سنن ابن ماجه
كتاب الأدب
کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
15. بَابُ : الْمُصَافَحَةِ
باب: مصافحہ (یعنی ہاتھ ملانے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 3702
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّدُوسِيِّ ,، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيَنْحَنِي بَعْضُنَا لِبَعْضٍ؟ قَالَ:" لَا" , قُلْنَا: أَيُعَانِقُ بَعْضُنَا بَعْضًا؟ قَالَ:" لَا وَلَكِنْ تَصَافَحُوا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا (ملاقات کے وقت) ہم ایک دوسرے سے جھک کر ملیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، پھر ہم نے عرض کیا: کیا ہم ایک دوسرے سے معانقہ کریں (گلے ملیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ مصافحہ کیا کرو“ (ہاتھ سے ہاتھ ملاؤ)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإستئذان 31 (2728)، (تحفة الأشراف: 822)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/198) (حسن)» (سند میں حنظلہ ضعیف ہے، لیکن معانقہ کے جملہ کے بغیر یہ دوسری سند سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 160)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (2728)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 509
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3702 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3702
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے معانقے والی بات کے سوا باقی روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (الصحيحة رقم: 160)
لیکن مسند احمد کے محققین اور دکتور بشار عواد نے اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
مسند احمد کے محققین اس کی بابت لکھتے ہیں کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی جو متابعات بیان کی ہیں وہ بھی سخت ضعیف ہیں جس سے مذکورہ روایت ضعیف ہی رہتی ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت کے علاوہ دیگر صحیح روایات سے مصافحے اور معانقے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہےجیسے صحیح بخاری جامع الترمذی مسند ابو یعلی ابن حبان اور سنن الکبری بیہقی میں روایت ہے کہ حضرت انس ؓ سے پوچھا گیا:
نبی ﷺ کے زمانہ مبارک میں صحابہ کرام ؓ ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا:
ہاں، صحابہ کرام اس پر عمل کرتے تھے، نیز معجم الا وسط طبرانی میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ صحابہ کرا م ؓ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو مصافحہ کرتے تھے اور جب کسی سفر سے واپس آتے تو معانقہ کرتے تھے، لہذا مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسائل کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں البتہ صحیح آثار سے ثابت ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسائل پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
تاہم مصافحے کی فضیلت صحیح مرفوع احادیث ہے جیسا کہ درج ذیل روایت میں ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 20/ 240، 241، وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 3702)
(2)
ملاقات کے وقت سلام کرتے ہوئے جھکنا منع ہے کیونکہ اس سے رکوع سے مشابہت ہے جو اللہ کی عبادت ہے۔
(3)
پاؤں چومنا سجدہ سے مشابہت رکھتا ہے، اس لیے یہ زیادہ منع ہے۔
(4)
مصافحہ (ہاتھ ملانا)
سنت ہے۔
مصافحہ دائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے دونوں ہاتھوں سے نہیں۔
مصافحے کا مطلب ہی ہتھیلی سے ملنا ہے نہ کہ دو ہتھیلیوں سے اور نہ دو ہتھیلیوں کا ایک ہتھیلی سے ملنا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3702