219. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ایک دیہاتی کو دیکھا جو مسجد میں پیشاب کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: ” اسے کچھ نہ کہو۔ “ تاآنکہ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ نے پانی منگوایا اور اسے پیشاب پر بہا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:219]
حدیث حاشیہ: 1۔
انسانی پیشاب کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تین ابواب میں یہ بتایا ہے کہ اس کامعاملہ بہت اہم اور سنگین ہے۔
اس میں معمولی سی بے احتیاطی سے عذاب قبر کا اندیشہ ہے۔
ایک طرف اس قدر اہمیت کا بیان، جبکہ دوسری طر ف اس کے برعکس ایک اور صورت سامنے آتی ہے کہ ایک اعرابی آیا، مسجد نبوی میں نماز ادا کی اورمسجد ہی کے کونے میں پیشاب کرنے لگا، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کا نوٹس لیناچاہتے تھے، لیکن آپ نے انھیں منع فرمادیا۔
اس صورت حال سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کا معاملہ اتنااہم نہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایت کے پیش نظر یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ معاملہ سنگین نہیں بلکہ اس مقام پر ایک اوراصول کے تحت تخفیف کی گئی ہے۔
وہ اصول یہ ہے کہ جب انسان دو مصیبتوں میں گھرجائے تو اسے آسان مصیبت اختیار کرلینی چاہیے۔
اس مقام پر دومصیبتیں یہ تھیں:
ایک مسجد کی تلویث
(آلودگی وگندگی) دوسرے، اعرابی کا بیماری کا اندیشہ۔
دیہاتی نے تو پیشاب شروع کردیاتھا، اب فرش کی حفاظت تو نا ممکن تھی جوہوناتھا وہ ہوچکاتھا، البتہ اس کی تلافی ممکن تھی لیکن اگر اعرابی کو پکڑا جاتا تو اس کے بھاگنے سے معاملہ مزید خراب ہوجاتا، اس کی بیماری بلکہ جان کو بھی خطرہ تھا، اس لیے ہلکی مصیبت کواختیار کرلیا گیا کہ وہ اطمینان سے پیشاب کرلے، بعد میں آپ نے تین کام کیے:
پانی کا ایک ڈول منگوایا اور اسے اعرابی کے پیشاب پر بہادیاگیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کونصیحت فرمائی کہ ہمارا کام سختی کرنا نہیں بلکہ لطف ومہربانی سے پیش آنا ہے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 220) اعرابی کو نرمی سے سمجھایا کہ مسجدیں نماز، اللہ کے ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔
گندگی پھیلانے سے ان کا تقدس مجروح ہوتاہے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 661(285)
) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےلکھا ہے کہ اس دیہاتی کو پیشاب سے اس لیے نہیں روکا گیا کہ وہ برائی کا آغاز کرچکا تھا جس کوروکنے سے اس میں مزید اضافہ ہوجاتا۔
اگر اسے روکا جاتا تو دو کاموں میں سے ایک ضرور ہوتا:
اگر وہ مارے خوف کے پیشاب روک لیتا تو اس سے ضرر اور بیماری کااندیشہ تھا۔
اگروہ پیشاب نہ روکتا اور ادھر اُدھر بھاگنا شروع کردیتا تو مسجد کے بہت سے حصے اس سے متاثر ہوتے۔
مزید برآں اس کے کپڑے بھی پلید ہوجاتے۔
(فتح الباري: 421/1) 2۔
اس حدیث سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں:
مساجد کو نجاست اور پلیدی سے محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں جلدی کرنی چاہیے۔
دوبُرائیوں میں سے بڑی بُرائی کو دورکرنے کے لیے ایک چھوٹی بُرائی کا ارتکاب جائز ہے۔
جاہل لوگوں سے نرمی، سہولت اور تالیف قلب کا برتاؤ کرنا چاہے۔
اگرمانع نہ ہوتو ازالہ مفاسد میں جلدی کرنی چاہیے۔
3۔
امت کا اجتماعی مزاج لوگوں کے لیے آسانی پیداکرتا ہے، لہذا ہمیں اس کی نزاکت کااحساس کرنا چاہیے۔
معمولی معمولی باتوں کی وجہ سے دوسروں کو دین اسلام سے خارج قراردینا، لوگوں میں دینی معاملات سے متعلق بے زاری پیدا کرنا ہے، اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے جسے مٹانے کے لیے ہمیں پابند کیاگیا ہے۔
واللہ أعلم۔