(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن اشعث، عن الحسن، عن ابي بكرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم" انه صلى صلاة الخوف فصلى بالذين خلفه ركعتين وبالذين جاءوا ركعتين فكانت للنبي صلى الله عليه وسلم اربعا ولهؤلاء ركعتين ركعتين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّهُ صَلَّى صَلَاةَ الْخَوْفِ فَصَلَّى بِالَّذِينَ خَلْفَهُ رَكْعَتَيْنِ وَبِالَّذِينَ جَاءُوا رَكْعَتَيْنِ فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَلِهَؤُلَاءِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی نماز پڑھائی، تو اپنے پیچھے والوں کو دو رکعت پڑھائی، (پھر وہ چلے گئے) اور جو ان کی جگہ آئے انہیں بھی دو رکعت پڑھائی، تو اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں، اور لوگوں کی دو دو رکعتیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتوں میں سے پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئیں، جب کہ ان دو رکعتوں میں آپ کے جو مقتدی تھے انہوں نے اپنی فرض پڑھی تھی۔
صلى النبي في خوف الظهر فصف بعضهم خلفه وبعضهم بإزاء العدو فصلى بهم ركعتين ثم سلم فانطلق الذين صلوا معه فوقفوا موقف أصحابهم ثم جاء أولئك فصلوا خلفه فصلى بهم ركعتين ثم سلم فكانت لرسول الله أربعا ولأصحابه ركعتين ركعتين
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 837
837 ۔ اردو حاشیہ: باب سے مناسبت تب ہو گی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری دو رکعتوں میں متنفل مانا جائے اور یہی قرین قیاس ہے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سلام سے چار رکعتیں پڑھیں اور باقی نے دو دو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 837
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1552
´باب:` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو خوف کی نماز دو رکعت پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر آپ نے دوسرے لوگوں کو دو رکعت پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیر دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعت پڑھی (اور لوگوں نے دو دو رکعت)۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1552]
1552۔ اردو حاشیہ: یہ نماز خوف کی ایک اور صورت ہے جو سادہ ہے مگر احناف کے نزدیک یہ صورت جائز نہیں ہے کیونکہ بعد والی اور دو رکعتیں امام صاحب کی نفل ہوں گی اور دوسرے گروہ کی فرض۔ اور احناف کے نزدیک نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض جائز نہیں۔ خیر! احناف کے نزدیک، خواہ یہ صورت درست نہ ہو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پڑھائی ہے اور عمل آپ کی سنت پر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر امام کو دوبارہ نماز پڑھانی پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں، سب کی نماز درست ہو گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1552
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1556
´باب:` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو آپ کے پیچھے تھے انہیں نماز خوف دو رکعت پڑھائی، اور جو اس کے بعد آئے انہیں بھی دو رکعت پڑھائی، تو (اس طرح) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت ہوئی، اور لوگوں کی دو دو رکعت ہوئی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1556]
1556۔ اردو حاشیہ: ان دو روایات میں پہلی دو رکعات کے بعد سلام پھیرنے کا ذکر نہیں جبکہ احادیث: 1552 اور 1553 میں الگ الگ سلام کا ذکر ہے اور وہ روایات بھی انھی بزرگوں سے ہیں، لہٰذا یہاں بھی ہر دو کے بعد سلام مانا جائے گا گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعات دوسلام کے ساتھ تھیں۔ کہا: جا سکتا ہے کہ یہ بھی ایک صورت ہے کہ امام ایک سلام کے ساتھ چار رکعات پڑھائے مگر یہ مرجوح بات ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1556
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1248
´ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر جماعت کو دو دو رکعتیں پڑھائے۔` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی حالت میں ظہر ادا کی تو بعض لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بندی کی اور بعض دشمن کے سامنے رہے، آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا، تو جو لوگ آپ کے ساتھ نماز میں تھے، وہ اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کر کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ یہاں آ گئے پھر آپ کے پیچھے انہوں نے نماز پڑھی تو آپ نے انہیں بھی دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں اور صحابہ کرام کی دو دو رکعتیں ہوئیں، اور حسن بصری اسی کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح مغرب میں امام کی چھ، اور دیگر لوگوں کی تین تین رکعتیں ہوں گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے اور جابر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور اسی طرح سلیمان یشکری نے «عن جابر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1248]
1248۔ اردو حاشیہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم صحیح مسلم کی حدیث [843] سے یہ صورت ثابت ہے۔ بہرحال صلٰوۃ خوف کی یہ مختلف صورتیں ہیں۔ امام حسب احوال کوئی بھی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ قابل غور یہ ہے کہ اس پریشان کن حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام و التزام ہونا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1248