(مرفوع) اخبرنا مؤمل بن هشام، قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، عن سعيد، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن حطان بن عبد الله، قال: صلى بنا ابو موسى فلما كان في القعدة دخل رجل من القوم فقال اقرت الصلاة بالبر والزكاة فلما سلم ابو موسى اقبل على القوم فقال: ايكم القائل هذه الكلمة. فارم القوم، قال: يا حطان لعلك قلتها قال: لا وقد خشيت ان تبكعني بها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كان يعلمنا صلاتنا وسنتنا فقال:" إنما الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قال غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا: آمين يجبكم الله وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فقال: سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لك الحمد يسمع الله لكم وإذا سجد فاسجدوا وإذا رفع فارفعوا فإن الإمام يسجد قبلكم ويرفع قبلكم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى فَلَمَّا كَانَ فِي الْقَعْدَةِ دَخَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَقَالَ أُقِرَّتِ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ فَلَمَّا سَلَّمَ أَبُو مُوسَى أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ. فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، قال: يَا حِطَّانُ لَعَلَّكَ قُلْتَهَا قال: لَا وَقَدْ خَشِيتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا فَقَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يُعَلِّمُنَا صَلَاتَنَا وَسُنَّتَنَا فَقَالَ:" إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَالَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَقُولُوا: آمِينَ يُجِبْكُمُ اللَّهُ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ".
حطان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو جب وہ قعدہ میں گئے تو قوم کا ایک آدمی اندر آیا اور کہنے لگا کہ نماز نیکی اور زکاۃ کے ساتھ ملا دی گئی ہے ۱؎، تو جب ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سلام پھیر کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے یہ بات کہی ہے؟ تو سبھی لوگ خاموش رہے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، تو انہوں نے کہا: اے حطان! شاید تم نے ہی یہ بات کہی ہے! تو انہوں نے کہا: نہیں میں نے نہیں کہی ہے، اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ مجھ ہی کو اس پر سرزنش نہ کرنے لگ جائیں، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہماری نماز اور ہمارے طریقے سکھاتے تھے، تو آپ فرماتے: ”امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم لوگ آمین کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری (دعا) قبول فرمائے گا، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ (رکوع) سے سر اٹھائے اور «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری سنے گا، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ سجدہ سے سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے، اور تم سے پہلے سر بھی اٹھاتا ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادھر کی کسر ادھر پوری ہو جائے گی“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: نماز کا نیکی اور زکاۃ کے ساتھ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے، اور تینوں کا ایک ساتھ حکم دیا گیا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 831
831 ۔ اردو حاشیہ: ➊ نماز کو نیکی اور زکاۃ سے ملایا گیا ہے۔ کا مطلب ہے کہ جس طرح نیکی اور زکاۃ کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح نماز بھی مامور بہ ہے۔ جس طرح وہ دونوں چیزیں اجر و ثواب کا باعث ہیں نماز بھی موجب اجر و ثواب ہے۔ ➋ حدیث میں امام کی اقتدا کرنے کی تاکید اور اقتدا کرنے کے مفہوم کا بیان ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 831