سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
51. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي وَحْدَهُ ثُمَّ يُدْرِكُ الْجَمَاعَةَ
51. باب: آدمی تنہا نماز پڑھ لے پھر جماعت پا لے تو کیا کرے؟
Chapter: What Has Been Related About The Man Who Performs Salat Alone, Then He Comes Upon A Congregation
حدیث نمبر: 219
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يعلى بن عطاء، حدثنا جابر بن يزيد بن الاسود العامري، عن ابيه، قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم حجته، فصليت معه صلاة الصبح في مسجد الخيف، قال: فلما قضى صلاته وانحرف، إذا هو برجلين في اخرى القوم لم يصليا معه. فقال: " علي بهما " فجيء بهما ترعد فرائصهما، فقال: " ما منعكما ان تصليا معنا؟ " فقالا: يا رسول الله إنا كنا قد صلينا في رحالنا، قال: " فلا تفعلا إذا صليتما في رحالكما، ثم اتيتما مسجد جماعة فصليا معهم، فإنها لكما نافلة "، قال: وفي الباب عن محجن الديلي، ويزيد بن عامر، قال ابو عيسى: حديث يزيد بن الاسود حديث حسن صحيح، وهو قول غير واحد من اهل العلم، وبه يقول سفيان الثوري، الشافعي , واحمد , وإسحاق، قالوا: إذا صلى الرجل وحده ثم ادرك الجماعة، فإنه يعيد الصلوات كلها في الجماعة، وإذا صلى الرجل المغرب وحده ثم ادرك الجماعة، قالوا: فإنه يصليها معهم ويشفع بركعة، والتي صلى وحده هي المكتوبة عندهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّتَهُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ، قَالَ: فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَانْحَرَفَ، إِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي أُخْرَى الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَهُ. فَقَالَ: " عَلَيَّ بِهِمَا " فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا، فَقَالَ: " مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا؟ " فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا، قَالَ: " فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا، ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ، فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مِحْجَنٍ الدِّيلِيِّ، وَيَزِيدَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، قَالُوا: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ وَحْدَهُ ثُمَّ أَدْرَكَ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّهُ يُعِيدُ الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا فِي الْجَمَاعَةِ، وَإِذَا صَلَّى الرَّجُلُ الْمَغْرِبَ وَحْدَهُ ثُمَّ أَدْرَكَ الْجَمَاعَةَ، قَالُوا: فَإِنَّهُ يُصَلِّيهَا مَعَهُمْ وَيَشْفَعُ بِرَكْعَةٍ، وَالَّتِي صَلَّى وَحْدَهُ هِيَ الْمَكْتُوبَةُ عِنْدَهُمْ.
یزید بن اسود عامری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک رہا۔ میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں فجر پڑھی، جب آپ نے نماز پوری کر لی اور ہماری طرف مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے آخر میں (سب سے پیچھے) دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ نے فرمایا: انہیں میرے پاس لاؤ، وہ لائے گئے، ان کے مونڈھے ڈر سے پھڑک رہے تھے۔ آپ نے پوچھا: تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لی تھی۔ آپ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، جب تم اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو پھر مسجد آؤ جس میں جماعت ہو رہی ہو تو لوگوں کے ساتھ بھی پڑھ لو ۱؎ یہ تمہارے لیے نفل ہو جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یزید بن اسود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں محجن دیلی اور یزید بن عامر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم میں سے کئی لوگوں کا یہی قول ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب آدمی تنہا نماز پڑھ چکا ہو پھر اسے جماعت مل جائے تو وہ جماعت کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لے۔ اور جب آدمی تنہا مغرب پڑھ چکا ہو پھر جماعت پائے تو وہ ان کے ساتھ نماز پڑھے اور ایک رکعت اور پڑھ کر اسے جفت بنا دے، اور جو نماز اس نے تنہا پڑھی ہے وہی ان کے نزدیک فرض ہو گی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 57 (575)، سنن النسائی/الإمامة 54 (تحفة الأشراف: 11822)، مسند احمد (4/160، 161)، سنن الدارمی/الصلاة 97 (1407) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بعض لوگوں نے اسے ظہر، اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہو جائے گی، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ حکم عام ہے ساری نمازیں اس میں داخل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1152)، صحيح أبي داود (590)
52. باب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ قَدْ صُلِّيَ فِيهِ مَرَّةً
52. باب: جس مسجد میں ایک بار جماعت ہو چکی ہو اس میں دوبارہ جماعت کرنے کا بیان۔
Chapter: : What Has Been Related About The Congregation In The Masjid Being Held Two Times
حدیث نمبر: 220
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن سعيد بن ابي عروبة، عن سليمان الناجي البصري، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، قال: جاء رجل وقد صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ايكم يتجر على هذا "، فقام رجل فصلى معه. قال: وفي الباب عن ابي امامة , وابي موسى , والحكم بن عمير، قال ابو عيسى: وحديث ابي سعيد حديث حسن، وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم من التابعين، قالوا: لا باس ان يصلي القوم جماعة في مسجد قد صلى فيه جماعة، وبه يقول: احمد , وإسحاق وقال آخرون من اهل العلم: يصلون فرادى، وبه يقول: سفيان , وابن المبارك , ومالك , والشافعي: يختارون الصلاة فرادى، وسليمان الناجي بصري ويقال: سليمان بن الاسود، وابو المتوكل اسمه: علي بن داود.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ النَّاجِيِّ الْبَصْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَتَّجِرُ عَلَى هَذَا "، فَقَامَ رَجُلٌ فَصَلَّى مَعَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , وَأَبِي مُوسَى , وَالْحَكَمِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: لَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ الْقَوْمُ جَمَاعَةً فِي مَسْجِدٍ قَدْ صَلَّى فِيهِ جَمَاعَةٌ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق وقَالَ آخَرُونَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلُّونَ فُرَادَى، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَمَالِكٌ , وَالشَّافِعِيُّ: يَخْتَارُونَ الصَّلَاةَ فُرَادَى، وَسُلَيْمَانُ النَّاجِيُّ بَصْرِيٌّ وَيُقَالُ: سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُهُ: عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد) آیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟ ۱؎ ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابوامامہ، ابوموسیٰ اور حکم بن عمیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس مسجد میں لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے ہوں اس میں (دوسری) جماعت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۴- اور بعض دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ وہ تنہا تنہا نماز پڑھیں، یہی سفیان، ابن مبارک، مالک، شافعی کا قول ہے، یہ لوگ تنہا تنہا نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 56 (574)، (تحفة الأشراف: 4256)، مسند احمد (3/64، 85)، سنن الدارمی/الصلاة 98 (1408) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایک روایت میں ہے «ألا رجل يتصدق على هذا فيصلي معه» کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے کے الفاظ آئے ہیں۔
۲؎: لیکن اس حدیث میں صراحۃً یہ بات موجود ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جماعت سے نماز پسند فرمائی، اس کے لیے جماعت سے نماز پڑھ چکے آدمی کو ترغیب دی کہ جا کر ساتھ پڑھ لے تاکہ پیچھے آنے والے کی نماز جماعت سے ہو جائے، تو جب پیچھے رہ جانے والے ہی کئی ہوں تو کیوں نہ جماعت کر کے پڑھیں، «فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ» (سورة الحشر: 2) فرض نماز کی طبیعت ہی اصلاً جماعت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1146)، الإرواء (535)، الروض النضير (979)
53. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْعِشَاءِ وَالْفَجْرِ فِي الْجَمَاعَةِ
53. باب: عشاء اور فجر جماعت سے پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: : What Has Been Related About The Virtue Of Isha And Fajr In Congregation
حدیث نمبر: 221
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا بشر بن السري، حدثنا سفيان، عن عثمان بن حكيم، عن عبد الرحمن بن ابي عمرة، عن عثمان بن عفان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من شهد العشاء في جماعة كان له قيام نصف ليلة، ومن صلى العشاء والفجر في جماعة كان له كقيام ليلة "، قال: وفي الباب عن ابن عمر , وابي هريرة , وانس , وعمارة بن رويبة , وجندب بن عبد الله بن سفيان البجلي , وابي بن كعب , وابي موسى وبريدة، قال ابو عيسى: حديث عثمان حديث حسن صحيح، وقد روي هذا الحديث عن عبد الرحمن بن ابي عمرة، عن عثمان موقوفا، وروي من غير وجه عن عثمان مرفوعا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَهِدَ الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ لَهُ قِيَامُ نِصْفِ لَيْلَةٍ، وَمَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ لَهُ كَقِيَامِ لَيْلَةٍ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ , وَعُمَارَةَ بْنِ رُوَيْبَةَ , وَجُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِيِّ , وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ , وَأَبِي مُوسَى وَبُرَيْدَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ عُثْمَانَ مَوْقُوفًا، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عُثْمَانَ مَرْفُوعًا.
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو عشاء کی جماعت میں حاضر رہے گا تو اسے آدھی رات کے قیام کا ثواب ملے گا اور جو عشاء اور فجر دونوں نمازیں جماعت سے ادا کرے گا، اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عثمان کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، انس، عمارہ بن رویبہ، جندب بن عبداللہ بن سفیان بجلی، ابی ابن کعب، ابوموسیٰ اور بریدہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کے طریق سے عثمان رضی الله عنہ سے موقوفاً روایت کی گئی ہے، اور کئی دوسری سندوں سے بھی یہ عثمان رضی الله عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 46 (656)، سنن ابی داود/ الصلاة 48 (555)، (تحفة الأشراف: 9823)، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة 2 (7)، مسند احمد (1/58، 68) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (564)
حدیث نمبر: 222
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا داود بن ابي هند، عن الحسن، عن جندب بن سفيان، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من صلى الصبح فهو في ذمة الله، فلا تخفروا الله في ذمته ". قال ابو عيسى: حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جندب بن سفیان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فجر پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں ہے تو تم اللہ کی پناہ ہاتھ سے جانے نہ دو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 46 (657)، (تحفة الأشراف: 3255)، مسند احمد (4/312، 313) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: بھرپور کوشش کرو کہ اللہ کی یہ پناہ حاصل کر لو، یعنی فجر جماعت سے پڑھنے کی کوشش کرو تو اللہ کی یہ پناہ ہاتھ سے نہیں جائے گی، ان شاءاللہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 141 و 163)
حدیث نمبر: 223
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عباس العنبري، حدثنا يحيى بن كثير ابو غسان العبري، عن إسماعيل الكحال، عن عبد الله بن اوس الخزاعي، عن بريدة الاسلمي، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " بشر المشائين في الظلم إلى المساجد بالنور التام يوم القيامة " قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، مرفوع هو صحيح مسند، وموقوف إلى اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يسند إلى النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ الْعَبَرِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل الْكَحَّالِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَوْسٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مَرْفُوعٌ هُوَ صَحِيحٌ مُسْنَدٌ، وَمَوْقُوفٌ إِلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُسْنَدْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
بریدہ اسلمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور (بھرپور اجالے) کی بشارت دے دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 50 (561)، (تحفة الأشراف: 1946) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (779 - 781)
54. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّفِّ الأَوَّلِ
54. باب: پہلی صف کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: : What Has Been Related About The Virtue Of The First Row
حدیث نمبر: 224
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خير صفوف الرجال اولها وشرها آخرها، وخير صفوف النساء آخرها وشرها اولها " قال: وفي الباب عن جابر، وابن عباس، وابي سعيد، وابي، وعائشة، والعرباض بن سارية، وانس، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان " يستغفر للصف الاول ثلاثا وللثاني مرة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا وَشَرُّهَا آخِرُهَا، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وابْنِ عَبَّاسٍ، وأَبِي سَعِيدٍ، وأُبَيٍّ، وعَائِشَةَ، والْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ " يَسْتَغْفِرُ لِلصَّفِّ الْأَوَّلِ ثَلَاثًا وَلِلثَّانِي مَرَّة ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی صف ہے ۱؎ اور سب سے بری آخری صف اور عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری صف ۲؎ ہے اور سب سے بری پہلی صف ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر، ابن عباس، ابوسعید، ابی بن کعب، عائشہ، عرباض بن ساریہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ پہلی صف والوں کے لیے تین بار استغفار کرتے تھے اور دوسری کے لیے ایک بار۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 28 (440)، سنن ابی داود/ الصلاة 98 (678)، سنن النسائی/الإمامة 32 (821)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 52 (1000)، (تحفة الأشراف: 12701)، مسند احمد (2/247، 336، 340، 366، 485)، سنن الدارمی/الصلاة 52 (1304) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: پہلی صف سے مراد وہ صف ہے جو امام سے متصل ہو سب سے بہتر صف پہلی صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ دوسری صفوں کی بہ نسبت اس میں خیر و بھلائی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو صف امام سے قریب ہوتی ہے اس میں جو لوگ ہوتے ہیں وہ امام سے براہ راست فائدہ اٹھاتے ہیں، تلاوت قرآن اور تکبیرات سنتے ہیں، اور عورتوں سے دور رہنے کی وجہ سے نماز میں خلل انداز ہونے والے وسوسوں اور برے خیالات سے محفوظ رہتے ہیں، اور آخری صف سب سے بری صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خیر و بھلائی دوسری صفوں کی بہ نسبت کم ہے، یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو لوگ ہوں گے وہ برے ہوں گے۔
۲؎: عورتوں کی سب سے آخری صف اس لیے بہتر ہے کہ یہ مردوں سے دور ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس صف میں شریک عورتیں شیطان کے وسوسوں اور فتنوں سے محفوظ رہتی ہیں۔
۳؎: یہ حکم اس صورت میں ہے جب مردوں، عورتوں کی صفیں آگے پیچھے ہوں، اگر عورتیں مردوں سے الگ نماز پڑھ رہی ہوں تو ان کی پہلی صف ہی بہتر ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1000 و 1001)
حدیث نمبر: 225
Save to word اعراب
(مرفوع) وقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لو ان الناس يعلمون ما في النداء والصف الاول ثم لم يجدوا إلا ان يستهموا عليه لاستهموا عليه " قال: حدثنا بذلك إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله،(مرفوع) وقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّ النَّاسَ يَعْلَمُونَ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا عَلَيْهِ " قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ،
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ثواب ہے، اور وہ اسے قرعہ اندازی کے بغیر نہ پا سکتے تو اس کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 9 (615)، و32 (654)، و72 (721)، والشہادات 30 (2689)، صحیح مسلم/الصلاة 28 (437)، سنن النسائی/المراقبة 22 (541)، و31 (673)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 51 (998)، (تحفة الأشراف: 12570)، موطا امام مالک/الصلاة 1 (2)، و صلاة الجماعة 2 (6)، مسند احمد (2/236، 278، 303، 375، 376، 424، 466، 472، 479، 531، 533) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (998)
حدیث نمبر: 226
Save to word اعراب
(مرفوع) وحدثنا قتيبة، عن مالك نحوه.(مرفوع) وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ نَحْوَهُ.
نیز قتیبہ نے مالک سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
55. باب مَا جَاءَ فِي إِقَامَةِ الصُّفُوفِ
55. باب: صفوں کو سیدھی کرنے کا بیان۔
Chapter: : What Has Been Related About Keeping the Rows Straight
حدیث نمبر: 227
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن سماك بن حرب، عن النعمان بن بشير، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي صفوفنا، فخرج يوما فراى رجلا خارجا صدره عن القوم، فقال:" لتسون صفوفكم او ليخالفن الله بين وجوهكم" قال: وفي الباب عن جابر بن سمرة، والبراء، وجابر بن عبد الله، وانس، وابي هريرة، وعائشة، قال ابو عيسى: حديث النعمان بن بشير حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" من تمام الصلاة إقامة الصف وروي" عن عمر انه كان يوكل رجالا بإقامة الصفوف فلا يكبر حتى يخبر ان الصفوف قد استوت، وروي عن علي، وعثمان انهما كانا يتعاهدان ذلك ويقولان: استووا، وكان علي يقول: تقدم يا فلان تاخر يا فلان.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَوِّي صُفُوفَنَا، فَخَرَجَ يَوْمًا فَرَأَى رَجُلًا خَارِجًا صَدْرُهُ عَنِ الْقَوْمِ، فَقَالَ:" لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ" قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَالْبَرَاءِ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ إِقَامَةُ الصَّفِّ وَرُوِيَ" عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُوَكِّلُ رِجَالًا بِإِقَامَةِ الصُّفُوفِ فَلَا يُكَبِّرُ حَتَّى يُخْبَرَ أَنَّ الصُّفُوفَ قَدِ اسْتَوَتْ، وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانَ أَنَّهُمَا كَانَا يَتَعَاهَدَانِ ذَلِكَ وَيَقُولَانِ: اسْتَوُوا، وَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ: تَقَدَّمْ يَا فُلَانُ تَأَخَّرْ يَا فُلَانُ.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں سیدھی کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپ نکلے تو دیکھا کہ ایک شخص کا سینہ لوگوں سے آگے نکلا ہوا ہے، آپ نے فرمایا: تم اپنی صفیں سیدھی رکھو ۱؎ ورنہ اللہ تمہارے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر بن سمرہ، براء، جابر بن عبداللہ، انس، ابوہریرہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: صفیں سیدھی کرنا نماز کی تکمیل ہے،
۴- عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ وہ صفیں سیدھی کرنے کا کام کچھ لوگوں کے سپرد کر دیتے تھے تو مؤذن اس وقت تک اقامت نہیں کہتا جب تک اسے یہ نہ بتا دیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہو چکی ہیں،
۵- علی اور عثمان رضی الله عنہما سے بھی مروی ہے کہ یہ دونوں بھی اس کی پابندی کرتے تھے اور کہتے تھے: «استووا» صف میں سیدھے ہو جاؤ اور علی رضی الله عنہ کہتے تھے: فلاں! آگے بڑھو، فلاں! پیچھے ہٹو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 71 (717)، صحیح مسلم/الصلاة 28 (436)، سنن ابی داود/ الصلاة 94 (662، 665)، سنن النسائی/الإقامة 25 (811)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 50 (992)، (تحفة الأشراف: 11620)، مسند احمد (4/270، 271، 272، 276، 277) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صفیں سیدھی رکھو کا مطلب یہ ہے صف میں ایک مصلی کا کندھا دوسرے مصلی کے کندھے سے اور اس کا پیر دوسرے کے پیر سے ملا ہونا چاہیئے۔
۲؎: لفظی ترجمہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا کر دے گا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا، تمہاری وحدت پارہ پارہ ہو جائے گی اور تمہاری شان و شوکت ختم ہو جائے گی، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے چہروں کو گُدّی کی طرف پھیر کر انہیں بگاڑ دے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (994)
56. باب مَا جَاءَ لِيَلِيَنِي مِنْكُمْ أُولُو الأَحْلاَمِ وَالنُّهَى
56. باب: ارشاد نبوی ”مجھ سے قریب وہ لوگ رہیں جو صاحب فہم و ذکا اور سمجھدار ہوں“ کا بیان۔
Chapter: : What Has Been Related About "Let Those Among You With Understanding And Reason Be Close To Me."
حدیث نمبر: 228
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا خالد الحذاء، عن ابي معشر، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ليليني منكم اولو الاحلام والنهى ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، ولا تختلفوا فتختلف قلوبكم، وإياكم وهيشات الاسواق ". قال: وفي الباب عن ابي بن كعب، وابي مسعود، وابي سعيد، والبراء، وانس، قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود حديث حسن صحيح غريب، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان " يعجبه ان يليه المهاجرون والانصار ليحفظوا عنه "، قال: وخالد الحذاء هو خالد بن مهران يكنى ابا المنازل، قال: وسمعت محمد بن إسماعيل، يقول: يقال إن خالدا الحذاء ما حذا نعلا قط إنما كان يجلس إلى حذاء فنسب إليه، قال: وابو معشر اسمه: زياد بن كليب.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، وَلَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ، وَإِيَّاكُمْ وَهَيْشَاتِ الْأَسْوَاقِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وأَبِي مَسْعُودٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، والْبَرَاءِ، وأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ " يُعْجِبُهُ أَنْ يَلِيَهُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ لِيَحْفَظُوا عَنْهُ "، قَالَ: وَخَالِدٌ الْحَذَّاءُ هُوَ خَالِدُ بْنُ مِهْرَانَ يُكْنَى أَبَا الْمُنَازِلِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: يُقَالُ إِنَّ خَالِدًا الْحَذَّاءَ مَا حَذَا نَعْلًا قَطُّ إِنَّمَا كَانَ يَجْلِسُ إِلَى حَذَّاءٍ فَنُسِبَ إِلَيْهِ، قَالَ: وَأَبُو مَعْشَرٍ اسْمُهُ: زِيَادُ بْنُ كُلَيْبٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو صاحب فہم و ذکا اور سمجھدار ہوں ان کو مجھ سے قریب رہنا چاہیئے، پھر وہ جو (عقل و دانش میں) ان کے قریب ہوں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں، تم آگے پیچھے نہ ہونا کہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑ جائے گی، اور اپنے آپ کو بازار کے شور و غوغا سے بچائے رکھنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابی بن کعب، ابومسعود، ابوسعید، براء، اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اس بات سے خوش ہوتے کہ مہاجرین اور انصار آپس میں قریب قریب رہیں تاکہ وہ آپ سے (سیکھے ہوئے مسائل) محفوظ رکھ سکیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 28 (432)، سنن ابی داود/ الصلاة 96 (675)، (تحفة الأشراف: 9415)، مسند احمد (1/457)، سنن الدارمی/الصلاة 51 (1303) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (679)

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.