Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
29. بَابُ : ذِكْرِ الذُّنُوبِ
باب: گناہوں کو یاد کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4243
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ , حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ بَانَكَ , سَمِعْتُ عَامِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ الْحَارِثِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَائِشَةُ , إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الْأَعْمَالِ , فَإِنَّ لَهَا مِنَ اللَّهِ طَالِبًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: حقیر و معمولی گناہوں سے بچو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا بھی مواخذہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17425، ومصباح الزجاجة: 1517)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/70، 151)، سنن الدارمی/الرقاق 17 (2768) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4243 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4243  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بعض گناہ عام لوگوں کی نظر میں معمولی ہوتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں وہ بڑے ہوتے ہیں۔
مثلاً گالی گلوچ، ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا، مرد کا اپنی شلوار تہ بند اور پاجامہ وغیرہ سے ٹخنوں کو چھپا لینا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اپنا تہہ بند آدھی پنڈلی تک اونچا رکھنا، اگر یہ نہ ہوسکے تو ٹخنوں تک ضرور اونچا رکھنا اور تہہ بند کو (ٹخنوں سے نیچے تک)
لٹکانے سے بچنا کیونکہ یہ تکبر ہے۔
۔
۔ (سنن أبي داؤد، اللباس، باب ماجاء فی إسبال الإزار، حدیث: 4084)

(2)
جو گناہ معاشرے میں عام ہوجائے۔
عوام کی نظر میں وہ گناہ نہیں رہتا۔
خواہ کبیرہ ہی ہو۔
علماء کو چاہیے کہ ایسے گناہوں سے خاص طور پر منع کریں۔
اور ان کے بارے میں اسلامی احکام کی وضاحت کریں۔

(3)
جو گناہ واقعتاً صغیرہ ہیں۔
ان کے بارے میں بھی احتیاط ضروری ہے۔
کیونکہ صغیرہ گناہ بکثرت کرنے سے مجموعی طور پر گناہوں کی مقدار بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔
جس کی وجہ سے انسان سزا کا مستحق ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ صغیرہ گناہوں کی پرواہ نہ کرنے سے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی جرأت پیدا ہوجاتی ہے۔
اس لئے ان سے بھی اجتناب ہی بہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4243