انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم (جواب میں صرف) «وعليكم» کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق)“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یہودی آئے، اور کہا: «السام عليك يا أبا القاسم»”اے ابوالقاسم تم پر موت ہو“، تو آپ نے (جواب میں صرف) فرمایا: «وعليكم» اور تم پر بھی ہو۔
وضاحت: ۱؎: ابو القاسم، رسول اللہ ﷺ کی کنیت ہے۔ ۲؎: یہ ان یہودیوں کی شرارت تھی کہ «سلام» کے بدلے «سام» کا لفظ استعمال کیا، «سام» کہتے ہیں موت کو تو «السام علیک» کے معنی یہ ہوئے کہ تم مرو، اور ہلاک ہو، جو بدعا ہے، آپ ﷺ نے جواب میں صرف «وعلیک» فرمایا، یعنی تم ہی مرو، جب کوئی کافر سلام کرے، تو جواب میں صرف «وعلیک» کہے۔
ابوعبدالرحمٰن جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کل سوار ہو کر یہودیوں کے پاس جاؤں گا، تو تم خود انہیں پہلے سلام نہ کرنا، اور جب وہ تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں «وعليكم» کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق)“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12068، ومصباح الزجاجة: 1291)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/233) (صحیح)» (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اگر انہوں نے «سلام» کا لفظ ادا کیا تو «وعلیکم» کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر بھی «سلام» اور اگر شرارت سے «سام» کا لفظ کہا تو «سام» یعنی موت ہی ان پر لوٹے گی۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجنبی عورت کو سلام کرنا جائز ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کئی عورتیں ہوں، ہاں اگر عورت اکیلی ہو اور اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو تو فتنے کے خدشے کی وجہ سے سلام نہ کرنا بہتر ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا (ملاقات کے وقت) ہم ایک دوسرے سے جھک کر ملیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، پھر ہم نے عرض کیا: کیا ہم ایک دوسرے سے معانقہ کریں (گلے ملیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ مصافحہ کیا کرو“(ہاتھ سے ہاتھ ملاؤ)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإستئذان 31 (2728)، (تحفة الأشراف: 822)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/198) (حسن)» (سند میں حنظلہ ضعیف ہے، لیکن معانقہ کے جملہ کے بغیر یہ دوسری سند سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 160)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2728) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 509
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور مصافحہ کرتے (ہاتھ ملاتے) ہیں، تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ملاقات کے وقت صحیح اسلامی طریقہ سلام کرنا اور آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا اور ہاتھ ملانا ہے، آج کل غیر اسلامی تہذیب اور رسم ورواج سے متاثر ہو کر مسلمان ملاقات کے وقت صحیح طریقے کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے سامنے جھکتے ہیں، جو سراسر غیر اسلامی طریقہ ہے، اسلام میں قدم بوسی، فرشی سلام اور پاؤں چھونا اورکسی کے سامنے رکوع سجود ہونا ممنوع ہے، اور یہ سب کام تقلید و تشبہ کے جذبہ سے کیے جائیں تو ان کی برائی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (5212) ترمذي (2727) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 509
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود کے کچھ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الاستئذان 33 (2733)، (تحفة الأشراف: 4951)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/239) (ضعیف)» (سند میں عبداللہ بن سلمہ ہیں، جن کی حدیث کی متابعت نہیں کی جائے گی)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا يزيد بن هارون , انبانا داود بن ابي هند , عن ابي نضرة , عن ابي سعيد الخدري ," ان ابا موسى استاذن على عمر ثلاثا , فلم يؤذن له فانصرف , فارسل إليه عمر ما ردك , قال:" استاذنت الاستئذان الذي امرنا به رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا , فإن اذن لنا دخلنا , وإن لم يؤذن لنا رجعنا" , قال: فقال: لتاتيني على هذا ببينة او لافعلن , فاتى مجلس قومه فناشدهم , فشهدوا له فخلى سبيله. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ," أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ ثَلَاثًا , فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَانْصَرَفَ , فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ مَا رَدَّكَ , قَالَ:" اسْتَأْذَنْتُ الِاسْتِئْذَانَ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا , فَإِنْ أُذِنَ لَنَا دَخَلْنَا , وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَنَا رَجَعْنَا" , قَالَ: فَقَالَ: لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ , فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ فَنَاشَدَهُمْ , فَشَهِدُوا لَهُ فَخَلَّى سَبِيلَهُ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور بلا کر پوچھا کہ آپ واپس کیوں چلے گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ویسے ہی تین مرتبہ اجازت طلب کی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، اگر ہمیں تین دفعہ میں اجازت دے دی جائے تو اندر چلے جائیں ورنہ لوٹ جائیں، تب انہوں نے کہا: آپ اس حدیث پر گواہ لائیں ورنہ میں آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں گا یعنی سزا دوں گا، تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی مجلس میں آئے، اور ان کو قسم دی (کہ اگر کسی نے یہ تین مرتبہ اجازت طلب کرنے والی حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے) ان لوگوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا کر گواہی دی تب عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو چھوڑا ۱؎۔
وضاحت: ۱ ؎: «استئندان» کیا ہے؟ ایک یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار بلند آواز سے «السلام علیکم» کہے، اور پوچھے کہ فلاں شخص یعنی اپنا نام لے کر بتائے کہ اندر داخل ہو یا نہیں؟ اگر تینوں بار میں گھر والا جواب نہ دے تو لوٹ آئے، لیکن بغیر اجازت کے اندر گھسنا جائز نہیں ہے، اور یہ ضروری اس لئے ہے کہ آدمی اپنے مکان میں کبھی ننگا کھلا ہوتا ہے،کبھی اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اگر بلا اجازت اندر داخل ہونا جائز ہو تو بڑی خرابی ہو گی، اب یہ مسئلہ عام تہذیب اور اخلاق میں داخل ہو گیا ہے کہ کسی شخص کے حجرہ یا مکان میں بغیر اجازت لئے اور بغیر اطلاع دئیے لوگ نہیں گھستے، اور جو کوئی اس کے خلاف کرے اس کو بے ادب اور بے وقوف جانتے ہیں۔