ سے یہ سب مقتول ہوئے، ایسی صورت میں ان کا قتل جائز ہو گا۔