(موقوف) اخبرنا ابو بكر بن علي، قال: انبانا إبراهيم بن حجاج، قال: حدثنا ابو عوانة، عن سماك، عن قرصافة امراة منهم، عن عائشة، قالت:" اشربوا ولا تسكروا". قال ابو عبد الرحمن: وهذا ايضا غير ثابت، وقرصافة هذه لا ندري من هي، والمشهور عن عائشة خلاف ما روت عنها قرصافة. (موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَجَّاجٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ قِرْصَافَةَ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" اشْرَبُوا وَلَا تَسْكَرُوا". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَهَذَا أَيْضًا غَيْرُ ثَابِتٍ، وَقِرْصَافَةُ هَذِهِ لَا نَدْرِي مَنْ هِيَ، وَالْمَشْهُورُ عَنْ عَائِشَةَ خِلَافُ مَا رَوَتْ عَنْهَا قِرْصَافَةُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ شراب پیو، لیکن (اس حد تک کہ) مست نہ ہو جاؤ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ بھی ثابت نہیں ہے اور قرصافہ یہ کون ہے؟ ہمیں نہیں معلوم اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول جو مشہور بات ہے وہ اس کے برعکس ہے جو قرصافہ نے ان سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5680 (ضعیف الإسناد) (قرصافہ مجہول ہیں، لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوع صحیح ہے جیسا کہ گزرا)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفا لكن صح مرفوعا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، قرصافة: لا يعرف حالها (تقريب: 8663) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 366
(موقوف) اخبرنا سويد بن نصر، قال: اخبرنا عبد الله، عن قدامة العامري، ان جسرة بنت دجاجة العامرية حدثته، قالت: سمعت عائشة سالها اناس كلهم يسال عن النبيذ , يقول: ننبذ التمر غدوة ونشربه عشيا، وننبذه عشيا ونشربه غدوة؟ قالت:" لا احل مسكرا، وإن كان خبزا، وإن كانت ماء" , قالتها ثلاث مرات. (موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ قُدَامَةَ الْعَامِرِيِّ، أَنَّ جَسْرَةَ بِنْتَ دَجَاجَةَ الْعَامِرِيَّةَ حَدَّثَتْهُ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ سَأَلَهَا أُنَاسٌ كُلُّهُمْ يَسْأَلُ عَنِ النَّبِيذِ , يَقُولُ: نَنْبِذُ التَّمْرَ غُدْوَةً وَنَشْرَبُهُ عَشِيًّا، وَنَنْبِذُهُ عَشِيًّا وَنَشْرَبُهُ غُدْوَةً؟ قَالَتْ:" لَا أُحِلُّ مُسْكِرًا، وَإِنْ كَانَ خُبْزًا، وَإِنْ كَانَتْ مَاءً" , قَالَتْهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
جسرہ بنت دجاجہ عامر یہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو سنا: ان سے کچھ لوگوں نے سوال کیا اور وہ سب ان سے نبیذ کے بارے میں پوچھ رہے تھے کہہ رہے تھے کہ ہم لوگ صبح کو کھجور بھگوتے اور شام کو پیتے ہیں اور شام کو بھگوتے ہیں تو صبح میں پیتے ہیں، تو وہ بولیں: میں کسی نشہ لانے والی چیز کو حلال قرار نہیں دیتی خواہ وہ روٹی ہو خواہ پانی، انہوں نے ایسا تین بار کہا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17831) (ضعیف الٕاسناد) (اس کے راوی ”قدامہ“ اور ”جسرہ“ دونوں لین الحدیث ہیں)»
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن علي بن المبارك، قال: حدثتنا كريمة بنت همام، انها سمعت عائشة ام المؤمنين , تقول:" نهيتم عن الدباء، نهيتم عن الحنتم، نهيتم عن المزفت، ثم اقبلت على النساء، فقالت:" إياكن والجر الاخضر، وإن اسكركن ماء حبكن فلا تشربنه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا كَرِيمَةُ بِنْتُ هَمَّامٍ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , تَقُولُ:" نُهِيتُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، نُهِيتُمْ عَنِ الْحَنْتَمِ، نُهِيتُمْ عَنِ الْمُزَفَّتِ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَتْ:" إِيَّاكُنَّ وَالْجَرَّ الْأَخْضَرَ، وَإِنْ أَسْكَرَكُنَّ مَاءُ حُبِّكُنَّ فَلَا تَشْرَبْنَهُ".
کریمہ بنت ہمام بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: تم لوگوں کو کدو کی تونبی سے منع کیا گیا ہے، لاکھی برتن سے منع کیا گیا ہے اور روغنی برتن سے منع کیا گیا ہے، پھر وہ عورتوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور بولیں: سبز روغنی گھڑے سے بچو اور اگر تمہیں تمہارے مٹکوں کے پانی سے نشہ آ جائے تو اسے نہ پیو۔
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا ابان بن صمعة، قال: حدثتني والدتي، عن عائشة، انها سئلت عن الاشربة؟ , فقالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن كل مسكر". واعتلوا بحديث عبد الله بن شداد، عن عبد الله بن عباس. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ صَمْعَةَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي وَالِدَتِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا سُئِلَتْ عَنِ الْأَشْرِبَةِ؟ , فَقَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ". وَاعْتَلُّوا بِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان سے مشروبات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نشہ لانے والی چیز سے روکتے تھے۔ «واعتلوا بحديث عبداللہ بن شداد عن عبداللہ بن عباس» لوگوں نے عبداللہ بن شداد کی (آگے آنے والی) اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ شراب کم ہو یا زیادہ حرام ہے، اور دوسرے مشروبات اس وقت حرام ہیں جب نشہ آ جائے۔ ابن شبرمہ نے اسے عبداللہ بن شداد سے نہیں سنا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ شراب تو بذات خود حرام ہے خواہ کم ہو یا زیادہ اور دوسرے مشروبات (اس وقت حرام ہیں) جب نشہ آ جائے۔ ابو عون محمد عبیداللہ ثقفی نے ابن شبرمہ کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ ابو عون نے «السكر»(سین کے ضم اور کاف کے سکون کے ساتھ) کی بجائے «المسكر»(میم کے ضمہ، سین کے کسرہ اور کاف کے کسرہ کے ساتھ)( «ما أسكر» جیسا کہ اگلی روایت میں ہے) روایت کی ہے، جو معنی میں بھی ابن شبرمہ کی روایت کے خلاف ہے، لفظ «السكر» سے کا مطلب یہ ہے کہ ”جس مقدار پر نشہ آ جائے وہ حرام ہے اس سے پہلے نہیں، اور لفظ «المسكر»(یا اگلی روایت میں «ما أسكر») کا مطلب یہ ہے کہ جس مشروب سے بھی نشہ آتا ہو (خواہ اس کی کم مقدار پر نہ آئے) وہ حرام ہے، اور سنداً ابن شبرمہ کی روایت کے مقابلہ میں ابو عون کی روایت زیادہ قریب صواب ہے، اس لیے امام طحاوی وغیرہ کا استدلال ابن شبرمہ کی روایت سے درست نہیں۔ (دیکھئیے: الحواشی الجدیدہ للفنجابی، نیز الفتح ۱۰/۶۵)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ شراب بذات خود حرام ہے خواہ کم ہو یا زیادہ، اور ہر مشروب جو نشہ لائے حرام ہے۔ (مقدار کم ہو یا زیادہ) ابن حکم نے «قلیلھا و کثیر ھا»(خواہ کم ہو یا زیادہ) کا ذکر نہیں کیا۔
(موقوف) اخبرنا الحسين بن منصور , قال: حدثنا احمد بن حنبل , قال: حدثنا إبراهيم بن ابي العباس , قال: حدثنا شريك , عن عباس بن ذريح , عن ابي عون , عن عبد الله بن شداد , عن ابن عباس , قال:" حرمت الخمر قليلها وكثيرها وما اسكر من كل شراب". قال ابو عبد الرحمن: وهذا اولى بالصواب من حديث ابن شبرمة , وهشيم بن بشير كان يدلس , وليس في حديثه , ذكر السماع من ابن شبرمة , ورواية ابي عون اشبه بما رواه الثقات عن ابن عباس. (موقوف) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ , قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ عَبَّاسِ بْنِ ذَرِيحٍ , عَنْ أَبِي عَوْنٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" حُرِّمَتِ الْخَمْرُ قَلِيلُهَا وَكَثِيرُهَا وَمَا أَسْكَرَ مِنْ كُلِّ شَرَابٍ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَهَذَا أَوْلَى بِالصَّوَابِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ شُبْرُمَةَ , وَهُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ كَانَ يُدَلِّسُ , وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِ , ذِكْرُ السَّمَاعِ مِنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ , وَرِوَايَةُ أَبِي عَوْنٍ أَشْبَهُ بِمَا رَوَاهُ الثِّقَاتُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ شراب کم ہو یا زیادہ حرام ہے اور ہر وہ مشروب جو نشہ لائے (کم ہو یا زیادہ) حرام ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ابن شبرمہ کی حدیث کے مقابلے میں یہ زیادہ قرین صواب ہے ۱؎، ہشیم بن بشیر تدلیس کرتے تھے، ان کی حدیث میں ابن شبرمہ سے سماع ہونے کا ذکر نہیں ہے اور ابو عون کی روایت ان ثقات کی روایت سے بہت زیادہ مشابہ ہے جنہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5686 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: اس حدیث کا بلفظ «المسکر» ہونا بمقابلہ «السکر» ہونے کا زیادہ صحیح ہے، (ابن شبرمہ کی روایت میں «السکر» ہے جب کہ ابو عون کی روایت میں «المسکر» ہے) امام نسائی کی طرح امام احمد وغیرہ نے بھی لفظ «المسکر» ہی کو ترجیح دیا ہے (دیکھئیے فتح الباری ج۱۰/ص۴۳)۔ ۲؎: مؤلف کا مقصد یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن شبرمہ کی روایت کے مقابلہ میں ابو عون کی روایت سنداً زیادہ قرین صواب اس لیے بھی ہے کہ ابو عون کی روایت ابن عباس سے روایت کرنے والے دیگر ثقہ رواۃ کی روایتوں کے مطابق ہے کہ ابن عباس نشہ لانے والے مشروب کی ہر مقدار کی حرمت کے قائل تھے خواہ اس کی کم مقدار نشہ نہ لائے۔
(موقوف) اخبرنا قتيبة , عن سفيان , عن ابي الجويرية الجرمي , قال: سالت ابن عباس وهو مسند ظهره إلى الكعبة عن الباذق , فقال:" سبق محمد الباذق , وما اسكر فهو حرام" , قال: انا اول العرب ساله. (موقوف) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي الْجُوَيْرِيَةِ الْجَرْمِيِّ , قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ عَنِ الْبَاذَقِ , فَقَالَ:" سَبَقَ مُحَمَّدٌ الْبَاذَقَ , وَمَا أَسْكَرَ فَهُوَ حَرَامٌ" , قَالَ: أَنَا أَوَّلُ الْعَرَبِ سَأَلَهُ.
ابوالجویریہ جرمی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے «باذق»(بادہ) کے بارے میں پوچھا، وہ کعبے سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے، چنانچہ وہ بولے: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) «باذق» کے وجود سے پہلے ہی دنیا سے چلے گئے (یا پہلے ہی اس کا حکم فرما گئے کہ) جو مشروب نشہ لائے، وہ حرام ہے۔ وہ (جرمی) کہتے ہیں: میں عرب کا سب سے پہلا شخص تھا جس نے باذق کے بارے میں پوچھا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5609 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «باذق»: بادہ کا معرب ہے جو فارسی لفظ ہے، انگور کے شیرے کو تھوڑا سا جوش دے کر ایک خاص قسم کا مشروب تیار کرتے ہیں۔ یہ مشروب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، لیکن ہر نشہ لانے والے کے بارے میں آپ کا فرمان اس پر بھی صادق آتا ہے، اور آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ جس مشروب کا زیادہ حصہ نشہ لائے اس کا تھوڑا حصہ بھی حرام ہے، تو کیسے یہ بات صحیح ہو سکتی ہے کہ ”معروف شراب“ کے سوا دیگر مشروب کی وہی مقدار حرام ہے جو نشہ لائے؟۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جسے بھلا معلوم ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیز کو حرام کہنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ نبیذ کو حرام کہے ۱؎۔