سنن نسائي
كتاب الأذان
کتاب: اذان کے احکام و مسائل
14. بَابُ : رَفْعِ الصَّوْتِ بِالأَذَانِ
باب: اذان میں آواز بلند کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 646
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، سَمِعَهُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ بِمَدِّ صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کو یہ کہتے سنا ہے: ”مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کر دی جائے گی، اور تمام خشک وتر اس کی گواہی دیں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 31 (515) مطولاً، سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (724) مطولاً، (تحفة الأشراف: 15466)، مسند احمد 2/266، 411، 429، 458، 461 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جتنی بلند اس کی آواز ہو گی اسی قدر اس کی بخشش ہو گی، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قدر مسافت میں اس کے جتنے گناہوں کی سمائی ہو گی وہ سب بخش دیئے جائیں گے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 646 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 646
646 ۔ اردو حاشیہ: یعنی بالفرض اس کے گناہ اتنی جگہ کو بھرتے ہوں جہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے تب بھی اذان کی برکت سے اسے معافی ہو جائے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 646
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 515
´بلند آواز سے اذان کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤذن کی بخشش کر دی جاتی ہے، جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے ۱؎، اور اس کے لیے تمام خشک و تر گواہی دیتے ہیں، اور جو شخص نماز میں حاضر ہوتا ہے اس کے لیے پچیس نماز کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک نماز سے دوسری نماز کے درمیان جو کوتاہی سرزد ہوئی ہو وہ مٹا دی جاتی ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 515]
515۔ اردو حاشیہ:
➊ مؤذن کا یہ شرف ہے کہ اس قدر طویل و عریض اور وسیع مغفرت کا مستحق بنتا ہے۔ یا یہ ایک تشبیہ و تمثیل ہے کہ بالفرض اس کے گناہ اس قدر بھی ہوں جو اتنی جگہ میں آئیں تو بھی معاف کر دیے جاتے ہیں اور جس قدر بلند آواز سے اذان کہے گا اسی قدر مغفرت کا مستحق بنے گا۔ لہٰذا بلند آواز سے اذان کہنا مستحب اور مؤکد ہے۔
➋ اذان سے اور جماعت میں شرکت سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ کبائر کی معافی کے لیے توبہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ضروری ہے۔ ویسے اللہ کی رحمت وسیع ہے چاہے تو معاف فرما دے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 515
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث724
´اذان کی فضیلت اور مؤذن کے ثواب کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے، اور ہر خشک و تر اس کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے، اور اذان سن کر نماز میں حاضر ہونے والے کے لیے پچیس (۲۵) نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 724]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:
(1)
آواز پہنچنے کی حد تک گناہوں کی معافی کا مطلب یہ ہے کہ اگر اتنے زیادہ گناہ ہوں کہ اتنی وسیع جگہ کو پر کردیں تو وہ بھی معاف ہوجائیں گے۔
(2)
نماز باجماعت ادا کرنے والے کے لیے پچیس نیکیاں لکھی جانے کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ اسے نماز کا ثواب پچیس گنا ملے گا جیسے کہ دوسری احادیث میں پچیس گنا اور ستائیس گنا ثواب کی صراحیت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، حديث: 646، 645)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 724