(مرفوع) حدثنا عمرو بن رافع , حدثنا يعقوب بن عبد الله الاشعري , عن عيسى بن جارية , عن جابر بن عبد الله , قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على رجل يصلي على صخرة , فاتى ناحية مكة فمكث مليا ثم انصرف , فوجد الرجل يصلي على حاله فقام فجمع يديه , ثم قال:" يا ايها الناس عليكم بالقصد" , ثلاثا ," فإن الله لا يمل حتى تملوا". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ , حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ , عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ يُصَلِّي عَلَى صَخْرَةٍ , فَأَتَى نَاحِيَةَ مَكَّةَ فَمَكَثَ مَلِيًّا ثُمَّ انْصَرَفَ , فَوَجَدَ الرَّجُلَ يُصَلِّي عَلَى حَالِهِ فَقَامَ فَجَمَعَ يَدَيْهِ , ثُمَّ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالْقَصْدِ" , ثَلَاثًا ," فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو ایک چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا، آپ مکہ کے ایک جانب گئے، اور کچھ دیر ٹھہرے، پھر واپس آئے، تو اس شخص کو اسی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنے دونوں ہاتھوں کو ملایا، پھر فرمایا: ”لوگو! تم میانہ روی اختیار کرو“، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے (ثواب دینے سے) یہاں تک کہ تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنت کی متابعت بہتر ہے، یعنی اسی قدر نماز اور روزہ اور وظائف پر مداومت کرنا جس قدر رسول اکرم ﷺ سے ثابت اور منقول ہے، اور اس میں شک نہیں کہ سنت کی پیروی ہر حال میں بہتر اور باعث برکت اور نور ہے، اور بہتر طریقہ وہی ہے جو وظاف و اوراد اور نوافل میں رسول اکرم ﷺ سے منقول ہے، انہی و ظائف واوراد پر قناعت کرے اور اہل و عیال اور دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی مشغول رہے جیسے رسول اکرم ﷺ کرتے تھے۔