سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکوں نے (حقارت کے انداز میں) کہا کہ ہم تمہارے نبی کو دیکھتے ہیں کہ وہ تمہیں پاخانہ (تک) کی تعلیم دیتے ہیں، تو انہوں نے (فخریہ) کہا: ہاں، آپ نے ہمیں داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے اور (بحالت قضائے حاجت) قبلہ کا رخ کرنے سے منع فرمایا، نیز فرمایا: ”تم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کرے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 41 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابن حزم کہتے ہیں کہ «بدون ثلاثۃ احجار» میں «دون»، «اقل» کے معنی میں یا «غیر» کے معنی میں ہے، لہٰذا نہ تین پتھر سے کم لینا درست ہے نہ زیادہ، اور بعض لوگوں نے کہا ہے «دون» کو «غیر» کے معنی میں لینا غلط ہے، یہاں دونوں سے مراد «اقل» ہے جیسے «ليس فيما دون خمس من الأبل صدقة» میں ہے۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن الصباح، قال: حدثنا شعيب يعني ابن حرب، قال: حدثنا ابان بن عبد الله البجلي، قال: حدثنا إبراهيم بن جرير، عن ابيه، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم فاتى الخلاء فقضى الحاجة، ثم قال:" يا جرير، هات طهورا، فاتيته بالماء فاستنجى بالماء، وقال: بيده فدلك بها الارض". قال ابو عبد الرحمن: هذا اشبه بالصواب من حديث شريك، والله سبحانه وتعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قال: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ حَرْبٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيُّ، قال: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى الْخَلَاءَ فَقَضَى الْحَاجَةَ، ثُمَّ قَالَ:" يَا جَرِيرُ، هَاتِ طَهُورًا، فَأَتَيْتُهُ بِالْمَاءِ فَاسْتَنْجَى بِالْمَاءِ، وَقَالَ: بِيَدِهِ فَدَلَكَ بِهَا الْأَرْضَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ قضائے حاجت کی جگہ میں آئے، اور آپ نے حاجت پوری کی، پھر فرمایا: ”جریر! پانی لاؤ“، میں نے پانی حاضر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی سے استنجاء کیا، اور راوی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر چوپائے اور درندے آتے جاتے ہوں؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو قلہ ۱؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز نہیں ہونے دے گا“ یعنی اسے دفع کر دے گا؟ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 33 (63)، (تحفة الأشراف: 7272)، سنن الترمذی/فیہ 50 (67)، سنن ابن ماجہ/فیہ 75 (517)، سنن الدارمی/الطہارة 55 (759)، مسند احمد 2/12، 23، 38، 107، ویأتي عند المؤلف في المیاہ 2 (برقم: 329) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ مطلب نہیں کہ وہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہو گا کیونکہ یہ معنی لینے کی صورت میں «قلتین»(دو قلہ) کی تحدید بے معنی ہو جائے گی۔ «قُلّہ» سے مراد بڑا مٹکا ہوتا ہے کہ جس میں پانچ سو رطل پانی آتا ہے، یعنی اڑھائی مشک۔ ۲؎: حاکم کی روایت میں «لم يحمل الخبث» کی جگہ «لم ينجسه شيء» ہے، جس سے «لم يحمل الخبث» کے معنی کی وضاحت ہوتی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حماد، عن ثابت، عن انس، ان اعرابيا بال في المسجد، فقام عليه بعض القوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعوه لا تزرموه، فلما فرغ دعا بدلو فصبه عليه". قال ابو عبد الرحمن: يعني لا تقطعوا عليه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَالَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ عَلَيْهِ بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعُوهُ لَا تُزْرِمُوهُ، فَلَمَّا فَرَغَ دَعَا بِدَلْوٍ فَصَبَّهُ عَلَيْهِ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: يَعْنِي لَا تَقْطَعُوا عَلَيْهِ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو کچھ لوگ اس پر جھپٹے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، کرنے دو روکو نہیں“۱؎، جب وہ فارغ ہو گیا تو آپ نے پانی منگوایا، اور اس پر انڈیل دیا۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی رحمہ اللہ) کہتے ہیں: یعنی بیچ میں نہ روکو پیشاب کر لینے دو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 57 (219)، الأدب 35 (6025)، صحیح مسلم/الطہارة 30 (284)، سنن ابن ماجہ/فیہ 78 (528)، (تحفة الأشراف: 290)، وقد أحرجہ: سنن الدارمی/الطہارة 62 (767)، مسند احمد 3/191، 226، ویأتي عند المؤلف برقم: (330) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں، ایک تو یہ کہ اگر اسے بھگاتے تو وہ پیشاب کرتا ہوا جاتا جس سے ساری مسجد نجس ہو جاتی، دوسری یہ کہ اگر وہ پیشاب اچانک روک لیتا تو اندیشہ تھا کہ اسے کوئی عارضہ لاحق ہو جاتا، تیسری یہ کہ وہ گھبرا جاتا اور مسلمانوں کو بدخلق سمجھ کر اسلام ہی سے پھر جاتا وغیرہ وغیرہ۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا عبيدة، عن يحيى بن سعيد، عن انس، قال: بال اعرابي في المسجد،" فامر النبي صلى الله عليه وسلم بدلو من ماء فصب عليه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قال: بَالَ أَعْرَابِيُّ فِي الْمَسْجِدِ،" فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَلْوٍ مِنْ مَاءٍ فَصُبَّ عَلَيْهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا جو اس پر ڈال دیا گیا۔
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن يحيى بن سعيد، قال: سمعت انسا، يقول: جاء اعرابي إلى المسجد فبال فصاح به الناس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتركوه"، فتركوه حتى بال، ثم" امر بدلو فصب عليه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قال: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى الْمَسْجِدِ فَبَالَ فَصَاحَ بِهِ النَّاسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اتْرُكُوهُ"، فَتَرَكُوهُ حَتَّى بَالَ، ثُمَّ" أَمَرَ بِدَلْوٍ فَصُبَّ عَلَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی مسجد میں آیا اور پیشاب کرنے لگا، تو لوگ اس پر چیخے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو“(کرنے دو) تو لوگوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے پیشاب کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا جو اس پر بہا دیا گیا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی اٹھا، اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو لوگ اسے پکڑنے کے لیے بڑھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو (پیشاب کر لینے دو) اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو، کیونکہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، سختی کرنے والے بنا کر نہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 58 (220)، الأدب 80 (6128)، (تحفة الأشراف: 14111)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 138 (380) مفصلاً، سنن الترمذی/فیہ 112 (147)، سنن ابن ماجہ/فیہ 78 (529)، مسند احمد 2/282، ویأتي عند المؤلف برقم: (331) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے وضو کرے“۔
تخریج الحدیث: «حدیث عوف، عن محمد بن سیرین، عن أبي ہریرة تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14492)، وحدیث عوف، عن خلاس بن عمرو، عن أبي ہریرة تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 12304)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطہارة 51 (68)، مسند احمد 2/259، 265، 492، 529، ویأتي عند المؤلف برقم: (397) من غیر ہذا الطریق (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا إسماعيل، عن يحيى بن عتيق، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يبولن احدكم في الماء الدائم، ثم يغتسل منه". قال ابو عبد الرحمن: كان يعقوب لا يحدث بهذا الحديث إلا بدينار. (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَتِيقٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ مِنْهُ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كَانَ يَعْقُوبُ لَا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا بِدِينَارٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل کرے۔“ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) نے فرمایا: (میرے استاذ) یعقوب بن ابراہیم یہ حدیث دینار لیے بغیر بیان نہیں کرتے تھے۔