الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
66. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ
66. باب: طاعون سے بھاگنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Flee From The Plague
حدیث نمبر: 1065
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن عامر بن سعد، عن اسامة بن زيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم ذكر الطاعون، فقال: " بقية رجز، او عذاب ارسل على طائفة من بني إسرائيل، فإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا منها، وإذا وقع بارض ولستم بها فلا تهبطوا عليها ". قال: وفي الباب، عن سعد، وخزيمة بن ثابت، وعبد الرحمن بن عوف، وجابر، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث اسامة بن زيد حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ الطَّاعُونَ، فَقَالَ: " بَقِيَّةُ رِجْزٍ، أَوْ عَذَابٍ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَلَسْتُمْ بِهَا فَلَا تَهْبِطُوا عَلَيْهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَعْدٍ، وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کا ذکر کیا، تو فرمایا: یہ اس عذاب کا بچا ہوا حصہ ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ ۱؎ پر بھیجا گیا تھا جب کسی زمین (ملک یا شہر) میں طاعون ہو جہاں پر تم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو ۲؎ اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلا ہو جہاں تم نہ رہتے ہو تو وہاں نہ جاؤ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اسامہ بن زید کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سعد، خزیمہ بن ثابت، عبدالرحمٰن بن عوف، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 54 (3473) والحیل 13 (6974) صحیح مسلم/السلام 32 (2218) (تحفة الأشراف: 92) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الطب 30 (5728) صحیح مسلم/السلام (المصدرالمذکور) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کا حکم دیا تھا لیکن انہوں نے مخالفت کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا «فأرسلنا عليهم رجزاً من السماء» آیت میں «رجزاً من السماء» سے مراد طاعون ہے چنانچہ ایک گھنٹہ میں ان کے بڑے بوڑھوں میں سے ۲۴ ہزار لوگ مر گئے۔
۲؎: کیونکہ وہاں سے بھاگ کر تم نہیں بچ سکتے اس سے بچاؤ کا راستہ توبہ و استغفار ہے نہ کہ وہاں سے چلے جانا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
67. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ
67. باب: جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔
Chapter: What Has Been Related About: Whoever Loves To Meet Allah, Then Allah Loves To Meet Him
حدیث نمبر: 1066
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن مقدام ابو الاشعث العجلي،، حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت ابي يحدث، عن قتادة، عن انس، عن عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من احب لقاء الله احب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه ". وفي الباب: عن ابي موسى، وابي هريرة، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث عبادة بن الصامت حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِقْدَامٍ أَبُو الْأَشْعَثِ الْعِجْلِيُّ،، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي مُوسَى، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہو اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوموسیٰ اشعری، ابوہریرہ، اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 41 (6507) صحیح مسلم/الذکر 5 (2683) سنن النسائی/الجنائز 10 (1836) مسند احمد (5/316، 321) سنن الدارمی/الرقاق 43 (2798) ویأتي عند المؤلف في الزہد 6 (2309) (تحفة الأشراف: 5070) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: **
حدیث نمبر: 1067
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا خالد بن الحارث، حدثنا سعيد بن ابي عروبة، قال: وحدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن بكر، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى، عن سعد بن هشام، عن عائشة، انها ذكرت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من احب لقاء الله احب الله لقاءه ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه " قالت: فقلت: يا رسول الله، كلنا نكره الموت، قال: " ليس ذلك، ولكن المؤمن إذا بشر برحمة الله ورضوانه وجنته، احب لقاء الله واحب الله لقاءه، وإن الكافر إذا بشر بعذاب الله وسخطه كره لقاء الله وكره الله لقاءه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا ذَكَرَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ " قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلُّنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ، قَالَ: " لَيْسَ ذَلِكَ، وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ وَرِضْوَانِهِ وَجَنَّتِهِ، أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ وَسَخَطِهِ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے، اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سبھی کو موت ناپسند ہے؟ تو آپ نے فرمایا: یہ مراد نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی خوشنودی اور اس کے جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ اس سے ملنا چاہتا ہے، اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کی غصے کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 41 (تعلیقا بعد حدیث عبادة) صحیح مسلم/الذکر 5 (2684) سنن النسائی/الجنائز 10 (1839) سنن ابن ماجہ/الزہد 31 (4264) (تحفة الأشراف: 16103) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الذکر (المصدر المذکور) مسند احمد (6/44، 55، 207) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ جان نکلنے کے وقت اور موت کے فرشتوں کے آ جانے کے وقت آدمی میں اللہ سے ملنے کی جو چاہت ہوتی ہے وہ مراد ہے نہ کہ عام حالات میں کیونکہ عام حالات میں کوئی بھی مرنے کو پسند نہیں کرتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4264)
68. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ
68. باب: خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About: The Funeral Prayer Is Not Performed For A Person Who Killed Himself
حدیث نمبر: 1068
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى، حدثنا وكيع، حدثنا إسرائيل، وشريك، عن سماك بن حرب، عن جابر بن سمرة، " ان رجلا قتل نفسه فلم يصل عليه النبي صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم في هذا، فقال بعضهم: يصلى على كل من صلى إلى القبلة، وعلى قاتل النفس، وهو قول: الثوري، وإسحاق، وقال احمد: لا يصلي الإمام على قاتل النفس ويصلي عليه غير الإمام.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، وَشَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، " أَنّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلَّى عَلَى كُلِّ مَنْ صَلَّى إِلَى الْقِبْلَةِ، وَعَلَى قَاتِلِ النَّفْسِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَإِسْحَاق، وقَالَ أَحْمَدُ: لَا يُصَلِّي الْإِمَامُ عَلَى قَاتِلِ النَّفْسِ وَيُصَلِّي عَلَيْهِ غَيْرُ الْإِمَامِ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خودکشی کر لی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر شخص کی نماز پڑھی جائے گی جو قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہو اور خودکشی کرنے والے کی بھی پڑھی جائے گی۔ ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۳- اور احمد کہتے ہیں: امام خودکشی کرنے والے کی نماز نہیں پڑھے گا، البتہ (مسلمانوں کے مسلمان حاکم) امام کے علاوہ لوگ پڑھیں گے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز31 (1526) (تحفة الأشراف: 2140، 2174) (5/87، 92) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1526)
69. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمَدْيُونِ
69. باب: قرض دار کی نماز جنازہ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About (Prayer Over) The Indebted
حدیث نمبر: 1069
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن عثمان بن عبد الله بن موهب، قال: سمعت عبد الله بن ابي قتادة يحدث، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي برجل ليصلي عليه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صلوا على صاحبكم فإن عليه دينا "، قال: ابو قتادة: هو علي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بالوفاء "، قال: بالوفاء، فصلى عليه. قال: وفي الباب، عن جابر، وسلمة بن الاكوع، واسماء بنت يزيد. قال ابو عيسى: حديث ابي قتادة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ فَإِنَّ عَلَيْهِ دَيْنًا "، قَالَ: أَبُو قَتَادَةَ: هُوَ عَلَيَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِالْوَفَاءِ "، قَالَ: بِالْوَفَاءِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو کیونکہ اس پر قرض ہے۔ (میں نہیں پڑھوں گا) اس پر ابوقتادہ نے عرض کیا: اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پورا پورا ادا کرو گے؟ تو انہوں نے کہا: (ہاں) پورا پورا ادا کریں گے تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر، سلمہ بن الاکوع، اسماء بنت یزید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 67 (1962) سنن ابن ماجہ/الصدقات 9 (2407) سنن الدارمی/البیوع 53 (2635) (تحفة الأشراف: 12103) مسند احمد (5/302) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2407)
حدیث نمبر: 1070
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثني ابو الفضل مكتوم بن العباس الترمذي، حدثنا عبد الله بن صالح، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤتى بالرجل المتوفى عليه الدين، فيقول: " هل ترك لدينه من قضاء "، فإن حدث انه ترك وفاء صلى عليه، وإلا قال للمسلمين: " صلوا على صاحبكم "، فلما فتح الله عليه الفتوح قام، فقال: " انا اولى بالمؤمنين من انفسهم، فمن توفي من المسلمين فترك دينا علي قضاؤه، ومن ترك مالا فهو لورثته ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه يحيى بن بكير وغير واحد، عن الليث بن سعد، نحو حديث عبد الله بن صالح.(مرفوع) حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ مَكْتُومُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَقُولُ: " هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَاءٍ "، فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ وَفَاءً صَلَّى عَلَيْهِ، وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ: " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ "، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَامَ، فَقَالَ: " أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا عَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَالِحٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی فوت شدہ شخص جس پر قرض ہو لایا جاتا تو آپ پوچھتے: کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ اگر آپ کو بتایا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے جس سے اس کے قرض کی مکمل ادائیگی ہو جائے گی تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھاتے، ورنہ مسلمانوں سے فرماتے: تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھ سکتا)، پھر جب اللہ نے آپ کے لیے فتوحات کا دروازہ کھولا تو آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا: میں مسلمانوں کا ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حقدار ہوں۔ تو مسلمانوں میں سے جس کی موت ہو جائے اور وہ قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کر جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے یحییٰ بن بکیر اور دیگر کئی لوگوں نے لیث بن سعد سے عبداللہ بن صالح کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الکفارة 5 (2298) والنفقات 15 (5371) صحیح مسلم/الفرائض 4 (1619) (تحفة الأشراف: 152116) مسند احمد (2/453) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/الجنائز67 (1965) سنن ابن ماجہ/الصدقات13 (2415) مسند احمد (2/290) من غیر ہذا الوجہ، وأخرجہ: صحیح البخاری/الاستقراض 11 (2398، 2399) وتفسیر الاقراب 1 (4791) والفرائض 4 (6731) و15 (6745) و25 (6763) صحیح مسلم/الفرائض (المصدرالمذکور) مسند احمد (2/456) مغتصرا ومن غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2415)
70. باب مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ
70. باب: عذاب قبر کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Punishment In The Grave
حدیث نمبر: 1071
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف البصري، حدثنا بشر بن المفضل، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قبر الميت "، او قال: " احدكم اتاه ملكان اسودان ازرقان، يقال لاحدهما: المنكر والآخر النكير، فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل؟ فيقول: ما كان يقول هو: عبد الله ورسوله، اشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا عبده ورسوله، فيقولان: قد كنا نعلم انك تقول هذا، ثم يفسح له في قبره سبعون ذراعا في سبعين، ثم ينور له فيه، ثم يقال له: نم، فيقول: ارجع إلى اهلي فاخبرهم، فيقولان: نم كنومة العروس الذي لا يوقظه إلا احب اهله إليه حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك، وإن كان منافقا، قال: سمعت الناس يقولون: فقلت مثله: لا ادري، فيقولان: قد كنا نعلم انك تقول ذلك، فيقال للارض: التئمي عليه فتلتئم عليه، فتختلف فيها اضلاعه، فلا يزال فيها معذبا حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك ". وفي الباب: عن علي، وزيد بن ثابت، وابن عباس، والبراء بن عازب، وابي ايوب، وانس، وجابر، وعائشة، وابي سعيد، كلهم رووا عن النبي صلى الله عليه وسلم في عذاب القبر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ "، أَوْ قَالَ: " أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا: الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ، فَيَقُولَانِ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولَانِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: نَمْ، فَيَقُولُ: أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ، فَيَقُولَانِ: نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ: فَقُلْتُ مِثْلَهُ: لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ، فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ: الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ، فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ، فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ عَلِيٍّ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، كُلُّهُمْ رَوَوْا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنا دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دو فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ وہ (میت) کہتا ہے: وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول و عرض میں ستر ستر گز کشادہ کر دی جاتی ہے، پھر اس میں روشنی کر دی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے: سو جا، وہ کہتا ہے: مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچا دو کہ میں انہیں یہ بتا سکوں، تو وہ دونوں کہتے ہیں: تو سو جا اس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگاتا ہے جو اس کے گھر والوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے، اور اگر وہ منافق ہے، تو کہتا ہے: میں لوگوں کو جو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتا تھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہا جاتا ہے: تو اسے دبوچ لے تو وہ اسے دبوچ لیتی ہے اور پھر اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں علی، زید بن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب، انس، جابر، ام المؤمنین عائشہ اور ابوسفیان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ان سبھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12976) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (130)، الصحيحة (1391)
حدیث نمبر: 1072
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا مات الميت عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، فإن كان من اهل الجنة فمن اهل الجنة، وإن كان من اهل النار فمن اهل النار، ثم يقال: هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة ". قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتیوں میں سے ہے تو جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے اور اگر وہ جہنمیوں میں سے ہے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے، پھر اس سے کہا جاتا ہے: یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ اللہ تجھے قیامت کے دن اٹھائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8057) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز89 (1379) وبدء الخلق8 (324) والرقاق42 (6515) صحیح مسلم/الجنة17 (2866) سنن النسائی/الجنائز 116) (2072، 2073، 2074 الزہد32 (4270) موطا امام مالک/الجنائز16 (47) مسند احمد (2/16، 51، 113، 123) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: اس طرح کی مزید صحیح احادیث میں منکرین عذاب قبر کا پورا پورا رد پایا جاتا ہے، اگر ایسے لوگ عالم برزخ کے احوال کو اپنی عقل پر پرکھیں اور اپنی عقلوں کو ہی دین کا معیار بنائیں تو پھر شریعت مطہرہ میں ایمانیات کے تعلق سے کتنے ہی ایسے بیسیوں مسائل ہیں کہ جن کا ادراک انسانی عقل کر ہی نہیں سکتی تو پھر کیا قرآن وسنت اور سلف صالحین کی وہی راہ تھی جو اس طرح کی عقل والوں نے اختیار کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
71. باب مَا جَاءَ فِي أَجْرِ مَنْ عَزَّى مُصَابًا
71. باب: مصیبت زدہ کی تعزیت کے اجر کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About: The Reward For One Who Consoles A Person With An Affliction
حدیث نمبر: 1073
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى، حدثنا علي بن عاصم، قال: حدثنا والله! محمد بن سوقة، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من عزى مصابا فله مثل اجره ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث علي بن عاصم، وروى بعضهم عن محمد بن سوقة بهذا الإسناد مثله موقوفا ولم يرفعه، ويقال: اكثر ما ابتلي به علي بن عاصم بهذا الحديث نقموا عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَاللَّهِ! مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ عَزَّى مُصَابًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَيُقَالُ: أَكْثَرُ مَا ابْتُلِيَ بِهِ عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ نَقَمُوا عَلَيْهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مصیبت زدہ کی (تعزیت) ماتم پرسی کی، اسے بھی اس کے برابر اجر ملے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف علی بن عاصم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، بعض لوگوں نے محمد بن سوقہ سے اسی جیسی حدیث اسی سند سے موقوفاً روایت کی ہے۔ اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے،
۳- کہا جاتا ہے کہ علی بن عاصم پر جو زیادہ طعن ہوا، اور لوگوں نے ان پر نکیر کی ہے وہ اسی حدیث کے سبب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 56 (1602) (تحفة الأشراف: 9166) (ضعیف) (سند میں علی بن عاصم بہت غلطی کرتے تھے اور اپنی غلطی پر اصرار بھی کرتے تھے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1602) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (350)، وانظر تعليقي عليه في الصفحة (121)، المشكاة (1737)، ضعيف الجامع الصغير (5696)، الإرواء (765) //
72. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
72. باب: جمعہ کے دن مرنے والے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About One Who Died On Friday
حدیث نمبر: 1074
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، وابو عامر العقدي، قالا: حدثنا هشام بن سعد، عن سعيد بن ابي هلال، عن ربيعة بن سيف، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلم يموت يوم الجمعة او ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، قال: وهذا حديث ليس إسناده بمتصل ربيعة بن سيف، إنما يروي عن ابي عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله بن عمرو، ولا نعرف لربيعة بن سيف سماعا من عبد الله بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْن أَبِي هِلَالٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ رَبِيعَةُ بْنُ سَيْفٍ، إِنَّمَا يَرْوِي عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَا نَعْرِفُ لِرَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ربیعہ بن سیف ابوعبدالرحمٰن حبلی سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن عمرو سے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ ربیعہ بن سیف کی عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے سماع ہے یا نہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر: مسند احمد (2/169) (تحفة الأشراف: 8625) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (1367)، الأحكام (35)

Previous    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.