(مرفوع) وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من بنى لله مسجدا صغيرا كان او كبيرا بنى الله له بيتا في الجنة ". حدثنا بذلك قتيبة، حدثنا نوح بن قيس، عن عبد الرحمن مولى قيس، عن زياد النميري، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا.(مرفوع) وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا صَغِيرًا كَانَ أَوْ كَبِيرًا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى قَيْسٍ، عَنْ زِيَادٍ النُّمَيْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
انس رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کے لیے کوئی مسجد بنائی، چھوٹی ہو یا بڑی، اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 839) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن مولیٰ قیس مجہول، اور زیادالنمیری“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 117) // ضعيف الجامع الصغير (5509) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف زيادة النميري: ضعیف [ ”وهو ضعیف عند الجمهور“ (مجمع الزوائد:388/10) ] وعبد الرحمن مولى قيس: مجهول (تق:4053،2087)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الوارث بن سعيد، عن محمد بن جحادة، عن ابي صالح، عن ابن عباس، قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرج " قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وعائشة، قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن، وابو صالح هذا هو مولى ام هانئ بنت ابي طالب واسمه: باذان، ويقال باذام ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو صَالِحٍ هَذَا هُوَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئِ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ وَاسْمُهُ: بَاذَانُ، وَيُقَالُ بَاذَامُ أَيْضًا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مساجد بنانے والے اور چراغ جلانے والے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 82 (3236)، سنن النسائی/الجنائز 104 (2045)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 49 (1575)، (تحفة الأشراف: 537)، مسند احمد (1/229، 287، 324، 337) (ضعیف) (سند میں ”ابو صالح باذام مولیٰ ام ہانی ضعیف ہیں، مسجد میں صرف چراغ جلانے والی بات ضعیف ہے، بقیہ دو باتوں کے صحیح شواہد موجود ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، و، الصحيحة بلفظ: " زوارات " دون " السرج "، ابن ماجة (1575)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 3236، ن 2045
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، قال: " كنا ننام على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ونحن شباب ". قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، وقد رخص قوم من اهل العلم في النوم في المسجد، قال ابن عباس: لا يتخذه مبيتا ولا مقيلا، وقوم من اهل العلم ذهبوا إلى قول ابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كُنَّا نَنَامُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَنَحْنُ شَبَابٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي النَّوْمِ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا يَتَّخِذُهُ مَبِيتًا وَلَا مَقِيلًا، وَقَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ذَهَبُوا إِلَى قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں سوتے تھے اور ہم نوجوان تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم میں کی ایک جماعت نے مسجد میں سونے کی اجازت دی ہے، ابن عباس کہتے ہیں: کوئی اسے سونے اور قیلولے کی جگہ نہ بنائے ۱؎ اور بعض اہل علم ابن عباس کے قول کی طرف گئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن ابن ماجہ/المساجد 6 (751)، (تحفة الأشراف: 696)، و مسند احمد (1/12) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحابہ کرام اور سلف صالحین مسجد میں سویا کرتے تھے، اس لیے جواز میں کوئی شبہ نہیں ابن عباس رضی الله عنہما کا یہ کہنا ٹھیک ہی ہے کہ جس کا گھر اسی محلے میں ہو وہ مسجد میں رات نہ گزارے اسی کے قائل امام مالک بھی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه: " نهى عن تناشد الاشعار في المسجد، وعن البيع والاشتراء فيه، وان يتحلق الناس فيه يوم الجمعة قبل الصلاة "قال: وفي الباب عن بريدة , وجابر , وانس، قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن عمرو بن العاص حديث حسن، وعمرو بن شعيب هو: ابن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال محمد بن إسماعيل: رايت احمد , وإسحاق، وذكر غيرهما يحتجون بحديث عمرو بن شعيب، قال محمد: وقد سمع شعيب بن محمد من جده عبد الله بن عمرو، قال ابو عيسى: ومن تكلم في حديث عمرو بن شعيب إنما ضعفه، لانه يحدث عن صحيفة جده كانهم راوا انه لم يسمع هذه الاحاديث من جده، قال علي بن عبد الله: وذكر عن يحيى بن سعيد، انه قال: حديث عمرو بن شعيب عندنا واه، وقد كره قوم من اهل العلم البيع والشراء في المسجد، وبه يقول: احمد , وإسحاق، وقد روي عن بعض اهل العلم من التابعين رخصة في البيع والشراء في المسجد، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في غير حديث رخصة في إنشاد الشعر في المسجد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ: " نَهَى عَنْ تَنَاشُدِ الْأَشْعَارِ فِي الْمَسْجِدِ، وَعَنِ الْبَيْعِ وَالِاشْتِرَاءِ فِيهِ، وَأَنْ يَتَحَلَّقَ النَّاسُ فِيهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ "قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ , وَجَابِرٍ , وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ هُوَ: ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: رَأَيْتُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق، وَذَكَرَ غَيْرَهُمَا يَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ سَمِعَ شُعَيْبُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَنْ تَكَلَّمَ فِي حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ إِنَّمَا ضَعَّفَهُ، لِأَنَّهُ يُحَدِّثُ عَنْ صَحِيفَةِ جَدِّهِ كَأَنَّهُمْ رَأَوْا أَنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ مِنْ جَدِّهِ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ قَالَ: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عِنْدَنَا وَاهٍ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْبَيْعَ وَالشِّرَاءَ فِي الْمَسْجِدِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ رُخْصَةٌ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ فِي الْمَسْجِدِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ رُخْصَةٌ فِي إِنْشَادِ الشِّعْرِ فِي الْمَسْجِدِ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اشعار پڑھنے، خرید و فروخت کرنے، اور جمعہ کے دن نماز (جمعہ) سے پہلے حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- عمرو کے باپ شعیب: محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کے بیٹے ہیں ۱؎، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ میں نے احمد اور اسحاق بن راہویہ کو (اور ان دونوں کے علاوہ انہوں نے کچھ اور لوگوں کا ذکر کیا ہے) دیکھا کہ یہ لوگ عمرو بن شعیب کی حدیث سے استدلال کرتے تھے، محمد بن اسماعیل کہتے ہیں کہ شعیب بن محمد نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے سنا ہے،
۳ - جن لوگوں نے عمرو بن شعیب کی حدیث میں کلام کرنے والوں نے انہیں صرف اس لیے ضعیف قرار دیا ہے کہ وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما) کے صحیفے (صحیفہ الصادقہ) سے روایت کرتے ہیں، گویا ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ احادیث انہوں نے اپنے دادا سے نہیں سنی ہیں ۲؎ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید (قطان) سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: عمرو بن شعیب کی حدیث ہمارے نزدیک ضعیف ہے، ۴- اس باب میں بریدہ، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مسجد میں خرید و فروخت کو مکروہ قرار دیا ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں ۳؎، ۶- اور تابعین میں سے بعض اہل علم سے مسجد میں خرید و فروخت کرنے کی رخصت مروی ہے، ۷- نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثوں میں مسجد میں شعر پڑھنے کی رخصت مروی ہے ۴؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 220 (1079)، سنن النسائی/المساجد 23 (714)، سنن ابن ماجہ/المساجد 5 (749)، (تحفة الأشراف: 8796)، مسند احمد (2/179) (حسن) (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس طرح شعیب کے والد محمد بن عبداللہ ہوئے جو عمرو کے دادا ہیں، اور شعیب کے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص ہوئے۔
۲؎: صحیح قول یہ ہے کہ شعیب بن محمد کا سماع اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ثابت ہے، اور «عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ» کے طریق سے جو احادیث آئی ہیں وہ صحیح اور مطلقاً حجت ہیں، بشرطیکہ ان تک جو سند پہنچتی ہو وہ صحیح ہو۔
۳؎: یہی جمہور کا قول ہے اور یہی حق ہے اور جن لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے ان کا قول کسی صحیح دلیل پر مبنی نہیں بلکہ صحیح احادیث اس کی تردید کرتی ہیں۔
۴؎: مسجد میں شعر پڑھنے کی رخصت سے متعلق بہت سی احادیث وارد ہیں، ان دونوں قسم کی روایتوں میں دو طرح سے تطبیق دی جاتی ہے: ایک تو یہ کہ ممانعت والی روایت کو نہی تنزیہی پر یعنی مسجد میں نہ پڑھنا بہتر ہے، اور رخصت والی روایتوں کو بیان جواز پر محمول کیا جائے، دوسرے یہ کہ مسجد میں فحش اور مخرب اخلاق اشعار پڑھنا ممنوع ہے، رہے ایسے اشعار جو توحید، اتباع سنت اور اصلاح معاشرہ وغیرہ اصلاحی مضامین پر مشتمل ہوں تو ان کے پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ حسان بن ثابت رضی الله عنہ سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھوایا کرتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن انيس بن ابي يحيى، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري، قال: امترى رجل من بني خدرة ورجل من بني عمرو بن عوف في المسجد الذي اسس على التقوى، فقال الخدري: " هو مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال الآخر: هو مسجد قباء، فاتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك، فقال: هو هذا يعني مسجده وفي ذلك خير كثير ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: حدثنا ابو بكر، عن علي بن عبد الله، قال: سالت يحيى بن سعيد، عن محمد بن ابي يحيى الاسلمي، فقال: لم يكن به باس، واخوه انيس بن ابي يحيى اثبت منه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ أُنَيْسِ بْنِ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: امْتَرَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي خُدْرَةَ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى، فَقَالَ الْخُدْرِيُّ: " هُوَ مَسْجِدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ الْآخَرُ: هُوَ مَسْجِدُ قُبَاءٍ، فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: هُوَ هَذَا يَعْنِي مَسْجِدَهُ وَفِي ذَلِكَ خَيْرٌ كَثِيرٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَحْيَى الْأَسْلَمِيِّ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ بِهِ بَأْسٌ، وَأَخُوهُ أُنَيْسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى أَثْبَتُ مِنْهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی خدرہ کے ایک شخص اور بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص کے درمیان بحث ہو گئی کہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ۱؎ تو خدری نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (یعنی مسجد نبوی) ہے، دوسرے نے کہا: وہ مسجد قباء ہے، چنانچہ وہ دونوں اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ”وہ یہ مسجد ہے، یعنی مسجد نبوی اور اس میں (یعنی مسجد قباء میں) بھی بہت خیر و برکت ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- علی بن عبداللہ بن المدینی نے یحییٰ بن سعید القطان سے (سند میں موجود راوی) محمد بن ابی یحییٰ اسلمی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ان میں کوئی قابل گرفت بات نہیں ہے، اور ان کے بھائی انیس بن ابی یحییٰ ان سے زیادہ ثقہ ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی سورۃ التوبہ میں ارشاد الٰہی «لمسجد أسس على التقوى من أول يوم» سے کون سی مسجد مراد ہے؟
۲؎: یہ حدیث صرف اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہے کہ «لمسجد أسس على التقوى» سے مراد مسجد نبوی ہی ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ اس مسجد نبوی کی بھی تقویٰ پر ہی بنیاد ہے، یہ مطلب لوگوں نے اس لیے لیا ہے کہ قرآن میں سیاق و سباق سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ ارشاد ربانی مسجد قباء کے بارے میں ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء ابو كريب، وسفيان بن وكيع، قالا: حدثنا ابو اسامة، عن عبد الحميد بن جعفر، قال: حدثنا ابو الابرد مولى بني خطمة، انه سمع اسيد بن ظهير الانصاري، وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الصلاة في مسجد قباء كعمرة ". قال: وفي الباب عن سهل بن حنيف، قال ابو عيسى: حديث اسيد حديث حسن غريب، ولا نعرف لاسيد بن ظهير شيئا يصح غير هذا الحديث، ولا نعرفه إلا من حديث ابي اسامة، عن عبد الحميد بن جعفر، وابو الابرد اسمه: زياد مديني.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ، وَسُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَبْرَدِ مَوْلَى بَنِي خَطْمَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أُسَيْدَ بْنَ ظُهَيْرٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الصَّلَاةُ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ كَعُمْرَةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُسَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِأُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ شَيْئًا يَصِحُّ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَأَبُو الْأَبْرَدِ اسْمُهُ: زِيَادٌ مَدِينِيٌّ.
اسید بن ظہیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد قباء میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسید کی حدیث حسن، غریب ہے، ۲- اس باب میں سہل بن حنیف رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- ہم اسید بن ظہیر کی کوئی ایسی چیز نہیں جانتے جو صحیح ہو سوائے اس حدیث کے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة197 (1411) (تحفة الأشراف: 155) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مسجد قباء میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے ثواب کے برابر ہے۔
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، ح وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن زيد بن رباحوعبيد الله بن ابي عبد الله الاغر، عن ابي عبد الله الاغر، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة في مسجدي هذا خير من الف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام ". قال ابو عيسى: ولم يذكر قتيبة في حديثه، عن عبيد الله، إنما ذكر عن زيد بن رباح، عن ابي عبد الله الاغر، عن ابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عبد الله الاغر اسمه: سلمان، وقد روي عن ابي هريرة من غير وجه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وفي الباب عن علي وميمونة وابي سعيد , وجبير بن مطعم , وابن عمر , وعبد الله بن الزبير , وابي ذر.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ رَبَاحٍوَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عبد الله الأغر، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَمْ يَذْكُرْ قُتَيْبَةُ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، إِنَّمَا ذَكَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُوَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرُّ اسْمُهُ: سَلْمَانُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمَيْمُونَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ , وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , وَابْنِ عُمَرَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , وَأَبِي ذَرٍّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اس مسجد کی ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے زیادہ بہتر ہے، سوائے مسجد الحرام کے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- کئی سندوں سے مروی ہے، ۳- اس باب میں علی، میمونہ، ابوسعید، جبیر بن مطعم، ابن عمر، عبداللہ بن زبیر اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین مساجد کے سوا کسی اور جگہ کے لیے سفر نہ کیا جائے، ۱- مسجد الحرام کے لیے، ۲- میری اس مسجد (مسجد نبوی) کے لیے، ۳- مسجد الاقصیٰ کے لیے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ثواب کی نیت سے سفر نہ کیا جائے، مگر صرف انہی تین مساجد کی طرف، اس سے کوئی بھی چوتھی مسجد اور تمام مساجد و مقابر خارج ہو گئے، حتیٰ کہ قبر نبوی کی زیارت کی نیت سے بھی سفر جائز نہیں، ہاں مسجد نبوی کی نیت سے مدینہ جانے پر قبر نبوی کی مشروع زیارت جائز ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اقيمت الصلاة فلا تاتوها وانتم تسعون ولكن ائتوها وانتم تمشون وعليكم السكينة فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فاتموا ". وفي الباب عن ابي قتادة , وابي بن كعب , وابي سعيد , وزيد بن ثابت , وجابر , وانس، قال ابو عيسى: اختلف اهل العلم في المشي إلى المسجد، فمنهم من راى الإسراع إذا خاف فوت التكبيرة الاولى، حتى ذكر عن بعضهم انه كان يهرول إلى الصلاة، ومنهم من كره الإسراع واختار ان يمشي على تؤدة ووقار، وبه يقول احمد , وإسحاق، وقالا: العمل على حديث ابي هريرة، وقال إسحاق: إن خاف فوت التكبيرة الاولى فلا باس ان يسرع في المشي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا تَأْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ وَلَكِنْ ائْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَمْشُونَ وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةَ فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ , وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَجَابِرٍ , وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَمِنْهُمْ مَنْ رَأَى الْإِسْرَاعَ إِذَا خَافَ فَوْتَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى، حَتَّى ذُكِرَ عَنْ بَعْضِهِمْ أَنَّهُ كَانَ يُهَرْوِلُ إِلَى الصَّلَاةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ كَرِهَ الْإِسْرَاعَ وَاخْتَارَ أَنْ يَمْشِيَ عَلَى تُؤَدَةٍ وَوَقَارٍ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَقَالَا: الْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وقَالَ إِسْحَاق: إِنْ خَافَ فَوْتَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى فَلَا بَأْسَ أَنْ يُسْرِعَ فِي الْمَشْيِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کی تکبیر (اقامت) کہہ دی جائے تو (نماز میں سے) اس کی طرف دوڑ کر مت آؤ، بلکہ چلتے ہوئے اس حال میں آؤ کہ تم پر سکینت طاری ہو، تو جو پاؤ اسے پڑھو اور جو چھوٹ جائے، اسے پوری کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوقتادہ، ابی بن کعب، ابوسعید، زید بن ثابت، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اہل علم کا مسجد کی طرف چل کر جانے میں اختلاف ہے: ان میں سے بعض کی رائے ہے کہ جب تکبیر تحریمہ کے فوت ہونے کا ڈر ہو، وہ دوڑے یہاں تک کہ بعض لوگوں کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ نماز کے لیے قدرے دوڑ کر جاتے تھے اور بعض لوگوں نے دوڑ کر جانے کو مکروہ قرار دیا ہے اور آہستگی و وقار سے جانے کو پسند کیا ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، ان دونوں کا کہنا ہے کہ عمل ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث پر ہے۔ اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر تکبیر تحریمہ کے چھوٹ جانے کا ڈر ہو تو دوڑ کر جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحو حديث ابي سلمة، عن ابي هريرة بمعناه، هكذا قال عبد الرزاق: عند سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهذا اصح من حديث يزيد بن زريع.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ بِمَعْنَاهُ، هَكَذَا قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کے ساتھ مروی ہے جیسے ابوسلمہ کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ اسی طرح کہا ہے عبدالرزاق نے وہ روایت کرتے ہیں کہ سعید بن المسیب سے اور سعید بن مسیب نے بواسطہ ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے اور یہ یزید بن زریع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 13305)، وأخرجہ: مسند احمد (2/270) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی عبدالرزاق کا اپنی روایت میں «عن سعید بن المسیب عن ابی ہریرہ» کہنا یزید بن زریع کی روایت میں «عن ابی سلمہ عن ابی ہریرہ» کہنے سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ سفیان نے عبدالرزاق کی متابعت کی ہے، ان کی روایت میں بھی «عن سعید بن المسیب عن ابی ہریرہ» ہی ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں ہے۔