سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
166. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ السَّدْلِ فِي الصَّلاَةِ
166. باب: نماز میں سدل کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About As-Sadl Being Disliked During Salat
حدیث نمبر: 378
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا قبيصة، عن حماد بن سلمة، عن عسل بن سفيان، عن عطاء بن ابي رباح، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السدل في الصلاة " قال: وفي الباب عن ابي جحيفة، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة لا نعرفه من حديث عطاء، عن ابي هريرة مرفوعا، إلا من حديث عسل بن سفيان، وقد اختلف اهل العلم في السدل في الصلاة، فكره بعضهم السدل في الصلاة وقالوا: هكذا تصنع اليهود، وقال بعضهم: إنما كره السدل في الصلاة إذا لم يكن عليه إلا ثوب واحد، فاما إذا سدل على القميص فلا باس، وهو قول احمد وكره ابن المبارك السدل في الصلاة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ، فَكَرِهَ بَعْضُهُمُ السَّدْلَ فِي الصَّلَاةِ وَقَالُوا: هَكَذَا تَصْنَعُ الْيَهُودُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا كُرِهَ السَّدْلُ فِي الصَّلَاةِ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ، فَأَمَّا إِذَا سَدَلَ عَلَى الْقَمِيصِ فَلَا بَأْسَ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَكَرِهَ ابْنُ الْمُبَارَكِ السَّدْلَ فِي الصَّلَاةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو عطا کی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کی ہے عسل بن سفیان ہی کے طریق سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں ابوجحیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
۳- سدل کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں سدل کرنا مکروہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس طرح یہود کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ نماز میں سدل اس وقت مکروہ ہو گا جب جسم پر ایک ہی کپڑا ہو، رہی یہ بات کہ جب کوئی کرتے کے اوپر سدل کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۲؎ یہی احمد کا قول ہے لیکن ابن مبارک نے نماز میں سدل کو (مطلقاً) مکروہ قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 86 (643)، (تعلیقا من طریق عسل عن عطائ، ومتصلاً من طریق سلیمان الأحول عن عطائ) (تحفة الأشراف: 14195)، سنن الدارمی/الصلاة 104 (1419) (حسن) (عسل بن سفیان بصری ضعیف راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، لیکن ابو جحیفہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے)»

وضاحت:
۱؎: سدل کی صورت یہ ہے کہ چادر یا رومال وغیرہ کو اپنے سر یا دونوں کندھوں پر ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو لٹکتا چھوڑ دیا جائے اور سدل کی ایک تفسیر یہ بھی کی جاتی ہے کہ کُرتا یا جبہ اس طرح پہنا جائے کہ دونوں ہاتھ آستین میں ڈالنے کے بجائے اندر ہی رکھے جائیں اور اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا جائے۔
۲؎: اس تقیید پر کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مطلق ہے اس لیے کہ سدل مطلقاً جائز نہیں، کرتے کے اوپر سے سدل میں اگرچہ ستر کھلنے کا خطرہ نہیں ہے لیکن اس سے نماز میں خلل تو پڑتا ہی ہے، چاہے سدل کی جو بھی تفسیر کی جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (764)، التعليق على ابن خزيمة (918)، صحيح أبي داود (650)

قال الشيخ زبير على زئي: (378) ضعيف /جه 966
عسل: ضعيف (تق: 4578) وللحديث طريق آخر ضعيف جدًا عند أبى داود (643) وللحديث شواھد ضعيفة
167. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مَسْحِ الْحَصَى فِي الصَّلاَةِ
167. باب: نماز میں کنکری ہٹانے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Smooth The Pebbled During Salat
حدیث نمبر: 379
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن ابي الاحوص، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا قام احدكم إلى الصلاة فلا يمسح الحصى فإن الرحمة تواجهه ". قال: وفي الباب عن معيقيب , وعلي بن ابي طالب , وحذيفة , وجابر بن عبد الله، قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حديث حسن، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم " انه كره المسح في الصلاة " وقال: إن كنت لا بد فاعلا فمرة واحدة، كانه روي عنه رخصة في المرة الواحدة، والعمل على هذا عند اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا يَمْسَحْ الْحَصَى فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَيْقِيبٍ , وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , وَحُذَيْفَةَ , وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ كَرِهَ الْمَسْحَ فِي الصَّلَاةِ " وَقَالَ: إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَمَرَّةً وَاحِدَةً، كَأَنَّهُ رُوِيَ عَنْهُ رُخْصَةٌ فِي الْمَرَّةِ الْوَاحِدَةِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو اپنے سامنے سے کنکریاں نہ ہٹائے ۱؎ کیونکہ اللہ کی رحمت اس کا سامنا کر رہی ہوتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوذر کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں معیقیب، علی بن ابی طالب، حذیفہ، جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے نماز میں کنکری ہٹانے کو ناپسند کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ہٹانا ضروری ہو تو ایک بار ہٹا دے، گویا آپ سے ایک بار کی رخصت مروی ہے،
۴- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 175 (945)، سنن النسائی/السہو 7 (1192)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 63 (1028)، (تحفة الأشراف: 11997)، سنن الدارمی/الصلاة 110 (1428) (ضعیف) (ابو الأحوص لین الحدیث ہیں)»

وضاحت:
۱؎: اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نمازی نماز میں نماز کے علاوہ دوسری چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہو، اس لیے کہ اللہ کی رحمت اس کی جانب متوجہ ہوتی ہے، اگر وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ کرتا ہے تو اندیشہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس سے روٹھ جائے اور وہ اس سے محروم رہ جائے اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1027)
حدیث نمبر: 380
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، حدثنا الوليد بن مسلم، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن، عن معيقيب، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن مسح الحصى في الصلاة، فقال: " إن كنت لا بد فاعلا فمرة واحدة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُعَيْقِيبٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مَسْحِ الْحَصَى فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: " إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَمَرَّةً وَاحِدَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
معیقیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نماز میں کنکری ہٹانے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر ہٹانا ضروری ہی ہو تو ایک بار ہٹا لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمل فی الصلاة 8 (1207)، صحیح مسلم/المساجد 12 (546)، سنن ابی داود/ الصلاة 175 (646)، سنن النسائی/السہو 8 (1193)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 62 (1026)، (تحفة الأشراف: 11485)، مسند احمد (3/426)، و (5/425، 426) سنن الدارمی/الصلاة 110 (1427) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1026)
168. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّفْخِ فِي الصَّلاَةِ
168. باب: نماز میں پھونک مارنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Blow During Salat
حدیث نمبر: 381
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا عباد بن العوام، اخبرنا ميمون ابو حمزة، عن ابي صالح مولى طلحة، عن ام سلمة، قالت: راى النبي صلى الله عليه وسلم غلاما لنا يقال له افلح، إذا سجد نفخ، فقال: " يا افلح ترب وجهك " قال احمد بن منيع: وكره عباد بن العوام النفخ في الصلاة، وقال: إن نفخ لم يقطع صلاته. قال احمد بن منيع: وبه ناخذ، قال ابو عيسى: وروى بعضهم عن ابي حمزة هذا الحديث، وقال مولى لنا يقال له رباح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، أَخْبَرَنَا مَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا لَنَا يُقَالُ لَهُ أَفْلَحُ، إِذَا سَجَدَ نَفَخَ، فَقَالَ: " يَا أَفْلَحُ تَرِّبْ وَجْهَكَ " قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: وَكَرِهَ عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ النَّفْخَ فِي الصَّلَاةِ، وَقَالَ: إِنْ نَفَخَ لَمْ يَقْطَعْ صَلَاتَهُ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: وَبِهِ نَأْخُذُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَالَ مَوْلًى لَنَا يُقَالُ لَهُ رَبَاحٌ.
ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے (گھر کے) ایک لڑکے کو دیکھا جسے افلح کہا جاتا تھا کہ جب وہ سجدہ کرتا تو پھونک مارتا ہے، تو آپ نے فرمایا: افلح! اپنے چہرے کو گرد آلودہ کر ۱؎۔ احمد بن منیع کہتے ہیں کہ عباد بن العوام نے نماز میں پھونک مارنے کو مکروہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسی نے پھونک مار ہی دی تو اس کی نماز باطل نہ ہو گی۔ احمد بن منیع کہتے ہیں کہ اسی کو ہم بھی اختیار کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کو بعض دیگر لوگوں نے ابوحمزہ کے واسطہ سے روایت کی ہے۔ اور «غلاما لنا يقال له أفلح» کے بجائے «مولى لنا يقال له رباح» (ہمارے مولیٰ کو جسے رباح کہا جاتا تھا) کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18244) (ضعیف) (سند میں میمون ابو حمزہ القصاب ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ تواضع سے یہی زیادہ قریب تر ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 193)، المشكاة (1002)، الضعيفة (5485) // ضعيف الجامع الصغير (6378) //
حدیث نمبر: 382
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن ميمون ابي حمزة بهذا الإسناد نحوه، وقال: غلام لنا يقال له رباح. قال ابو عيسى: وحديث ام سلمة إسناده ليس بذاك، وميمون ابو حمزة قد ضعفه بعض اهل العلم، واختلف اهل العلم في النفخ في الصلاة، فقال بعضهم: إن نفخ في الصلاة استقبل الصلاة، وهو قول سفيان الثوري واهل الكوفة، وقال بعضهم: يكره النفخ في الصلاة وإن نفخ في صلاته لم تفسد صلاته، وهو قول: احمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي حَمْزَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَقَالَ: غُلَامٌ لَنَا يُقَالُ لَهُ رَبَاحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ، وَمَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي النَّفْخِ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ نَفَخَ فِي الصَّلَاةِ اسْتَقْبَلَ الصَّلَاةَ، وَهُوَ قَوْلُ سفيان الثوري وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُكْرَهُ النَّفْخُ فِي الصَّلَاةِ وَإِنْ نَفَخَ فِي صَلَاتِهِ لَمْ تَفْسُدْ صَلَاتُهُ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
اس سند سے حماد بن زید نے میمون ابی حمزہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اور اس میں «غلام لنا يقال له رباح» ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں، میمون ابوحمزہ کو بعض اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے،
۲- اور نماز میں پھونک مارنے کے سلسلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں پھونک مارے تو وہ نماز دوبارہ پڑھے، یہی قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نماز میں پھونک مارنا مکروہ ہے، اور اگر کسی نے اپنی نماز میں پھونک مار ہی دی تو اس کی نماز فاسد نہ ہو گی، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
169. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ الاِخْتِصَارِ، فِي الصَّلاَةِ
169. باب: نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Prohibition Of Al-Ikhtisar (Holding The Hip) In Salat
حدیث نمبر: 383
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو اسامة، عن هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " نهى ان يصلي الرجل مختصرا " قال: وفي الباب عن ابن عمر، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وقد كره بعض اهل العلم الاختصار في الصلاة، وكره بعضهم ان يمشي الرجل مختصرا، والاختصار ان يضع الرجل يده على خاصرته في الصلاة او يضع يديه جميعا على خاصرتيه، ويروى ان إبليس إذا مشى مشى مختصرا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الِاخْتِصَارَ فِي الصَّلَاةِ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَمْشِيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا، وَالِاخْتِصَارُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ عَلَى خَاصِرَتِهِ فِي الصَّلَاةِ أَوْ يَضَعَ يَدَيْهِ جَمِيعًا عَلَى خَاصِرَتَيْهِ، وَيُرْوَى أَنَّ إِبْلِيسَ إِذَا مَشَى مَشَى مُخْتَصِرًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوکھ پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- بعض اہل علم نے نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، اور بعض نے آدمی کے کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چلنے کو مکروہ کہا ہے، اور اختصار یہ ہے کہ آدمی نماز میں اپنا ہاتھ اپنی کوکھ پر رکھے، یا اپنے دونوں ہاتھ اپنی کوکھوں پر رکھے۔ اور روایت کی جاتی ہے کہ شیطان جب چلتا ہے تو کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چلتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمل فی الصلاة 17 (1220)، صحیح مسلم/المساجد 11 (545)، سنن ابی داود/ الصلاة 176 (947)، سنن النسائی/الافتتاح 12 (891)، (تحفة الأشراف: 14560)، مسند احمد (2/232، 290، 295، 331، 399)، سنن الدارمی/الصلاة 138 (1468) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ تکبر کی علامت ہے جب کہ نماز اللہ کے حضور عجز و نیاز مندی کے اظہار کا نام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة (69)، صحيح أبي داود (873)، الروض النضير (1152)، الإرواء (374)
170. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ كَفِّ الشَّعْرِ فِي الصَّلاَةِ
170. باب: جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Gather The Hair During Salat
حدیث نمبر: 384
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، عن عمران بن موسى، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي رافع، انه مر بالحسن بن علي وهو يصلي وقد عقص ضفرته في قفاه فحلها، فالتفت إليه الحسن مغضبا، فقال: اقبل على صلاتك ولا تغضب، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ذلك كفل الشيطان " قال: وفي الباب عن ام سلمة، وعبد الله بن عباس، قال ابو عيسى: حديث ابي رافع حديث حسن، والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا ان يصلي الرجل وهو معقوص شعره. قال ابو عيسى: وعمران بن موسى هو: القرشي المكي وهو اخ وايوب بن موسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّهُ مَرَّ بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ عَقَصَ ضَفِرَتَهُ فِي قَفَاهُ فَحَلَّهَا، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الْحَسَنُ مُغْضَبًا، فَقَالَ: أَقْبِلْ عَلَى صَلَاتِكَ وَلَا تَغْضَبْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " ذَلِكَ كِفْلُ الشَّيْطَانِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ مَعْقُوصٌ شَعْرُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعِمْرَانُ بْنُ مُوسَى هُوَ: الْقُرَشِيُّ الْمَكِّيُّ وَهُوَ أَخُ وَأَيُّوبَ بْنِ مُوسَى.
ابورافع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ حسن بن علی رضی الله عنہما کے پاس سے گزرے، وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنی گدی پر جوڑا باندھ رکھا تھا، ابورافع رضی الله عنہ نے اسے کھول دیا، حسن رضی الله عنہ نے ان کی طرف غصہ سے دیکھا تو انہوں نے کہا: اپنی نماز پر توجہ دو اور غصہ نہ کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ شیطان کا حصہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابورافع رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ام سلمہ اور عبداللہ بن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ ان لوگوں نے اس بات کو مکروہ کہا کہ نماز پڑھے اور وہ اپنے بالوں کا جوڑا باندھے ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 88 (646)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 167 (1042)، (6/8، 391)، (تحفة الأشراف: 12030)، سنن الدارمی/الصلاة 105 (1420) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: لیکن یہ مردوں کے لیے ہے، عورتوں کو جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، عورتوں کو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت تک میں جوڑا کھولنے سے معاف کر دیا ہے، نماز میں عورت کے جوڑا کھولنے سے اس کے بال اوڑھنی سے باہر نکل سکتے ہیں جب کہ عورت کے بال نماز کی حالت میں اوڑھنی سے باہر نکلنے سے نماز باطل ہو جائے گی، نیز ہر نماز کے وقت جوڑا کھول دینے اور نماز کے بعد باندھ لینے میں پریشانی بھی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، صحيح أبي داود (653)
171. باب مَا جَاءَ فِي التَّخَشُّعِ فِي الصَّلاَةِ
171. باب: نماز میں خشوع و خضوع کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Having Khushu' During Salat
حدیث نمبر: 385
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، حدثنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا الليث بن سعد، اخبرنا عبد ربه بن سعيد، عن عمران بن ابي انس، عن عبد الله بن نافع ابن العمياء، عن ربيعة بن الحارث، عن الفضل بن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصلاة مثنى مثنى تشهد في كل ركعتين وتخشع وتضرع وتمسكن وتذرع وتقنع يديك، يقول: ترفعهما إلى ربك مستقبلا ببطونهما وجهك، وتقول: يا رب يا رب، ومن لم يفعل ذلك فهو كذا وكذا ". قال ابو عيسى: وقال غير ابن المبارك في هذا الحديث: من لم يفعل ذلك فهي خداج. قال ابو عيسى: سمعت محمد بن إسماعيل يقول: روى شعبة هذا الحديث، عن عبد ربه بن سعيد فاخطا في مواضع، فقال: عن انس بن ابي انس وهو عمران بن ابي انس، وقال: عن عبد الله بن الحارث، وإنما هو عبد الله بن نافع ابن العمياء، عن ربيعة بن الحارث، وقال شعبة: عن عبد الله بن الحارث، عن المطلب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وإنما هو عن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، عن الفضل بن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال محمد: وحديث الليث بن سعد هو حديث صحيح يعني اصح من حديث شعبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَتَخَشَّعُ وَتَضَرَّعُ وَتَمَسْكَنُ وَتَذَرَّعُ وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ، يَقُولُ: تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ مُسْتَقْبِلًا بِبُطُونِهِمَا وَجْهَكَ، وَتَقُولُ: يَا رَبِّ يَا رَبِّ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهُوَ كَذَا وَكَذَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وقَالَ غَيْرُ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يَقُولُ: رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ فَأَخْطَأَ فِي مَوَاضِعَ، فَقَالَ: عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ وَهوَ عِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، وَإِنَّمَا هُو عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، وَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ الْمُطَّلِبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّمَا هُوَ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ هُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ يَعْنِي أَصَحَّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ.
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، نماز خشوع و خضوع، مسکنت اور گریہ وزاری کا اظہار ہے، اور تم اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ۔ یعنی تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کے سامنے اٹھاؤ اس حال میں کہ ہتھیلیاں تمہارے منہ کی طرف ہوں اور کہہ: اے رب! اے رب! اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ایسا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مبارک کے علاوہ اور لوگوں نے اس حدیث میں «من لم يفعل ذلك فهي خداج» جس نے ایسا نہیں کیا اس کی نماز ناقص ہے کہا ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ شعبہ نے یہ حدیث عبدربہ بن سعید سے روایت کی ہے اور ان سے کئی مقامات پر غلطیاں ہوئی ہیں: ایک تو یہ کہ انہوں نے انس بن ابی انس سے روایت کی حالانکہ وہ عمران بن ابی انس ہیں، دوسرے یہ کہ انہوں نے «عن عبدالله بن حارث» کہا ہے حالانکہ وہ «عبدالله بن نافع بن العمياء عن ربيعة بن الحارث» ہے، تیسرے یہ کہ شعبہ نے «عن عبدالله بن الحارث عن المطلب عن النبي صلى الله عليه وسلم» کہا ہے حالانکہ صحیح «عن ربيعة بن الحارث بن عبدالمطلب عن الفضل بن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم» ہے۔ محمد بن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں: لیث بن سعد کی حدیث صحیح ہے یعنی شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (ورنہ اصلاً تو ضعیف ہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف ورواہ النسائی في الکبری فی الصلاة (119) (تحفة الأشراف: 11043) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن نافع ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1325) // ضعيف سنن ابن ماجة (277)، ضعيف الجامع الصغير (3512)، ضعيف أبي داود (282 / 1296) نحوه //

قال الشيخ زبير على زئي: (385) إسناده ضعيف
عبدالله بن نافع بن العمياء: مجھول (تق: 3658) بل ضعفه راجع (د 1296)
172. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّشْبِيكِ بَيْنَ الأَصَابِعِ فِي الصَّلاَةِ
172. باب: نماز میں ایک ہاتھ کی انگلیوں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked to Intertwine The Fingers During Salat
حدیث نمبر: 386
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن سعيد المقبري، عن رجل، عن كعب بن عجرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا توضا احدكم فاحسن وضوءه ثم خرج عامدا إلى المسجد فلا يشبكن بين اصابعه فإنه في صلاة " قال ابو عيسى: حديث كعب بن عجرة رواه غير واحد، عن ابن عجلان، مثل حديث الليث، وروى شريك، عن محمد بن عجلان، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا الحديث، وحديث شريك غير محفوظ.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يُشَبِّكَنَّ بَيْنَ أَصَابِعِهِ فَإِنَّهُ فِي صَلَاةٍ " قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، مِثْلَ حَدِيثِ اللَّيْثِ، وَرَوَى شَرِيكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَحَدِيثُ شَرِيكٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح سے وضو کرے اور پھر مسجد کے ارادے سے نکلے تو وہ «تشبیک» نہ کرے (یعنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست نہ کرے) کیونکہ وہ نماز میں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- کعب بن عجرہ کی حدیث کو ابن عجلان سے کئی لوگوں نے لیث والی حدیث کی طرح روایت کی ہے،
۲- اور شریک نے بطریق: «محمد بن عجلان عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے اور شریک کی روایت غیر محفوظ ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «(تحفة الأشراف: 11121)، وأخرجہ مسند احمد (4/242)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 42 (967) (ضعیف) (پہلی سند میں ایک راوی مبہم ہے، نیز اس سند میں سخت اضطراب بھی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، اور دوسری سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، جن کی حدیث کے بارے میں ترمذی کہتے ہیں کہ یہ غیر محفوظ ہے، لیکن اس حدیث کی اصل بسند اسماعیل بن امیہ عن سعید المقبری عن ابی ہریرہ مرفوعا صحیح ہے (سنن الدارمی: 1413) و صححہ ابن خزیمة وقال الحاکم: صحیح علی شرطہما وقال المنذری: وفیما قالہ نظر) تفصیل کے لیے دیکھئے: الار واء رقم: 379)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ شریک نے لیث اور دیگر کئی لوگوں کی مخالفت کی ہے، نیز شریک کا حافظہ کمزور ہو گیا تھا اور وہ روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے، اس کے برخلاف لیث بن سعد حد درجہ ثقہ ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (967)
173. باب مَا جَاءَ فِي طُولِ الْقِيَامِ فِي الصَّلاَةِ
173. باب: نماز میں دیر تک قیام کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Lengthy Standing During Salat
حدیث نمبر: 387
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قيل للنبي صلى الله عليه وسلم اي الصلاة افضل؟ قال: " طول القنوت " قال: وفي الباب عن عبد الله بن حبشي , وانس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: حديث جابر بن عبد الله حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن جابر بن عبد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " طُولُ الْقُنُوتِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ , وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: جس میں قیام لمبا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور یہ دیگر سندوں سے بھی جابر بن عبداللہ سے مروی ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن حبشی اور انس بن مالک رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 22 (756)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 200 (1421)، (تحفة الأشراف: 2767)، مسند احمد (3/302، 391، 412) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طول قیام کثرت رکوع و سجود سے افضل ہے، علماء کی ایک جماعت جس میں امام شافعی بھی شامل ہیں اسی طرف گئی ہے اور یہی حق ہے، رکوع اور سجود کی فضیلت میں جو حدیثیں وارد ہیں وہ اس کے منافی نہیں ہیں کیونکہ ان دونوں کی فضیلت سے طول قیام پر ان کی افضیلت لازم نہیں آتی۔ واضح رہے کہ یہ نفل نماز سے متعلق ہے کیونکہ ایک تو فرض کی رکعتیں متعین ہیں، دوسرے امام کو حکم ہے کہ ہلکی نماز پڑھائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1421)

Previous    20    21    22    23    24    25    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.