(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا ابو اسامة , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: كانت عندي امراة , فدخل علي النبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" من هذه؟" , قلت: فلانة لا تنام تذكر من صلاتها , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" مه عليكم بما تطيقون , فوالله لا يمل الله حتى تملوا" , قالت: وكان احب الدين إليه الذي يدوم عليه صاحبه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَتْ عِنْدِي امْرَأَةٌ , فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" مَنْ هَذِهِ؟" , قُلْتُ: فُلَانَةُ لَا تَنَامُ تَذْكُرُ مِنْ صَلَاتِهَا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَهْ عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ , فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا" , قَالَتْ: وَكَانَ أَحَبَّ الدِّينَ إِلَيْهِ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور پوچھا: ”یہ کون ہے“؟ میں نے کہا: یہ فلاں عورت ہے، یہ سوتی نہیں ہے (نماز پڑھتی رہتی ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو! تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے کی تمہیں طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ“۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو آدمی ہمیشہ پابندی سے کرتا ہے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا الفضل بن دكين , عن سفيان , عن الجريري , عن ابي عثمان , عن حنظلة الكاتب التميمي الاسيدي , قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , فذكرنا الجنة والنار , حتى كانا راي العين , فقمت إلى اهلي وولدي فضحكت ولعبت , قال: فذكرت الذي كنا فيه , فخرجت فلقيت ابا بكر , فقلت: نافقت نافقت , فقال ابو بكر: إنا لنفعله , فذهب حنظلة فذكره للنبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" يا حنظلة , لو كنتم كما تكونون عندي لصافحتكم الملائكة على فرشكم او على طرقكم يا حنظلة ساعة وساعة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ الْجُرَيْرِيِّ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ , عَنْ حَنْظَلَةَ الْكَاتِبِ التَّمِيمِيِّ الْأُسَيِّدِيِّ , قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرْنَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ , حَتَّى كَأَنَّا رَأْيَ الْعَيْنِ , فَقُمْتُ إِلَى أَهْلِي وَوَلَدِي فَضَحِكْتُ وَلَعِبْتُ , قَالَ: فَذَكَرْتُ الَّذِي كُنَّا فِيهِ , فَخَرَجْتُ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ , فَقُلْتُ: نَافَقْتُ نَافَقْتُ , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّا لَنَفْعَلُهُ , فَذَهَبَ حَنْظَلَةُ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" يَا حَنْظَلَةُ , لَوْ كُنْتُمْ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ أَوْ عَلَى طُرُقِكُمْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً".
حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور ہم نے جنت اور جہنم کا ذکر اس طرح کیا گویا ہم اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہے ہیں، پھر میں اپنے اہل و عیال کے پاس چلا گیا، اور ان کے ساتھ ہنسا کھیلا، پھر مجھے وہ کیفیت یاد آئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، میں گھر سے نکلا، راستے میں مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ مل گئے، میں نے کہا: میں منافق ہو گیا، میں منافق ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی ہمارا بھی حال ہے، حنظلہ رضی اللہ عنہ گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کیفیت کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حنظلہ! اگر (اہل و عیال کے ساتھ) تمہاری وہی کیفیت رہے جیسی میرے پاس ہوتی ہے تو فرشتے تمہارے بستروں (یا راستوں) میں تم سے مصافحہ کریں، حنظلہ! یہ ایک گھڑی ہے، وہ ایک گھڑی ہے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خود کو اتنے ہی کام کا مکلف کرو جتنے کی تم میں طاقت ہو، کیونکہ بہترین عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے، خواہ وہ کم ہی ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13942، ومصباح الزجاجة: 1515)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/350) (صحیح)» (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، اور ولید بن مسلم تدلیس التسویہ کرتے ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے)
(مرفوع) حدثنا عمرو بن رافع , حدثنا يعقوب بن عبد الله الاشعري , عن عيسى بن جارية , عن جابر بن عبد الله , قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على رجل يصلي على صخرة , فاتى ناحية مكة فمكث مليا ثم انصرف , فوجد الرجل يصلي على حاله فقام فجمع يديه , ثم قال:" يا ايها الناس عليكم بالقصد" , ثلاثا ," فإن الله لا يمل حتى تملوا". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ , حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ , عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ يُصَلِّي عَلَى صَخْرَةٍ , فَأَتَى نَاحِيَةَ مَكَّةَ فَمَكَثَ مَلِيًّا ثُمَّ انْصَرَفَ , فَوَجَدَ الرَّجُلَ يُصَلِّي عَلَى حَالِهِ فَقَامَ فَجَمَعَ يَدَيْهِ , ثُمَّ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالْقَصْدِ" , ثَلَاثًا ," فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو ایک چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا، آپ مکہ کے ایک جانب گئے، اور کچھ دیر ٹھہرے، پھر واپس آئے، تو اس شخص کو اسی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنے دونوں ہاتھوں کو ملایا، پھر فرمایا: ”لوگو! تم میانہ روی اختیار کرو“، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے (ثواب دینے سے) یہاں تک کہ تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنت کی متابعت بہتر ہے، یعنی اسی قدر نماز اور روزہ اور وظائف پر مداومت کرنا جس قدر رسول اکرم ﷺ سے ثابت اور منقول ہے، اور اس میں شک نہیں کہ سنت کی پیروی ہر حال میں بہتر اور باعث برکت اور نور ہے، اور بہتر طریقہ وہی ہے جو وظاف و اوراد اور نوافل میں رسول اکرم ﷺ سے منقول ہے، انہی و ظائف واوراد پر قناعت کرے اور اہل و عیال اور دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی مشغول رہے جیسے رسول اکرم ﷺ کرتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , حدثنا وكيع , وابي , عن الاعمش عن شقيق , عن عبد الله , قال: قلنا: يا رسول الله , انؤاخذ بما كنا نعمل في الجاهلية , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من احسن في الإسلام , لم يؤاخذ بما كان في الجاهلية , ومن اساء اخذ بالاول والآخر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , وَأَبِي , عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنُؤَاخَذُ بِمَا كُنَّا نَعْمَلُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ , لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَمَنْ أَسَاءَ أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم سے ان گناہوں کا بھی مواخذہ کیا جائے گا، جو ہم نے (زمانہ) جاہلیت میں کئے تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عہد اسلام میں نیک کام کئے (دل سے اسلام لے آیا) اس سے جاہلیت کے کاموں پر مواخذہ نہیں کیا جائے گا، اور جس نے اسلام لا کر بھی برے کام کئے، (کفر پر قائم رہا ہے) تو اس سے اول و آخر دونوں برے اعمال پر مواخذہ کیا جائے گا“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”حقیر و معمولی گناہوں سے بچو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا بھی مواخذہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17425، ومصباح الزجاجة: 1517)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/70، 151)، سنن الدارمی/الرقاق 17 (2768) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ (داغ) لگ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرے، باز آ جائے اور مغفرت طلب کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے، اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو پھر وہ دھبہ بھی بڑھتا جاتا ہے، یہ وہی زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے: «كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون»”ہرگز نہیں بلکہ ان کے برے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ پکڑ لیا ہے جو وہ کرتے ہیں“(سورة المطففين: 14)“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 74 (3334)، (تحفة الأشراف: 12862)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/297) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / ت 3334، نك 11658
(مرفوع) حدثنا عيسى بن يونس الرملي , حدثنا عقبة بن علقمة بن خديج المعافري , عن ارطاة بن المنذر , عن ابي عامر الالهاني , عن ثوبان , عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه قال:" لاعلمن اقواما من امتي ياتون يوم القيامة بحسنات امثال جبال تهامة , بيضا , فيجعلها الله عز وجل هباء منثورا" , قال ثوبان: يا رسول الله , صفهم لنا , جلهم لنا ان لا نكون منهم ونحن لا نعلم , قال:" اما إنهم إخوانكم ومن جلدتكم , وياخذون من الليل كما تاخذون , ولكنهم اقوام إذا خلوا بمحارم الله انتهكوها". (مرفوع) حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ الرَّمْلِيُّ , حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ بْنِ خَدِيجٍ الْمَعَافِرِيُّ , عَنْ أَرْطَاةَ بْنِ الْمُنْذِرِ , عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْأَلْهَانِيِّ , عَنْ ثَوْبَانَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ:" لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ , بِيضًا , فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا" , قَالَ ثَوْبَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , صِفْهُمْ لَنَا , جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ , قَالَ:" أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ , وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ , وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا“، ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں، اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سے کام لوگوں کو زیادہ تر جنت میں داخل کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقویٰ (اللہ تعالیٰ کا خوف) اور حسن خلق (اچھے اخلاق)“، اور پوچھا گیا: کون سے کام زیادہ تر آدمی کو جہنم میں لے جائیں گے؟ فرمایا: ”دو کھوکھلی چیزیں: منہ اور شرمگاہ“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر62 (2004)، (تحفة الأشراف: 14847)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/291، 392، 442) (حسن)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کہ تم اپنی گمشدہ چیز پانے سے خوش ہوتے ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13935)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 99 (3538) (صحیح)»