سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
72. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن مرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1074
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْن أَبِي هِلَالٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ رَبِيعَةُ بْنُ سَيْفٍ، إِنَّمَا يَرْوِي عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَا نَعْرِفُ لِرَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ربیعہ بن سیف ابوعبدالرحمٰن حبلی سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن عمرو سے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ ربیعہ بن سیف کی عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے سماع ہے یا نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر: مسند احمد (2/169) (تحفة الأشراف: 8625) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (1367) ، الأحكام (35)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1074 کے فوائد و مسائل
كتاب: فتاويٰ ثنائيه مدنيه
فوائد و مسائل:
«الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!»
جمعہ کی رات یا دن موت کی فضیلت کے بارے میں وارد روایات ضعیف ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کے «كتاب الجنائز» کے اختتام پر سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث:
«ما من مسلم يموت يوم الجمعة او ليلة الجمعة الا وقاه الله فتنة القبر» حسنه الباني بشواهده المشكاة [1367]
یعنی ”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی ر ات فوت ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ فرما لیتا ہے۔“
نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
«في اسناده ضعف واخرجه ابو يعلي من حديث انس نحوه واسناده اضعف»
یعنی ”اس کی سند میں ضعف ہے۔اور اس کی مانند حدیث ابو یعلیٰ نے بھی حضرت انس سے بیان کی ہے لیکن اس کی سند اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔“
مذکورہ حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«هذا حديث غريب وليس اسناده بمتصل وبيعة بن سيف انما يروي عن ابي عبد الرحمٰن الحبلي عن عبدا لله بن عمر و ولا تعرف لربعة من سيف سماعا من عبدالله بن عمرو»
”یعنی یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ربیعہ بن سیف کی روایت تو عبد اللہ بن عمرو سے ابو عبد الرحمٰن حبلی کے واسطہ سے ہے۔ ربیعہ بن سیف کا سماع عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معلوم نہیں ہو سکا۔“ «باب ما جاء فيمن يموت يوم الجمعة»
◈ شارح ترمذی علامہ مبارک پوری فرماتے ہیں:
«فالحديث ضعيف لانقطاعه لكن له شواهد»
”پس انقطاع کی بنا پر حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے کچھ شواہد ہیں۔“
پھر علامہ سیوطی سے بحوالہ ”مرقاۃ“ کچھ آثار وشواہد نقل کئے ہیں۔ [تحفه الاحوذي:4/ 188] بہرصورت ان آثار کی صحت یاقابل صحت ہونا مشکوک ہی نظر آتا ہے جب کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بھی رطب و یابس جمع کرنے میں معروف ہے مجھے اس وقت سخت تعجب ہوا جب میں نے استاد محترم مفتی محمد عبدہ صاحب مدظلہ العالی کی کتاب ”احکام الجنائز“ کا مراجعہ کیا تو اس کے حواشی میں بحوالہ تحفہ فرماتے ہیں:
«مسند احمد وترمذي وله شواهد فالحديث بمجموع طرقه حسن او صحيح»
یعنی ”عبدا للہ بن عمرو کی روایت مسنداحمد اور ترمذی میں ہے اور اس کے کچھ شواہد بھی ہیں۔ پس حدیث مجموع طرق کے اعتبار سے حسن یا صحیح ہے۔“
دراں حالیکہ مذکور عبارت محل مقصود میں قطعاً نہیں ہے۔ البتہ ایک دوسرے مقام پر علامہ موصوف فرماتے ہیں:
یہ حدیث ”اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن اس کی تائید متعدد حدیثوں سے ہوتی ہے۔“ [فتاويٰ ثنائيه:2/25]
↰ گویا کہ موصوف کا رجحان اثبات مسئلہ رفع عذاب کی طرح ہے لیکن اس بارے میں درجہ حجت واستدلال کاحصول ایک مشکل امر ہے۔ اور یہ بات مسلمہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال سوموار کے روز ہوا تھا۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرض الموت میں اسی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ اس پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں تبویب یوں قائم کی ہے: «باب موت يوم الاثنين» صحيح البخاري كتاب الجنائز رقم الباب [94]
شارحین حدیث نے لکھا ہے: ”اس سے مصنف کا مقصود جمعہ کی فضیلت کے بارے میں وارد حدیث کی تضعیف ہے۔“
واقعاتی طور پر وفات کا جو دن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے منتخب اور پسند فرمایا وہی افضل اور بہتر ہونا چاہیے۔ اسی بناء پر خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن موت کی چاہت کی تھی۔
«هذا ما عندي والله اعلم بالصواب»
محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 36066
الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 1074
فقہ الحدیث
اور یہی روایت مسند امام احمد رحمہ اللہ میں تین مقامات پر منقول ہے:
6582 - «حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ“»
اس کے ذیل میں علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں:
” اس کی اسناد ضعیف ہے کیونکہ ربیعہ بن سیف نے عبداللہ بن عمرو سے نہیں سنا، (یعنی سند منقطع ہے) گو باقی رجال ثقہ ہیں۔ “
«إسناده ضعيف، ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو، وهو وهشام بن سعد ضعيفان، وباقي رجاله ثقات رجال الشيخين، أبوعامر: هو العقدي عبد الملك بن عمرو.
ومن طريق أحمد أخرجه المزي في تهذيب الكمال في ترجمة ربيعة بن سيف 9/116.
وأخرجه الترمذي (1074)، والطحاوي في شرح مشكل الآثار (277) من طريق أبي عامر العقدي، بهذا الإسناد.
وأخرجه الترمذي (1074) أيضاً من طريق عبد الرحمن بن مهدي،»
-------------------------------
دوسرے مقام پر ہے:
6646 - «حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ“»
اس کے ذیل میں علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں:
یعنی یہ اسناد بھی ضعیف ہے کیونکہ بقیہ بن ولید جو مدلس ہیں، اور تدلیس تسویہ کے مرتکب ہیں وہ یہاں (عن) سے روایت نقل کر رہے ہیں
«إسناده ضعيف. بقية -وهو ابن الوليد الحمصي- يدلس عن الضعفاء ويسوي (*)، ويستبيح ذلك، قال ابن القطان: وهذا إن صح، فهو مفسد لعدالته.
قال الذهبي: نعم -والله- صح هذا عنه أنه يفعله، وصح عن الوليد بن مسلم،=
بل عن جماعة كبار فعله، وهذه بلية منهم، ولكنهم فعلوا ذلك باجتهاد، وما جوزوا على ذلك الشخص الذي يسقطون ذكره بالتدليس أنه تعمد الكذب، هذا أمثل ما يعتذر به عنهم. ولم يتوقف الحافظ ابن حجر في جرح من يفعل ذلك، نقله عنه البقاعي كما في توضيح الأفكار 1/375.
ومعاوية بن سعيد: هو ابن شريح بن عروة التجيبي الفهمي مولاهم، المصري، لم يوثقه غير ابن حبان. وأبو قييل: تقدم بيان حاله في الحديث الذي قبله، وسيأتي برقم (7050) .
وسلف برقم (6582) بإسناد ضعيف أيضا، وذكرنا هناك شواهده.»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تیسرے مقام پر یوں ہے
7050 - «حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَعِيدٍ التُّجِيبِيُّ، سَمِعْتُ أَبَا قَبِيلٍ الْمِصْرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ“»
«إسناده ضعيف، وهو مكرر (6646) . بقية: هو ابن الوليد.
ومعاوية بن سعيد: هو ابن شريح بن عروة التجيبي الفهمي مولاهم، المصري، لم يوثقه غير ابن حبان»
یہ اسناد بھی ضعیف ہے کیونکہ معاویہ بن سعید کی ابن حبان کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی۔
اور دوسرا راوی (ابو قبیل) ہے جس کے متعلق علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں:
«وأبو قبيل -واسمه حيي بن هانىء المعافري- وثّقه غير واحد، وذكره ابنُ حبان في الثقات، وقال: كان يخطىء، وذكره الساجي في كتابه الضعفاء، وحكى عن ابن معين أنه ضعفه. قال الحافظ في تعجيل المنفعة ص 277: ضعيف، لأنه كان يكثر النقل عن الكتب القديمة.»
-----------------------
اور مصنف عبدالرزاق میں بالاسناد یوں ہے:
5595 - «عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مَنْ مَاتَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ - أَوْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ - بَرِئَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ“ أَوْ قَالَ: ”وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ، وَكُتِبَ شَهِيَدًا“»
اس میں ابن جریج سے اوپر والا راوی مجہول ہے، اور ساتھ ہی روایت مرسل ہے کیونکہ ابن شہاب نے صحابی کا ذکر نہیں کیا۔
محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 36066