سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
7. باب مَا جَاءَ فِي تَلْقِينِ الْمَرِيضِ عِنْدَ الْمَوْتِ وَالدُّعَاءِ لَهُ عِنْدَهُ
باب: موت کے وقت مریض کو لا الہٰ الا اللہ کی تلقین کرنے اور اس کے پاس اس کے حق میں دعا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 976
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَسُعْدَى الْمُرِّيَّةِ وَهِيَ: امْرَأَةُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم اپنے مرنے والے لوگوں کو جو بالکل مرنے کے قریب ہوں
«لا إله إلا الله» کی تلقین
۱؎ کرو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، ام سلمہ، عائشہ، جابر، سعدی مریہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- سعدی مریہ طلحہ بن عبیداللہ کی بیوی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 1 (916)، سنن ابی داود/ الجنائز 20 (3117)، سنن النسائی/الجنائز 20 (3117)، سنن النسائی/الجنائز 4 (1827)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 3 (1445)، (تحفة الأشراف: 4403)، مسند احمد (3/3) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی مرنے والے کے پاس «لا إله إلا الله» پڑھ کر اسے کلمہ شہادت کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی اسے پڑھنے لگے، براہ راست اس سے پڑھنے کے لیے نہ کہا جائے کیونکہ وہ تکلیف کی شدت سے جھنجھلا کر انکار بھی کر سکتا ہے جس سے کفر لازم آئے گا، لیکن شیخ ناصرالدین البانی نے اسے درست قرار نہیں دیا وہ کہتے ہیں کہ تلقین کا مطلب یہ ہے کہ اسے «لا إله إلا الله» پڑھنے کے لیے کہا جائے۔ افضل یہ ہے کہ مریض کی حالت دیکھ کر عمل کیا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1444 و 1445)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 976 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 976
اردو حاشہ:
1؎:
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی مرنے والے کے پاس «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» پڑھ کر اسے کلمہ شہادت کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی اسے پڑھنے لگے،
براہ راست اس سے پڑھنے کے لیے نہ کہا جائے کیونکہ وہ تکلیف کی شدت سے جھنجھلا کر انکار بھی کر سکتا ہے جس سے کفر لازم آئے گا،
لیکن شیخ ناصر الدین البانی نے اسے درست قرار نہیں دیا وہ کہتے ہیں کہ تلقین کا مطلب یہ ہے کہ اسے «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» پڑھنے کے لیے کہا جائے۔
افضل یہ ہے کہ مریض کی حالت دیکھ کر عمل کیا جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 976
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 428
´قریب المرگ انسان کو کلمہ کی تلقین کرنا`
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب المرگ آدمی کو «لا إله إلا الله» کی تلقین کرو . . .“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 428]
لغوی تشریح:
«لَقَّنُو» تلقین سے ماخوذ امر کا صیغہ ہے۔ اس کے معنی ہیں: یاد دہانی کراو۔
«مَوْتَاكُمْ» مُوْتیٰ، میت کی جمع ہے۔ اس سے وہ قریب المرگ لوگ مراد ہیں جن پر موت کی ابتدائی آثار محسوس ہو رہے ہوں۔
فائدہ:
اس حدیث میں صرف «لا اله الا الله» کی تلقین کا ذکر ہے، اس لیے اسی پر اکتفا بہتر ہے اور حدیث کے ظاہر الفاظ کا تقاضا بھی یہی ہے۔
ایک قول کے مطابق اس سے مراد پورا کلمہ ہے کہ یوں مرنے والا توحید و رسالت دونوں کا اقرار کر لیتا ہے۔
تلقین سے عام طور پر علماء نے یہ مراد لیا ہے کہ قریب الوفات شخص کے پاس «لا اله الا الله» پڑھا جائے تاکہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔ علامہ محمد فواد عبدالباقی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کے حاشیے میں یہی لکھا ہے، دیکھیے: [صحیح مسلم، الجنائز، باب الجنائز، باب تلقین الموتی: لا الہ اللہ اللہ ]
جبکہ بعض علماء اس کی بابت فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ میت، یعنی جو مر رہا ہوا سے نرمی سے یہ کلمہ یاد دلائیں اور زیادہ اصرار نہ کریں، ایسا نہ ہو کہ وہ انکار کر بیٹھے، البتہ مولانا عبدالتواب محدث ملتانی، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور کئی دیگر علمائے محقیقین کی رائے اس سے مختلف ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تلقین سے مراد کلمہ توحید پڑھ کر اسے صرف سنانا ہی نہیں بلکہ اسے کہا جائے کہ وہ بھی پڑھے، اور یہ اس لیے کہ لفظ ”تلقین“ کا اصل مفہوم ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے، وہ اس طرح کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی اسے اعادہ کرانے کے لیے کوئی بات کہنا، سکھانا، بتانا اور بالمشافہ سمجھانا، اسی کو تلقین کہا جاتا ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی عیادت کو تشریف لے گئے تو فرمایا: «يا خال! قل: لا اله الا الله» یعنی ”ماموں جان! لا الہ الا اللہ“ کہیے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [مسند احمد: 152، 3] اور حدیث کی رو سے یہی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 428
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1827
´میت کو «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ» کی تلقین کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے قریب المرگ لوگوں کو «لا إله إلا اللہ» کی تلقین کرو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1827]
1827۔ اردو حاشیہ:
➊ تلقین سے مراد یہ ہے کہ اسے کلمہ طیبہ پڑھنے کا کہا جائے، دھیمے لب و لہجے میں اس کی ترغیب دی جائے، یا صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر کم از کم اس کے پاس بیٹھ کر کلمہ طیبہ پڑھا جائے تاکہ سن کر وہ بیھ پڑھے لیکن اسے اصرار کے ساتھ کلمہ پڑھنے کو نہ کہا جائے کہ کہیں وہ اکتاہٹ اور تکلیف و گھبراہٹ کی بنا پر انکار نہ کر دے اور جب وہ ایک دفعہ کلمہ طیبہ پڑھ لے تو پھر تلقین نہ کی جائے، ہاں اگر بعد میں وہ کوئی دنیوی کلام کرے تو پھر تلقین کی جائے۔ مقصد یہ ہے کہ موت سے پہلے آخری بات کلمہ طیبہ ہو۔
➋ بعض لوگ میت کو دفنانے کے بعد قبر پر اسے تلقین کرتے ہیں تاکہ وہ فرشتوں کو کلمہ طیبہ کے ساتھ جواب دے سکے مگر یہ معنی درست نہیں، نہ یہ صحابہ کا معمول تھا۔ اس بارے میں ایک ضعیف روایت بھی وارد ہے۔ سلف کے عمل کے خلاف ضعیف روایت پر عمل جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1827
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3117
´قریب المرگ کو تلقین کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے مرنے والے لوگوں کو کلمہ «لا إله إلا الله» کی تلقین کرو ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3117]
فوائد ومسائل:
1۔
تلقین کی مسنون صورت یہ ہے کہ مرنے والے کو کہا جائے۔
(لا اله الا اللہ) پڑھ لو۔
جیسے کہ ر سول اللہ ﷺ نے ایک انصاری صحابی سے فرمایا تھا۔
تفصیل کے لئے دیکھیں۔
(مسند أحمد 152/3۔
268۔
154) دوسری ایک صورت جو ہمارے ہاں مروج ہے کہ پاس بیٹھنے والے خود یہ کلمہ مناسب آواز سے پڑھتے ہیں تاکہ اسے یاد دہانی ہوجائے۔
حسب احوال اس کے اختیار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
2۔
حدیث میں مذکور شرف وفضیلت ان کلمہ گولوگوں کےلئے ہے۔
جو عملا اس کے تقاضے پورے کرتے اور شرک وبدعت سے باز اور بیزار رہے ہوں۔
لیکن محض رسمی ورواجی طور پر کلمے کا ورد کرتے رہنے والے اور عملا شرک وبدعت کے مرتکب اگر مرتے وقت بھی اس اندازہ میں کلمہ پڑھیں۔
تو۔
۔
واللہ اعلم۔
۔
۔
مفید نہیں۔
ہاں اگر اس عزم ونیت سے پڑھیں۔
کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں اس کلمہ کے تقاضے پورے کروں گا ان شاء اللہ ضرور مفید اور باعث بشارت ہے فرمایا: (إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) (فاطر:10) تمام تر پاکیزہ ستھرے کلمات اس کی طرف چڑھتے ہیں۔
اور نیک عمل انہیں بلند کرتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3117