(مرفوع) اخبرنا احمد بن الصباح، قال: حدثنا شعيب يعني ابن حرب، قال: حدثنا ابان بن عبد الله البجلي، قال: حدثنا إبراهيم بن جرير، عن ابيه، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم فاتى الخلاء فقضى الحاجة، ثم قال:" يا جرير، هات طهورا، فاتيته بالماء فاستنجى بالماء، وقال: بيده فدلك بها الارض". قال ابو عبد الرحمن: هذا اشبه بالصواب من حديث شريك، والله سبحانه وتعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قال: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ حَرْبٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيُّ، قال: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى الْخَلَاءَ فَقَضَى الْحَاجَةَ، ثُمَّ قَالَ:" يَا جَرِيرُ، هَاتِ طَهُورًا، فَأَتَيْتُهُ بِالْمَاءِ فَاسْتَنْجَى بِالْمَاءِ، وَقَالَ: بِيَدِهِ فَدَلَكَ بِهَا الْأَرْضَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ قضائے حاجت کی جگہ میں آئے، اور آپ نے حاجت پوری کی، پھر فرمایا: ”جریر! پانی لاؤ“، میں نے پانی حاضر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی سے استنجاء کیا، اور راوی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 51
51۔ اردو حاشیہ: ➊ شریک کی روایت سے مراد اوپر والی روایت (50) ہے جسے شریک نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ظاہر کیا ہے جبکہ یہ روایت ابان سے ہے۔ ابان نے اس روایت کو حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کیا ہے جبکہ امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت جریر سے ہونی چاہیے، البتہ اس صورت میں یہ روایت منقطع ہو گی کیونکہ محدثین کے فیصلے کے مطابق ابان کے استاذ ابراہیم بن جریر کا اپنے والد حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا اس روایت کو زیادہ صحیح کہنے سے یہ مقصود نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے بلکہ ان کا مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں بجائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حضرت جریر کا ذکر درست ہے۔ بعض محدثین نے دونوں روایات کو صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ روایت حضرت جریر سے بھی منقول ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی کیونکہ شریک حفظ و ضبط میں ابان سے کم نہیں بلکہ امام مسلم نے شریک کی روایات صحیح مسلم میں بیان کی ہیں۔ واللہ أعلم۔ ➋ ”قال أبو عبدالرحمن“ یہ مقولہ خود امام نسائی رحمہ اللہ کا بھی ہو سکتا ہے، یعنی اپنے آپ کو کنیت کے ساتھ غائبانہ انداز میں ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے شاگرد شیخ ابن سنی کا مقولہ ہو۔ پہلی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 51