ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا، آپ (اپنی نواسی) امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ رکوع میں جاتے تو اسے اتار دیتے، اور جب سجدہ سے اٹھتے تو اسے دوبارہ اٹھا لیتے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حماد، عن محمد بن زياد، عن ابي هريرة، قال: قال محمد صلى الله عليه وسلم:" الا يخشى الذي يرفع راسه قبل الإمام ان يحول الله راسه راس حمار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قال مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا يَخْشَى الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنا سر امام سے پہلے اٹھا لیتا ہے کیا وہ (اس بات سے) نہیں ڈرتا کہ ۱؎ اللہ اس کا سر گدھے کے سر میں تبدیل نہ کر دے“۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن علية، قال: انبانا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت عبد الله بن يزيد يخطب، قال: حدثنا البراء وكان غير كذوب انهم كانوا إذا صلوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفع راسه من الركوع قاموا قياما حتى يروه ساجدا ثم سجدوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قال: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ يَخْطُبُ، قال: حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ وَكَانَ غَيْرَ كَذُوبٍ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا صَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ قَامُوا قِيَامًا حَتَّى يَرَوْهُ سَاجِدًا ثُمَّ سَجَدُوا".
براء رضی اللہ عنہ (جو جھوٹے نہ تھے ۱؎) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، اور آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو وہ سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ دیکھ لیتے کہ آپ سجدہ میں جا چکے ہیں، پھر وہ سجدہ میں جاتے۔
(مرفوع) اخبرنا مؤمل بن هشام، قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، عن سعيد، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن حطان بن عبد الله، قال: صلى بنا ابو موسى فلما كان في القعدة دخل رجل من القوم فقال اقرت الصلاة بالبر والزكاة فلما سلم ابو موسى اقبل على القوم فقال: ايكم القائل هذه الكلمة. فارم القوم، قال: يا حطان لعلك قلتها قال: لا وقد خشيت ان تبكعني بها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كان يعلمنا صلاتنا وسنتنا فقال:" إنما الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا: آمين يجبكم الله وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فقال: سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لك الحمد يسمع الله لكم وإذا سجد فاسجدوا وإذا رفع فارفعوا فإن الإمام يسجد قبلكم ويرفع قبلكم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى فَلَمَّا كَانَ فِي الْقَعْدَةِ دَخَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَقَالَ أُقِرَّتِ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ فَلَمَّا سَلَّمَ أَبُو مُوسَى أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ. فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، قال: يَا حِطَّانُ لَعَلَّكَ قُلْتَهَا قال: لَا وَقَدْ خَشِيتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا فَقَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يُعَلِّمُنَا صَلَاتَنَا وَسُنَّتَنَا فَقَالَ:" إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَالَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَقُولُوا: آمِينَ يُجِبْكُمُ اللَّهُ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ".
حطان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو جب وہ قعدہ میں گئے تو قوم کا ایک آدمی اندر آیا اور کہنے لگا کہ نماز نیکی اور زکاۃ کے ساتھ ملا دی گئی ہے ۱؎، تو جب ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سلام پھیر کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے یہ بات کہی ہے؟ تو سبھی لوگ خاموش رہے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، تو انہوں نے کہا: اے حطان! شاید تم نے ہی یہ بات کہی ہے! تو انہوں نے کہا: نہیں میں نے نہیں کہی ہے، اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ مجھ ہی کو اس پر سرزنش نہ کرنے لگ جائیں، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہماری نماز اور ہمارے طریقے سکھاتے تھے، تو آپ فرماتے: ”امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم لوگ آمین کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری (دعا) قبول فرمائے گا، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ (رکوع) سے سر اٹھائے اور «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری سنے گا، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ سجدہ سے سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے، اور تم سے پہلے سر بھی اٹھاتا ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادھر کی کسر ادھر پوری ہو جائے گی“۔
(مرفوع) اخبرنا واصل بن عبد الاعلى، قال: حدثنا ابن فضيل، عن الاعمش، عن محارب بن دثار، وابي صالح، عن جابر قال: جاء رجل من الانصار وقد اقيمت الصلاة فدخل المسجد فصلى خلف معاذ فطول بهم فانصرف الرجل فصلى في ناحية المسجد، ثم انطلق فلما قضى معاذ الصلاة قيل له إن فلانا فعل كذا وكذا فقال معاذ: لئن اصبحت لاذكرن ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم: فاتى معاذ النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه فقال:" ما حملك على الذي صنعت" فقال: يا رسول الله عملت على ناضحي من النهار فجئت وقد اقيمت الصلاة فدخلت المسجد فدخلت معه في الصلاة فقرا سورة كذا وكذا فطول فانصرفت فصليت في ناحية المسجد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افتان يا معاذ افتان يا معاذ افتان يا معاذ". (مرفوع) أَخْبَرَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، وَأَبِي صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ قال: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى خَلْفَ مُعَاذٍ فَطَوَّلَ بِهِمْ فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ فَصَلَّى فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَمَّا قَضَى مُعَاذٌ الصَّلَاةَ قِيلَ لَهُ إِنَّ فُلَانًا فَعَلَ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ مُعَاذٌ: لَئِنْ أَصْبَحْتُ لَأَذْكُرَنَّ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَتَى مُعَاذٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ فَقَالَ:" مَا حَمَلَكَ عَلَى الَّذِي صَنَعْتَ" فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَمِلْتُ عَلَى نَاضِحِي مِنَ النَّهَارِ فَجِئْتُ وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَدَخَلْتُ مَعَهُ فِي الصَّلَاةِ فَقَرَأَ سُورَةَ كَذَا وَكَذَا فَطَوَّلَ فَانْصَرَفْتُ فَصَلَّيْتُ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفَتَّانٌ يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ يَا مُعَاذُ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص آیا اور نماز کھڑی ہو چکی تھی تو وہ مسجد میں داخل ہوا، اور جا کر معاذ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنے لگا، انہوں نے رکعت لمبی کر دی، تو وہ شخص (نماز توڑ کر) الگ ہو گیا، اور مسجد کے ایک گوشے میں جا کر (تنہا) نماز پڑھ لی، پھر چلا گیا، جب معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز پوری کر لی تو ان سے کہا گیا کہ فلاں شخص نے ایسا ایسا کیا ہے، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے صبح کر لی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور بیان کروں گا ؛ چنانچہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلا بھیجا، وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس چیز نے ایسا کرنے پر ابھارا؟“ تو اس نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے دن بھر (کھیت کی) سینچائی کی تھی، میں آیا، تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی، تو میں مسجد میں داخل ہوا، اور ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا، انہوں نے فلاں فلاں سورت پڑھنی شروع کر دی، اور (قرآت) لمبی کر دی، تو میں نے نماز توڑ کر جا کر الگ ایک کونے میں نماز پڑھ لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه فجحش شقه الايمن فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد فصلينا وراءه قعودا فلما انصرف قال:" إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا ركع فاركعوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا: ربنا لك الحمد وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا اجمعون". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْهُ فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ فَصَلَّى صَلَاةً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس سے گر گئے اور آپ کے داہنے پہلو میں خراش آ گئی، تو آپ نے کچھ نمازیں بیٹھ کر پڑھیں، ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ سلام پھیر کر پلٹے تو فرمایا: ”امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو، اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: جاء بلال يؤذنه بالصلاة فقال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس" قالت: قلت يا رسول الله إن ابا بكر رجل اسيف وإنه متى يقوم في مقامك لا يسمع الناس فلو امرت عمر، فقال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس" فقلت لحفصة قولي له فقالت: له فقال: إنكن لانتن صواحبات يوسف مروا ابا بكر فليصل بالناس قالت فامروا ابا بكر فلما دخل في الصلاة وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم من نفسه خفة قالت: فقام يهادى بين رجلين ورجلاه تخطان في الارض فلما دخل المسجد سمع ابو بكر حسه فذهب ليتاخر فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان قم كما انت قالت فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قام عن يسار ابي بكر جالسا فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس جالسا وابو بكر قائما يقتدي ابو بكر برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس يقتدون بصلاة ابي بكر رضي الله عنه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قالت: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى يَقُومُ فِي مَقَامِكَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ فَقَالَتْ: لَهُ فَقَالَ: إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً قَالَتْ: فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ فَذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ قُمْ كَمَا أَنْتَ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ جَالِسًا فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی، بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قرآن) نہیں سنا سکیں گے ۱؎ اگر آپ عمر کو حکم دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں“، تو میں نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو، تو حفصہ نے (بھی) آپ سے کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیاں ہو ۲؎، ”ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“، (بالآخر) لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، تو جب انہوں نے نماز شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ اٹھے اور دو آدمیوں کے سہارے چل کر نماز میں آئے، آپ کے دونوں پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے، جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے آنے کی آہٹ محسوس کی، اور وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ ”جس طرح ہو اسی طرح کھڑے رہو“، ام المؤمنین کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر ایسی رقت طاری ہو جائے گی کہ وہ رونے لگیں گے، اور قرأت نہیں کر سکیں گے۔ ۲؎: اس سے مراد صرف عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، جیسے قرآن میں صرف «امرأۃ العزیز» مراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ «عائشہ امرأۃ العزیز» کی طرح دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے تھیں، اور اظہار کسی اور بات کا کر رہی تھیں، وہ یہ کہتی تھیں کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ امامت کے لیے کھڑے ہوئے، اور آپ کی وفات ہو گئی تو لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو منحوس سمجھیں گے، اس لیے بہانہ بنا رہی تھیں رقیق القلبی کا، ایک موقع پر انہوں نے یہ بات ظاہر بھی کر دی۔
(مرفوع) اخبرنا العباس بن عبد العظيم العنبري، قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، قال: حدثنا زائدة، عن موسى بن ابي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله قال: دخلت على عائشة فقلت: الا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اصلى الناس" فقلنا: لا وهم ينتظرونك يا رسول الله فقال:" ضعوا لي ماء في المخضب" ففعلنا فاغتسل ثم ذهب لينوء فاغمي عليه، ثم افاق فقال:" اصلى الناس" قلنا: لا هم ينتظرونك يا رسول الله فقال:" ضعوا لي ماء في المخضب" ففعلنا فاغتسل، ثم ذهب لينوء، ثم اغمي عليه، ثم قال: في الثالثة مثل قوله قالت: والناس عكوف في المسجد ينتظرون رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي بكر ان صل بالناس فجاءه الرسول فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرك ان تصلي بالناس وكان ابو بكر رجلا رقيقا فقال: يا عمر صل بالناس فقال: انت احق بذلك فصلى بهم ابو بكر تلك الايام، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد من نفسه خفة فجاء يهادى بين رجلين احدهما العباس لصلاة الظهر فلما رآه ابو بكر ذهب ليتاخر فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا يتاخر وامرهما فاجلساه إلى جنبه فجعل ابو بكر يصلي قائما والناس يصلون بصلاة ابي بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قاعدا فدخلت على ابن عباس فقلت الا اعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: نعم فحدثته فما انكر منه شيئا غير انه قال اسمت لك الرجل الذي كان مع العباس قلت: لا، قال: هو علي كرم الله وجهه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قال: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ: أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَصَلَّى النَّاسُ" فَقُلْنَا: لَا وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ:" ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ" فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ:" أَصَلَّى النَّاسُ" قُلْنَا: لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ:" ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ" فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: فِي الثَّالِثَةِ مِثْلَ قَوْلِهِ قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ صَلِّ بِالنَّاسِ فَجَاءَهُ الرَّسُولُ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا رَقِيقًا فَقَالَ: يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَجَاءَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ وَأَمَرَهُمَا فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ فَحَدَّثْتُهُ فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ.
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا حال نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی شدت بڑھ گئی، تو آپ نے پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے ٹب میں پانی رکھو“؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر اٹھنے چلے تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے ٹب میں پانی رکھو“؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھنے چلے تو پھر بیہوش ہو گئے، پھر تیسری بار بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا، لوگ مسجد میں جمع تھے، اور عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو قاصد ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے، تو انہوں نے (عمر رضی اللہ عنہ سے) کہا: عمر! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو، تو انہوں نے کہا: آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؛ چنانچہ ان ایام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے (ان دونوں میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے) نماز ظہر کے لیے آئے، تو جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، اور ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو ان کے بغل میں بٹھا دیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے۔ (عبیداللہ کہتے ہیں) میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا میں آپ سے وہ چیزیں بیان نہ کر دوں جو مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق بیان کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! ضرور بیان کرو، تو میں نے ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار نہیں کیا، البتہ اتنا پوچھا: کیا انہوں نے اس شخص کا نام لیا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: وہ علی (کرم اللہ وجہہ) تھے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: كان معاذ يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يرجع إلى قومه يؤمهم فاخر ذات ليلة الصلاة وصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم رجع إلى قومه يؤمهم فقرا سورة البقرة فلما سمع رجل من القوم تاخر فصلى، ثم خرج فقالوا: نافقت يا فلان، فقال: والله ما نافقت ولآتين النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن معاذا يصلي معك، ثم ياتينا فيؤمنا وإنك اخرت الصلاة البارحة فصلى معك، ثم رجع فامنا فاستفتح بسورة البقرة فلما سمعت ذلك تاخرت فصليت وإنما نحن اصحاب نواضح نعمل بايدينا فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" يا معاذ افتان انت اقرا بسورة كذا وسورة كذا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: كَانَ مُعَاذٌ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى قَوْمِهِ يَؤُمُّهُمْ فَأَخَّرَ ذَاتَ لَيْلَةٍ الصَّلَاةَ وَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ يَؤُمُّهُمْ فَقَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَلَمَّا سَمِعَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ تَأَخَّرَ فَصَلَّى، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالُوا: نَافَقْتَ يَا فُلَانُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا نَافَقْتُ وَلَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْبِرُهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ مُعَاذًا يُصَلِّي مَعَكَ، ثُمَّ يَأْتِينَا فَيَؤُمُّنَا وَإِنَّكَ أَخَّرْتَ الصَّلَاةَ الْبَارِحَةَ فَصَلَّى مَعَكَ، ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَّنَا فَاسْتَفْتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَلَمَّا سَمِعْتُ ذَلِكَ تَأَخَّرْتُ فَصَلَّيْتُ وَإِنَّمَا نَحْنُ أَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِأَيْدِينَا فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنْتَ اقْرَأْ بِسُورَةِ كَذَا وَسُورَةِ كَذَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کی امامت کرتے، ایک رات انہوں نے نماز لمبی کر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھی، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آ کر ان کی امامت کرنے لگے، تو انہوں نے سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی، جب مقتدیوں میں سے ایک شخص نے قرآت سنی تو نماز توڑ کر پیچھے جا کر الگ سے نماز پڑھ لی، پھر وہ (مسجد سے) نکل گیا، تو لوگوں نے پوچھا، فلاں! تو منافق ہو گیا ہے؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میں نے منافقت نہیں کی ہے، اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، اور آپ کو اس سے باخبر کروں گا ؛ چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، پھر ہمارے پاس آتے ہیں، اور ہماری امامت کرتے ہیں، پچھلی رات انہوں نے نماز بڑی لمبی کر دی، انہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر واپس آ کر انہوں نے ہماری امامت کی، تو سورۃ البقرہ پڑھنا شروع کر دی، جب میں نے ان کی قرآت سنی تو پیچھے جا کر میں نے (تنہا) نماز پڑھ لی، ہم پانی ڈھونے والے لوگ ہیں، دن بھر اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو تم (نماز میں) فلاں، فلاں سورت پڑھا کرو“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن اشعث، عن الحسن، عن ابي بكرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم" انه صلى صلاة الخوف فصلى بالذين خلفه ركعتين وبالذين جاءوا ركعتين فكانت للنبي صلى الله عليه وسلم اربعا ولهؤلاء ركعتين ركعتين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّهُ صَلَّى صَلَاةَ الْخَوْفِ فَصَلَّى بِالَّذِينَ خَلْفَهُ رَكْعَتَيْنِ وَبِالَّذِينَ جَاءُوا رَكْعَتَيْنِ فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَلِهَؤُلَاءِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی نماز پڑھائی، تو اپنے پیچھے والوں کو دو رکعت پڑھائی، (پھر وہ چلے گئے) اور جو ان کی جگہ آئے انہیں بھی دو رکعت پڑھائی، تو اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں، اور لوگوں کی دو دو رکعتیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتوں میں سے پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئیں، جب کہ ان دو رکعتوں میں آپ کے جو مقتدی تھے انہوں نے اپنی فرض پڑھی تھی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح — شاهد: صحيح مسلم (843/ 312)