سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اذان کے احکام و مسائل
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
حدیث نمبر: 637
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن يعقوب، قال: حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عمرو بن سلمة، فقال لي ابو قلابة: هو حي افلا تلقاه؟ قال ايوب: فلقيته فسالته، فقال: لما كان وقعة الفتح بادر كل قوم بإسلامهم فذهب ابي بإسلام اهل حوائنا فلما قدم استقبلناه، فقال: جئتكم والله من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم حقا، فقال:" صلوا صلاة كذا في حين كذا وصلاة كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم وليؤمكم اكثركم قرآنا".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، فَقَالَ لِي أَبُو قِلَابَةَ: هُوَ حَيٌّ أَفَلَا تَلْقَاهُ؟ قال أَيُّوبُ: فَلَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لَمَّا كَانَ وَقْعَةُ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلَامِهِمْ فَذَهَبَ أَبِي بِإِسْلَامِ أَهْلِ حِوَائِنَا فَلَمَّا قَدِمَ اسْتَقْبَلْنَاهُ، فَقَالَ: جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا، فَقَالَ:" صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا وَصَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا".
ایوب کہتے ہیں کہ ابوقلابہ نے مجھ سے کہا کہ عمرو بن سلمہ زندہ ہیں تم ان سے مل کیوں نہیں لیتے، (کہ براہ راست ان سے یہ حدیث سن لو) تو میں عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے ملا، اور میں نے ان سے جا کر پوچھا تو انہوں نے کہا: جب فتح (مکہ) کا واقعہ پیش آیا، تو ہر قبیلہ نے اسلام لانے میں جلدی کی، تو میرے باپ (بھی) اپنی قوم کے اسلام لانے کی خبر لے کر گئے، جب وہ (واپس) آئے تو ہم نے ان کا استقبال کیا، تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم، میں اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آیا ہوں، انہوں نے فرمایا ہے: فلاں نماز فلاں وقت اس طرح پڑھو، فلاں نماز فلاں وقت اس طرح، اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے، اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ تمہاری امامت کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 53 (4302) مطولاً، سنن ابی داود/الصلاة 61 (585، 586، 587)، (تحفة الأشراف: 4565)، مسند احمد 3/475، و5/29، 30، 71، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 768، 790 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
9. بَابُ: الْمُؤَذِّنَيْنِ لِلْمَسْجِدِ الْوَاحِدِ
9. باب: ایک مسجد میں دو مؤذن ہونے کا بیان۔
Chapter: Two Mu'adhdhins In One Masjid
حدیث نمبر: 638
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں تو تم لوگ کھاؤ پیو ۱؎ یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 12 (620)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 3 (14)، (تحفة الأشراف: 7237) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بلال رضی اللہ عنہ سحری کے لیے سونے والوں کو جگاتے ہیں، اور فجر کی تیاری کے لیے رات باقی رہتی تھی تبھی اذان دیتے تھے، اور عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد اذان دیا کرتے تھے، اس لیے بلال رضی اللہ عنہ کی اذان پر کھاتے پیتے رہنے کی اجازت دی گئی۔

قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 639
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تاذين ابن ام مكتوم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں، تو تم لوگ کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم ابن ام مکتوم کے اذان دینے کی آواز سنو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 8 (1092)، سنن الترمذی/الصلاة 35 (203)، (تحفة الأشراف: 6909) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
10. بَابُ: هَلْ يُؤَذِّنَانِ جَمِيعًا أَوْ فُرَادَى
10. باب: کیا دونوں مؤذن ایک ساتھ اذان دیتے تھے یا یکے بعد دیگرے؟
Chapter: Should They Call The Adhan Together or Separately?
حدیث نمبر: 640
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا حفص، عن عبيد الله، عن القاسم، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اذن بلال فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم، قالت: ولم يكن بينهما إلا ان ينزل هذا ويصعد هذا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَذَّنَ بِلَالٌ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، قَالَتْ: وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلَّا أَنْ يَنْزِلَ هَذَا وَيَصْعَدَ هَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 13 (622، 623)، مختصراً الصوم 17 (1918، 1919)، صحیح مسلم/الصیام 8 (1092)، (تحفة الأشراف: 17535)، مسند احمد 6/44، 45، 185، 186، سنن الدارمی/الصلاة 4 (1227) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مبالغہ کے طور پر ایسا کہا ہے، ورنہ صحیح بخاری میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ تہجد پڑھنے والوں کو اور سونے والوں کی متنبہ کرنے کے لیے اذان دیتے تھے کہ جا کر سحری کھا لو، یا غسل وغیرہ کی ضرورت ہو تو فارغ ہو لو، (دیکھئیے حدیث نمبر ۶۴۲)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 641
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، عن هشيم، قال: انبانا منصور، عن خبيب بن عبد الرحمن، عن عمته انيسة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اذن ابن ام مكتوم فكلوا واشربوا، وإذا اذن بلال فلا تاكلوا ولا تشربوا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هُشَيْمٍ، قال: أَنْبَأَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمَّتِهِ أُنَيْسَةَ، قالت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَذَّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا، وَإِذَا أَذَّنَ بِلَالٌ فَلَا تَأْكُلُوا وَلَا تَشْرَبُوا".
انیسہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں تو کھاؤ پیو، اور جب بلال اذان دیں تو کھانا پینا بند کر دو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15783)، مسند احمد 6/433 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ ان بیشتر روایتوں کے خلاف ہے جن میں ہے کہ بلال کی اذان پہلے ہوتی تھی، چنانچہ ابن عبدالبر وغیرہ نے کہا ہے کہ اس روایت میں قلب ہوا ہے، اور صحیح وہی ہے جو بیشتر روایتوں میں ہے، امام بیہقی نے ابن خزیمہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: اگر یہ روایت صحیح ہے تو ممکن ہے ان دونوں کے درمیان باری رہی ہو، تو جب بلال رضی اللہ عنہ کی باری رات میں اذان کہنے کی ہوتی تو وہ رات میں اذان کہتے، اور جب ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی ہوتی تو وہ رات میں کہتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
11. بَابُ: الأَذَانِ فِي غَيْرِ وَقْتِ الصَّلاَةِ
11. باب: نماز کا وقت ہوئے بغیر اذان دینے کا بیان۔
Chapter: The Adhan At Times Other Than The Time For Prayer
حدیث نمبر: 642
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا المعتمر بن سليمان، عن ابيه، عن ابي عثمان، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن بلالا يؤذن بليل ليوقظ نائمكم وليرجع قائمكم، وليس ان يقول هكذا يعني في الصبح".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ لِيُوقِظَ نَائِمَكُمْ وَلِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ، وَلَيْسَ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا يَعْنِي فِي الصُّبْحِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں تاکہ سونے والوں کو جگا دیں، اور تہجد پڑھنے والوں کو (سحری کھانے کے لیے) گھر لوٹا دیں، اور وہ اس طرح نہیں کرتے یعنی صبح ہونے پر اذان نہیں دیتے ہیں بلکہ پہلے ہی دیتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 13 (621) مطولاً، الطلاق 24 (5298) مطولاً، أخبار الآحاد 1 (7248) مطولاً، صحیح مسلم/الصوم 8 (1093) مطولاً، سنن ابی داود/الصوم 17 (2347) مطولاً، سنن ابن ماجہ/الصوم 23 (1696) مطولاً، (تحفة الأشراف: 9375)، مسند احمد 1/386، 392، 435، ویأتي عند المؤلف بأتم منہ في الصیام 30 برقم: 2172 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: لہٰذا ان کی اذان پر کھانا پینا نہ چھوڑو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
12. بَابُ: وَقْتِ أَذَانِ الصُّبْحِ
12. باب: صبح کی اذان کا وقت۔
Chapter: The Time For The Adhan For As-Subh
حدیث نمبر: 643
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا حميد، عن انس، ان سائلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن وقت الصبح فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بلالا فاذن حين طلع الفجر، فلما كان من الغد اخر الفجر حتى اسفر، ثم امره فاقام فصلى، ثم قال:" هذا وقت الصلاة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قال: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ سَائِلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَقْتِ الصُّبْحِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا فَأَذَّنَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَخَّرَ الْفَجْرَ حَتَّى أَسْفَرَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ فَصَلَّى، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا وَقْتُ الصَّلَاةِ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر کی اذان کا وقت پوچھا، تو آپ نے بلال کو حکم دیا، تو انہوں نے فجر طلوع ہونے کے بعد اذان دی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو انہوں نے فجر کو مؤخر کیا یہاں تک کہ خوب اجالا ہو گیا، پھر آپ نے انہیں (اقامت کا) حکم دیا، تو انہوں نے اقامت کہی، اور آپ نے نماز پڑھائی پھر فرمایا: یہ ہے فجر کا وقت۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 815)، مسند احمد 3/121 (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
13. بَابُ: كَيْفَ يَصْنَعُ الْمُؤَذِّنُ فِي أَذَانِهِ
13. باب: اذان دیتے وقت مؤذن کیا کرے؟
Chapter: What Should The Mu'adhdhin Do While Calling The Adhan?
حدیث نمبر: 644
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فخرج بلال فاذن" فجعل يقول في اذانه هكذا ينحرف يمينا وشمالا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قال: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قال: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ" فَجَعَلَ يَقُولُ فِي أَذَانِهِ هَكَذَا يَنْحَرِفُ يَمِينًا وَشِمَالًا".
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے نکل کر اذان دی، تو وہ اپنی اذان میں اس طرح کرنے لگے یعنی ( «حى على» … کے وقت) دائیں اور بائیں مڑ رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 19 (634)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 11807)، مسند احمد 4/308، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1234) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
14. بَابُ: رَفْعِ الصَّوْتِ بِالأَذَانِ
14. باب: اذان میں آواز بلند کرنے کا بیان۔
Chapter: Raising The Voice With The Adhan
حدیث نمبر: 645
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: انبانا ابن القاسم، عن مالك، قال: حدثني عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي صعصعة الانصاري المازني، عن ابيه انه اخبره، ان ابا سعيد الخدري، قال له: إني اراك تحب الغنم والبادية،" فإذا كنت في غنمك او باديتك فاذنت بالصلاة، فارفع صوتك، فإنه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة". قال ابو سعيد: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قال: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الْأَنْصَارِيُّ الْمَازِنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ لَهُ: إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ،" فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ، فَارْفَعْ صَوْتَكَ، فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن صعصعہ انصاری مازنی روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحراء کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں یا اپنے جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو اپنی آواز بلند کرو کیونکہ مؤذن کی آواز جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز ۱؎ سنے گی تو وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 5 (609)، بدء الخلق 12 (3296)، التوحید 52 (7548)، سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (723)، موطا امام مالک/الصلاة 1 (5)، مسند احمد 3/6، 35، 43، (تحفة الأشراف: 4105) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کوئی اور چیز عام ہے اس میں حیوانات نباتات اور جمادات سبھی داخل ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں بھی قوت گویائی عطا فرمائے گا اور یہ چیزیں بھی مؤذن کی اذان کی گواہی دیں گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 646
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، ومحمد بن عبد الاعلى، قالا: حدثنا يزيد يعني ابن زريع، قال: حدثنا شعبة، عن موسى بن ابي عثمان، عن ابي يحيى، عن ابي هريرة، سمعه من فم رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المؤذن يغفر له بمد صوته ويشهد له كل رطب ويابس".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، سَمِعَهُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ بِمَدِّ صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کو یہ کہتے سنا ہے: مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کر دی جائے گی، اور تمام خشک وتر اس کی گواہی دیں گے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 31 (515) مطولاً، سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (724) مطولاً، (تحفة الأشراف: 15466)، مسند احمد 2/266، 411، 429، 458، 461 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جتنی بلند اس کی آواز ہو گی اسی قدر اس کی بخشش ہو گی، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قدر مسافت میں اس کے جتنے گناہوں کی سمائی ہو گی وہ سب بخش دیئے جائیں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.