(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن سعد بن مالك، قال: عادني رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا مريض، فقال: " اوصيت "، قلت: نعم، قال: " بكم "، قلت: بمالي كله في سبيل الله، قال: " فما تركت لولدك؟ " قلت: هم اغنياء بخير، قال: " اوص بالعشر "، فما زلت اناقصه حتى قال: " اوص بالثلث والثلث كثير ". قال ابو عبد الرحمن: ونحن نستحب ان ينقص من الثلث لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم والثلث كثير. قال: وفي الباب، عن ابن عباس. قال ابو عيسى: حديث سعد حديث حسن صحيح، وقد روي عنه من غير وجه، وقد روي عنه: " والثلث كبير "، والعمل على هذا عند اهل العلم لا يرون ان يوصي الرجل باكثر من الثلث، ويستحبون ان ينقص من الثلث، قال سفيان الثوري: كانوا يستحبون في الوصية الخمس دون الربع، والربع دون الثلث، ومن اوصى بالثلث فلم يترك شيئا ولا يجوز له إلا الثلث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضٌ، فَقَالَ: " أَوْصَيْتَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " بِكَمْ "، قُلْتُ: بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: " فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ؟ " قُلْتُ: هُمْ أَغْنِيَاءُ بِخَيْرٍ، قَالَ: " أَوْصِ بِالْعُشْرِ "، فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ حَتَّى قَالَ: " أَوْصِ بِالثُّلُثِ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ ". قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَنَحْنُ نَسْتَحِبُّ أَنْ يَنْقُصَ مِنَ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ: " وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ "، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ أَنْ يُوصِيَ الرَّجُلُ بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ، وَيَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَنْقُصَ مِنَ الثُّلُثِ، قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ فِي الْوَصِيَّةِ الْخُمُسَ دُونَ الرُّبُعِ، وَالرُّبُعَ دُونَ الثُّلُثِ، وَمَنْ أَوْصَى بِالثُّلُثِ فَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا وَلَا يَجُوزُ لَهُ إِلَّا الثُّلُثُ.
سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی، میں بیمار تھا۔ تو آپ نے پوچھا: کیا تم نے وصیت کر دی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں (کر دی ہے)، آپ نے فرمایا: ”کتنے کی؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی۔ آپ نے پوچھا: ”اپنی اولاد کے لیے تم نے کیا چھوڑا؟“ میں نے عرض کیا: وہ مال سے بے نیاز ہیں، آپ نے فرمایا: ”دسویں حصے کی وصیت کرو“۔ تو میں برابر اسے زیادہ کراتا رہا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ”تہائی مال کی وصیت کرو، اور تہائی بھی زیادہ ہے“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ تہائی مال کی وصیت بھی زیادہ ہے مستحب یہی سمجھتے ہیں کہ تہائی سے بھی کم کی وصیت کی جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سعد رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعد رضی الله عنہ سے یہ حدیث دوسرے اور طرق سے بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔ اور ان سے «والثلث كثير» کی جگہ «والثلث كبير»”تہائی بڑی مقدار ہے“ بھی مروی ہے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس بات کو صحیح قرار نہیں دیتے کہ آدمی تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے اور مستحب سمجھتے ہیں کہ تہائی سے کم کی وصیت کرے، ۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: لوگ چوتھائی حصہ کے مقابل میں پانچویں حصہ کو اور تہائی کے مقابلے میں چوتھائی حصہ کو مستحب سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ جس نے تہائی کی وصیت کر دی اس نے کچھ نہیں چھوڑا۔ اور اس کے لیے تہائی سے زیادہ جائز نہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف البصري، حدثنا بشر بن المفضل، عن عمارة بن غزية، عن يحيى بن عمارة، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لقنوا موتاكم لا إله إلا الله ". قال: وفي الباب، عن ابي هريرة، وام سلمة، وعائشة، وجابر، وسعدى المرية وهي: امراة طلحة بن عبيد الله. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حديث حسن غريب صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَسُعْدَى الْمُرِّيَّةِ وَهِيَ: امْرَأَةُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مرنے والے لوگوں کو جو بالکل مرنے کے قریب ہوں «لا إله إلا الله» کی تلقین ۱؎ کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابو سعید خدری کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ام سلمہ، عائشہ، جابر، سعدی مریہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- سعدی مریہ طلحہ بن عبیداللہ کی بیوی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی مرنے والے کے پاس «لا إله إلا الله» پڑھ کر اسے کلمہ شہادت کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی اسے پڑھنے لگے، براہ راست اس سے پڑھنے کے لیے نہ کہا جائے کیونکہ وہ تکلیف کی شدت سے جھنجھلا کر انکار بھی کر سکتا ہے جس سے کفر لازم آئے گا، لیکن شیخ ناصرالدین البانی نے اسے درست قرار نہیں دیا وہ کہتے ہیں کہ تلقین کا مطلب یہ ہے کہ اسے «لا إله إلا الله» پڑھنے کے لیے کہا جائے۔ افضل یہ ہے کہ مریض کی حالت دیکھ کر عمل کیا جائے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن شقيق، عن ام سلمة، قالت: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا حضرتم المريض او الميت فقولوا خيرا، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون ". قالت: فلما مات ابو سلمة اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله إن ابا سلمة مات، قال: " فقولي: اللهم اغفر لي وله، واعقبني منه عقبى حسنة "، قالت: فقلت: فاعقبني الله منه من هو خير منه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: شقيق هو: ابن سلمة ابو وائل الاسدي. قال ابو عيسى: حديث ام سلمة حديث حسن صحيح، وقد كان يستحب ان يلقن المريض عند الموت، قول: لا إله إلا الله، وقال بعض اهل العلم: إذا قال ذلك مرة فما لم يتكلم بعد ذلك، فلا ينبغي ان يلقن ولا يكثر عليه في هذا، وروي عن ابن المبارك انه لما حضرته الوفاة، جعل رجل يلقنه لا إله إلا الله واكثر عليه، فقال له عبد الله: إذا قلت مرة فانا على ذلك ما لم اتكلم بكلام، وإنما معنى قول عبد الله: إنما اراد ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من كان آخر قوله لا إله إلا الله دخل الجنة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِيضَ أَوِ الْمَيِّتَ فَقُولُوا خَيْرًا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ ". قَالَتْ: فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ مَاتَ، قَالَ: " فَقُولِيَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبَى حَسَنَةً "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: فَأَعْقَبَنِي اللَّهُ مِنْهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: شَقِيقٌ هُوَ: ابْنُ سَلَمَةَ أَبُو وَائِلٍ الْأَسَدِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَانَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُلَقَّنَ الْمَرِيضُ عِنْدَ الْمَوْتِ، قَوْلَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا قَالَ ذَلِكَ مَرَّةً فَمَا لَمْ يَتَكَلَّمْ بَعْدَ ذَلِكَ، فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُلَقَّنَ وَلَا يُكْثَرَ عَلَيْهِ فِي هَذَا، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، جَعَلَ رَجُلٌ يُلَقِّنُهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَكْثَرَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: إِذَا قُلْتُ مَرَّةً فَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مَا لَمْ أَتَكَلَّمْ بِكَلَامٍ، وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّمَا أَرَادَ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ آخِرُ قَوْلِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”جب تم مریض کے پاس یا کسی مرے ہوئے آدمی کے پاس آؤ تو اچھی بات کہو ۱؎، اس لیے کہ جو تم کہتے ہو اس پر ملائکہ آمین کہتے ہیں“، جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا، تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسلمہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: تو تم یہ دعا پڑھو: «اللهم اغفر لي وله وأعقبني منه عقبى حسنة»”اے اللہ! مجھے اور انہیں معاف فرما دے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما“ وہ کہتی ہیں کہ: جب میں نے یہ دعا پڑھی تو اللہ نے مجھے ایسی ہستی عطا کر دی جو ان سے بہتر تھی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ مستحب سمجھا جاتا تھا کہ مریض کو اس کی موت کے وقت «لا إله إلا الله» کی تلقین کی جائے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ (میت) اسے ایک بار کہہ دے اور اس کے بعد پھر نہ بولے تو مناسب نہیں کہ اس کے سامنے باربار یہ کلمہ دہرایا جائے، ۴- ابن مبارک کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان کی موت کا وقت آیا، تو ایک شخص انہیں «لا إله إلا الله» کی تلقین کرنے لگا اور باربار کرنے لگا، عبداللہ بن مبارک نے اس سے کہا: جب تم نے ایک بار کہہ دیا تو میں اب اسی پر قائم ہوں جب تک کوئی اور گفتگو نہ کروں، عبداللہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مراد اس سے وہی تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ”جس کا آخری قول «لا إله إلا الله» ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 3 (919)، سنن ابی داود/ الجنائز 19 (3115)، سنن النسائی/الجنائز 7 (1826)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 4 (1447)، (تحفة الأشراف: 18162)، مسند احمد (6/291، 306) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابن ماجہ/الجنائز 55 (1598)، موطا امام مالک/الجنائز 14 (42) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: مثلاً مریض سے کہو ”اللہ تمہیں شفاء دے“ اور مرے ہوئے آدمی سے کہو ”اللہ تمہاری مغفرت فرمائے“۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن الهاد، عن موسى بن سرجس، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، انها قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالموت وعنده قدح فيه ماء، وهو يدخل يده في القدح ثم يمسح وجهه بالماء، ثم يقول:" اللهم اعني على غمرات الموت، وسكرات الموت ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَرْجِسَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْمَوْتِ وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَاءٌ، وَهُوَ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ بِالْمَاءِ، ثُمَّ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ، وسَكَرَاتِ الْمَوْتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سکرات کے عالم میں تھے، آپ کے پاس ایک پیالہ تھا، جس میں پانی تھا، آپ پیالے میں اپنا ہاتھ ڈالتے پھر اپنے چہرے پر ملتے اور فرماتے: «اللهم أعني على غمرات الموت أو سكرات الموت»”اے اللہ! سکرات الموت میں میری مدد فرما“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 64 (1623)، (تحفة الأشراف: 17556) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن سرجس مجہول الحال راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1623) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (357)، المشكاة (1564)، ضعيف الجامع الصغير (1176) //
(مرفوع) حدثنا الحسن بن الصباح البزار البغدادي، حدثنا مبشر بن إسماعيل الحلبي، عن عبد الرحمن بن العلائ، عن ابيه، عن ابن عمر، عن عائشة قالت: ما اغبط احدا بهون موت بعد الذي رايت من شدة موت رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: سالت ابا زرعة عن هذا الحديث. وقلت له: من عبدالرحمن بن العلائ؟ فقال: هو العلائ بن اللجلاج. وإنما عرفه من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْحَلَبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلاَئِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا أَغْبِطُ أَحَدًا بِهَوْنِ مَوْتٍ بَعْدَ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ شِدَّةِ مَوْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ. وَقُلْتُ لَهُ: مَنْ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْعَلاَئِ؟ فَقَالَ: هُوَ الْعَلاَئُ بْنُ اللَّجْلاَجِ. وَإِنَّمَا عَرَّفَهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی جو شدت میں نے دیکھی، اس کے بعد میں کسی کی جان آسانی سے نکلنے پر رشک نہیں کرتی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالرحمٰن بن علاء کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا: وہ علاء بن اللجلاج ہیں، میں اسے اسی طریق سے جانتا ہوں۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”مومن کی جان تھوڑا تھوڑا کر کے نکلتی ہے جیسے جسم سے پسینہ نکلتا ہے اور مجھے گدھے جیسی موت پسند نہیں“۔ عرض کیا گیا: گدھے کی موت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اچانک موت“۔
(قدسي) حدثنا حدثنا زياد بن ايوب، حدثنا مبشر بن إسماعيل الحلبي، عن تمام بن نجيح، عن الحسن، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من حافظين رفعا إلى الله ما حفظا من ليل او نهار فيجد الله في اول الصحيفة وفي آخر الصحيفة خيرا إلا قال الله تعالى: اشهدكم اني قد غفرت لعبدي ما بين طرفي الصحيفة ".(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْحَلَبِيُّ، عَنْ تَمَّامِ بْنِ نَجِيحٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ حَافِظَيْنِ رَفَعَا إِلَى اللَّهِ مَا حَفِظَا مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ فَيَجِدُ اللَّهُ فِي أَوَّلِ الصَّحِيفَةِ وَفِي آخِرِ الصَّحِيفَةِ خَيْرًا إِلَّا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي مَا بَيْنَ طَرَفَيِ الصَّحِيفَةِ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بھی دونوں لکھنے والے (فرشتے) دن و رات کسی کے عمل کو لکھ کر اللہ کے پاس لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ دفتر کے شروع اور اخیر میں خیر (نیک کام) لکھا ہوا پاتا ہے تو فرماتا ہے: ”میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے بندے کے سارے گناہ معاف کر دینے جو اس دفتر کے دونوں کناروں شروع اور اخیر کے درمیان میں ہیں““۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (التحفہ: 533) (ضعیف جداً) (اس کے راوی تمام بن نجیح ضعیف ہیں)»
قال الشيخ زبير على زئي: (981) إسناده ضعيف تمام بن نجيح: ضعيف (د 4854)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن المثنى بن سعيد، عن قتادة، عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " المؤمن يموت بعرق الجبين ". قال: وفي الباب، عن ابن مسعود. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد قال بعض اهل العلم: لا نعرف لقتادة سماعا من عبد الله بن بريدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمُؤْمِنُ يَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِينِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا نَعْرِفُ لِقَتَادَةَ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ.
بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن پیشانی کے پسینہ کے ساتھ مرتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن بریدہ سے قتادہ کے سماع کا علم نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 5 (1829)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 5 (1552)، مسند احمد (5/350، 357، 360)، (تحفة الأشراف: 1992) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مومن موت کی شدت سے دو چار ہوتا ہے تاکہ یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن جائے، (شدت کے وقت آدمی کی پیشانی پر پسینہ آ جاتا ہے) یا یہ مطلب ہے کہ موت اسے اچانک اس حال میں پا لیتی ہے کہ وہ رزق حلال اور ادائیگی فرائض میں اس قدر مشغول رہتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ سے تر رہتی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد الكوفي، وهارون بن عبد الله البزاز البغدادي، قالا: حدثنا سيار هو: ابن حاتم، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل على شاب وهو في الموت، فقال: " كيف تجدك "، قال: والله يا رسول الله اني ارجو الله، وإني اخاف ذنوبي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يجتمعان في قلب عبد في مثل هذا الموطن إلا اعطاه الله ما يرجو وآمنه مما يخاف ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روى بعضهم هذا الحديث عن ثابت، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ هُوَ: ابْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ: " كَيْفَ تَجِدُكَ "، قَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي أَرْجُو اللَّهَ، وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس آئے اور وہ سکرات کے عالم میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے کو کیسا پا رہے ہو؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کی قسم، اللہ کے رسول! مجھے اللہ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دونوں چیزیں اس جیسے وقت میں جس بندے کے دل میں جمع ہو جاتی ہیں تو اللہ اسے وہ چیز عطا کر دیتا ہے جس کی وہ اس سے امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن اور غریب ہے، ۲- اور بعض لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «نعی»(موت کی خبر دینے)۱؎ سے بچو، کیونکہ «نعی» جاہلیت کا عمل ہے“۔ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: «نعی» کا مطلب میت کی موت کا اعلان ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں حذیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: کسی کی موت کی خبر دینے کو «نعی» کہتے ہیں، «نعی» جائز ہے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر دی ہے، اسی طرح زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہما کی وفات کی خبریں بھی آپ نے لوگوں کو دی ہیں، یہاں جس «نعی» سے بچنے کا ذکر ہے اس سے اہل جاہلیت کی «نعی» ہے، زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مر جاتا تھا تو وہ ایک شخص کو بھیجتے جو محلوں اور بازاروں میں پھر پھر کر اس کے مرنے کا اعلان کرتا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف تخريج إصلاح المساجد (108) // ضعيف الجامع الصغير (2211) //
قال الشيخ زبير على زئي: (984،985) إسناده ضعيف أبوحمزة مسلم بن كيسان الأعور ضعيف (تق: 6641)