سنن نسائي
كتاب الأذان
کتاب: اذان کے احکام و مسائل
13. بَابُ : كَيْفَ يَصْنَعُ الْمُؤَذِّنُ فِي أَذَانِهِ
باب: اذان دیتے وقت مؤذن کیا کرے؟
حدیث نمبر: 644
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قال: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قال: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ" فَجَعَلَ يَقُولُ فِي أَذَانِهِ هَكَذَا يَنْحَرِفُ يَمِينًا وَشِمَالًا".
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے نکل کر اذان دی، تو وہ اپنی اذان میں اس طرح کرنے لگے یعنی ( «حى على» … کے وقت) دائیں اور بائیں مڑ رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 19 (634)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 11807)، مسند احمد 4/308، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1234) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 644 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 644
644 ۔ اردو حاشیہ: ویسے تو اذان قبلہ رخ کہی جاتی ہے مگر «حيَّ على الصلاةِ» کہتے وقت منہ دائیں طرف اور «حيَّ على الفلاحِ» کہتے وقت منہ بائیں طرف کیا جاتا ہے تاکہ دائیں بائیں بھی آواز پہنچ سکے اور یہ سنت ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وقتی ضرورت تھی جو لاؤڈ سپیکر کی ایجاد سے پوری ہو گئی ہے، لہٰذا اب دائیں بائیں رخ کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ توجیہ سراسر نبوی طریقۂ کار کے خلاف ہے۔ بظاہر اس میں کوئی حکمت ہو یا نہ ہو، بہرحال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل پیرا ہونے ہی میں خیر اور بھلائی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 644