ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین مساجد کے سوا کسی اور جگہ کے لیے سفر نہ کیا جائے، ۱- مسجد الحرام کے لیے، ۲- میری اس مسجد (مسجد نبوی) کے لیے، ۳- مسجد الاقصیٰ کے لیے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ثواب کی نیت سے سفر نہ کیا جائے، مگر صرف انہی تین مساجد کی طرف، اس سے کوئی بھی چوتھی مسجد اور تمام مساجد و مقابر خارج ہو گئے، حتیٰ کہ قبر نبوی کی زیارت کی نیت سے بھی سفر جائز نہیں، ہاں مسجد نبوی کی نیت سے مدینہ جانے پر قبر نبوی کی مشروع زیارت جائز ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 326
اردو حاشہ: 1؎: یعنی ثواب کی نیت سے سفر نہ کیا جائے، مگر صرف انہی تین مساجد کی طرف، اس سے کوئی بھی چوتھی مسجد اور تمام مساجد و مقابر خارج ہو گئے، حتی کہ قبر نبوی کی زیارت کی نیت سے بھی سفر جائز نہیں، ہاں مسجد نبوی کی نیت سے مدینہ جانے پر قبرنبوی کی مشروع زیارت جائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 326
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3261
قزعہ بیان کرتے ہیں، کہ میں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث سنی، جو مجھے بہت اچھی لگی، تو میں نے ان سے دریافت کیا، کیا آپ نے یہ روایت براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ اس نے کہا: تو کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ بات کہتا ہوں جو میں نے سنی نہیں ہے؟ اس نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تین مسجدوں کے سوا کسی جگہ کا رخت سفر نہ باندھو، میری یہ مسجد،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3261]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عورت بغیر محرم کے کتنی مسافت کا سفر کر سکتی ہے۔ اس کے بارے میں مختلف روایات آئی ہیں معلوم ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف مواقع پر مختلف مسافت کے بارے میں سوال کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطابق جواب دیا کسی نے تین دن کی مسافت کے بارے میں سوا ل کیا، کسی نے دو دن کے بارے میں اور کسی نے ایک دن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو یہی جواب دیا کہ بغیر محرم کے سفر جائز نہیں ہے، بعض روایات میں ایک برید کی مسافت آئی ہے، جو بارہ میل ہے اور بعض میں تین میل آیا ہے، صحیح بات یہی ہے جو بھی سفر ہے کم ہو یا زیادہ جس سے معلوم ہوتا ہے عورت کو بغیر محرم کے سفر نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ اس باب کے آخرمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت آ رہی ہے۔ (لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ)(کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے) لیکن احناف کے نزدیک تین دن سے کم مسافت کا سفر بغیر محرم کے کر سکتی ہے، سفرِ حج کے بارے میں اختلاف ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر سفر میں امن اور اطمینان و سکون حاصل ہو، جس کی تین صورتیں ہیں۔ 1۔ شوہر ساتھ ہو۔ (2) ۔ ایسا رشتے دار ساتھ ہو، جس کے ساتھ نکاح نہیں ہو سکتا۔ (3) چند معتبر اور قابل اعتماد عورتیں ساتھ ہوں ان تینوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے تو عورت پر حج کرنا لازم ہے اس کے بغیر وہ حج نہیں کرسکتی، عطاء سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ، ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بھی یہی ہے احناف اور حنابلہ کے ہاں عورت محرم کے بغیر حج نہیں کر سکتی، ہاں اگر مسافت تین دن سے کم ہو تو احناف کے نزدیک حج کرے گی، علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے اگر امن کا زمانہ ہو اور عورت کو اعتماد ہو تو وہ تنہا بھی سفر کرسکتی ہے، مولانا بدر عالم میرٹھی نے بھی اس کی تائید کی ہے، (فیض الباری ج3ص397) صحیح بات یہ ہے کہ عام حالات میں محرم کے بغیر سفر نہیں کرنا چاہیے، اگر کوئی مجبوری یا عذر ہو اور محرم ساتھ نہ جا سکتا ہو تو پھر عورت فرض حج کر سکتی ہے، بشرطیکہ قابل اعتماد عورتیں اور ان کے محرم ساتھ ہوں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی جگہ کو مقدس و متبرک اور محترم سمجھ کر یا اجرو ثواب میں اضافہ کا باعث سمجھ کر یا اس میں دعا اور عبادت کی نذر مان کر رخت سفر باندھنا تین مساجد کے سوا جائز نہیں ہے، ہاں کسی اور مقصد کی خاطر مثلاً حصول علم، سیرو سیاحت کے لیے کسی بھی جگہ کا سفر کیا جا سکتا ہے۔