ابوعبدالرحمٰن جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کل سوار ہو کر یہودیوں کے پاس جاؤں گا، تو تم خود انہیں پہلے سلام نہ کرنا، اور جب وہ تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں «وعليكم» کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق)“۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اگر انہوں نے «سلام» کا لفظ ادا کیا تو «وعلیکم» کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر بھی «سلام» اور اگر شرارت سے «سام» کا لفظ کہا تو «سام» یعنی موت ہی ان پر لوٹے گی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12068، ومصباح الزجاجة: 1291)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/233) (صحیح)» (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3699
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مسلمانوں کے ملک میں غییر مسلموں کو یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے برابر درجہ نہیں رکھتے تا کہ وہ مسلمانوں کو تنگ کرنے کی جرأت نہ کریں اور اسلام قبول کرنے میں اپنی بہتری محسوس کریں۔
(2) مسلمانوں کو نہیں چاہیے کہ غیر مسلم کو سلام کہے بلکہ غیر مسلم کو چاہیے کہ مسلمان کو سلام کہے اور مسلمان جواب دے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3699