Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
38. بَابُ : مُبَادَرَةِ الإِمَامِ
باب: رکوع، سجود وغیرہ میں امام سے سبقت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 830
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قال: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ يَخْطُبُ، قال: حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ وَكَانَ غَيْرَ كَذُوبٍ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا صَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ قَامُوا قِيَامًا حَتَّى يَرَوْهُ سَاجِدًا ثُمَّ سَجَدُوا".
براء رضی اللہ عنہ (جو جھوٹے نہ تھے ۱؎) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، اور آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو وہ سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ دیکھ لیتے کہ آپ سجدہ میں جا چکے ہیں، پھر وہ سجدہ میں جاتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 52 (690)، 91 (747)، 133 (811)، صحیح مسلم/الصلاة 39 (474)، سنن ابی داود/فیہ 75 (620)، سنن الترمذی/فیہ 93 (281)، (تحفة الأشراف: 1772)، مسند احمد 4/284، 285، 300، 304 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی بھروسہ مند اور قابل اعتماد تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 830 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 830  
830 ۔ اردو حاشیہ: ہو سکتا ہے امام صاحب بزرگ ہوں یا انہیں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے انہیں سجدے تک جاتے جاتے دیر لگ جائے۔ اگر مقتدی ان کے سر جھکاتے ہی سجدے میں جانا شروع کر دیں تو ممکن ہے تیز رفتار یا نوجوان مقتدی ان سے پہلے سجدے میں پہنچ جائیں اس لیے ضروری ہے کہ مقتدی اس وقت سجدے کے لیے جھکیں جب امام صاحب سجدے میں سرزمین پر رکھ لیں۔ اس طرح رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی انتظار کیا جائے کہ امام صاحب سیدھے کھڑے ہو جائیں پھر مقتدی اٹھنا شروع کریں تاکہ امام سے آگے بڑھنے کا امکان بھی نہ رہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 830   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1062  
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ (وہ جھوٹے نہ تھے) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے، جب آپﷺ رکوع سے اپنا سر اٹھالیتے تو میں کسی کو اس وقت تک اپنی پشت جھکاتے نہ دیکھتا، جب تک رسول اللہ ﷺ اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دیتے پھر آپﷺ کے پیچھے والے سجدہ میں جاتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1062]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے عبداللہ بن یزید کا غیرکذوب کہنا،
حالانکہ الصحابۃ کلھم عدول کی رو سے اس کی ضرورت نہیں محض ان کی تعریف وتوصیف کے لیے ہے توثیق وتوکید کے لیے نہیں ہے اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے مقتدی اس وقت تک سجدہ کے لیے نہ جھکیں جب تک امام اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1062   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 811  
811. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے اور وہ جھوٹے آدمی نہیں تھے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، جب آپ سمع الله لمن حمده کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ نہ جھکاتا جب تک نبی ﷺ اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:811]
حدیث حاشیہ:
اصل میں پیشانی ہی زمین پر رکھنا سجدہ کرنا ہے اور ناک بھی پیشانی ہی میں داخل ہے۔
اس لیے ناک اور پیشانی ہر دو کا زمین سے لگانا واجب ہے۔
پھر دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں کا زمین پر ٹیکنا اور دونوں پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ موڑ کر رکھنا یہ کل سات اعضاءہوئے جن میں سجدہ ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 811   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:690  
690. حضرت براء بن عازب ؓ۔۔۔ جو جھوٹے نہیں ہیں۔۔ ان سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ سمع الله لمن حمده کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی کمرنہ جھکاتا، حتی کہ نبی ﷺ سجدے میں چلے جاتے۔ پھر ہم آپ کے بعد سجدہ ریز ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:690]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث کا پس منظر طبرانی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ راوئ حدیث حضرت عبداللہ بن یزید کوفے میں لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے۔
اس پر انھوں نے یہ حدیث ان کے مذکورہ عمل کی تردید میں بیان فرمائی۔
(فتح الباري: 236/2)
اس حدیث میں امام کی اقتدا کو بیان کیا گیا ہے، چنانچہ امام ابو داود ؒ نے اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
مقتدی کو امام کی پوری متابعت کرنی چاہیے اس کے تحت حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ کی ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم مجھ سے پہلے رکوع اور سجدے میں مت جایا کرو، جس قدر میں رکوع (یاسجدہ)
تم سے پہلے کروں گا اتنا تم پا لو گے جب میں تم سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا کیونکہ میں موٹا ہو گیا ہوں۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 619)
یعنی جب میں رکوع یا سجدے سے سر اٹھاؤں گا تو تم لوگ رکوع اور سجدے میں رہو گے یہ عوض ہوگا اس قدر دیر کا جو تم میرے بعد رکوع یا سجدے میں گئے تھے۔
جب رسول اللہ ﷺ کا بدن بھاری ہوگیا تو آپ نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بطور خاص ہدایت فرمائی کہ میری اتباع میں حسب عادت جاری رہنے کی وجہ سے کہیں مسابقت اور مبادرت کے مرتکب نہ ہو جائیں۔
اس سے واضح طور پر مقارنت کی نفی ثابت ہوتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی حضرات اپنے امام کے افعال پر نظر رکھیں، جب وہ کسی رکن میں مصروف ہو جائے، پھر انھیں اس رکن میں مصروف ہونے کی اجازت ہے، اس سے پہلے یا اس کے ساتھ یا رکن سے فراغت کے بعد اس میں مصروف ہونے کی اجازت نہیں۔
(فتح الباري: 236/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 690   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:811  
811. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے اور وہ جھوٹے آدمی نہیں تھے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، جب آپ سمع الله لمن حمده کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ نہ جھکاتا جب تک نبی ﷺ اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:811]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام سے پہلے مقتدی کے لیے کسی رکن میں مصروف ہونا منع ہے، اس لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس حکم امتناعی کا بہت خیال رکھتے تھے۔
(2)
علامہ کرمانی ؒ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ عام طور پر دوران سجدہ میں پیشانی کو دیگر چھ اعضاء کی معاونت ہی سے زمین پر رکھا جاتا ہے، چونکہ اس حدیث میں دیگر اعضائے سجدہ کا ذکر نہیں ہے، اس لیے دیگر احادیث جن میں صرف پیشانی کا ذکر ہے تو وہ دوسرے اعضائے سجدہ کے مقابلے میں اس کے اشرف عضو ہونے کی وجہ سے ہے۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ پیشانی پر سجدہ کرنا واجب ہے، اس لیے بعض روایات میں صرف پیشانی کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے اور باقی اعضاء پر سجدہ مستحب ہے، اس لیے بعض روایات میں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
(فتح الباري: 384/2)
لیکن یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ سات اعضاء پر سجدہ کرنے کو لفظ امر سے تعبیر کیا گیا ہے جو وجوب کے لیے ہے، لہٰذا کسی عضو کو چھوڑ کر باقی اعضاء پر اکتفا کرنا صحیح نہیں۔
ہاں، اگر کوئی عذر مانع ہو تو الگ بات ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 811