سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
Chapters on Etiquette
حدیث نمبر: 3667
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا زيد بن الحباب , عن موسى بن علي , سمعت ابي يذكر , عن سراقة بن مالك , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" الا ادلكم على افضل الصدقة؟ ابنتك مردودة إليك ليس لها كاسب غيرك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ , سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ , عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ".
سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو، جو تمہارے پاس آ گئی ہو ۱؎، اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3821، ومصباح الزجاجة: 1275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/175) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (علی بن رباح کا سماع سراقہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع ہے)

وضاحت:
۱؎: یعنی شوہر کی موت یا طلاق کی وجہ سے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
علته الإنقطاع بين سراقة وعُلَيّ كما صرح به البوصيري وغيره
فالسند منقطع
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 508
حدیث نمبر: 3668
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا محمد بن بشر , عن مسعر , اخبرني سعد بن إبراهيم , عن الحسن , عن صعصعة عم الاحنف , قال: دخلت على عائشة امراة معها ابنتان لها , فاعطتها ثلاث تمرات , فاعطت كل واحدة منهما تمرة , ثم صدعت الباقية بينهما , قالت: فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته , فقال:" ما عجبك , لقد دخلت به الجنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , عَنْ مِسْعَرٍ , أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ صَعْصَعَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ , قَالَ: دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا , فَأَعْطَتْهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ , فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا تَمْرَةً , ثُمَّ صَدَعَتِ الْبَاقِيَةَ بَيْنَهُمَا , قَالَتْ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ , فَقَالَ:" مَا عَجَبُكِ , لَقَدْ دَخَلَتْ بِهِ الْجَنَّةَ".
احنف کے چچا صعصعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں کو دی، اور تیسری کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان تقسیم کر دی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں تعجب کیوں ہے؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16157، ومصباح الزجاجة: 1276)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 10 (1418)، الأدب 18 (5995)، صحیح مسلم/البر والصلة 46 (2629)، سنن الترمذی/البر والصلة 13 (1915)، مسند احمد (6/33، 166) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی اپنے بیٹیوں کو پالنے، ان کو کھلانے پلانے اور اپنے آپ کو بھوکے رہنے سے، وہ جنت کی حقدار ہو گئی، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب شوہر مر جاتا ہے، اور عورت صاحب اولاد ہوتی ہے تو بیچاری عمر بھر محنت مزدوری کرتی ہے، اور جو ملتا ہے وہ اپنی اولاد کو کھلاتی ہے، اور وہ خود اکثر بھوکی رہتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3669
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسين بن الحسن المروزي , حدثنا ابن المبارك , عن حرملة بن عمران , قال: سمعت ابا عشانة المعافري , قال: سمعت عقبة بن عامر , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من كان له ثلاث بنات فصبر عليهن , واطعمهن , وسقاهن , وكساهن من جدته , كن له حجابا من النار يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُشَانَةَ الْمُعَافِرِيَّ , قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ , وَأَطْعَمَهُنَّ , وَسَقَاهُنَّ , وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ , كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9921، ومصباح الزجاجة: 1277)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/154) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3670
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسين بن الحسن , حدثنا ابن المبارك , عن فطر , عن ابي سعيد , عن ابن عباس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من رجل تدرك له ابنتان , فيحسن إليهما ما صحبتاه او صحبهما , إلا ادخلتاه الجنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ , حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ فِطْرٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِكُ لَهُ ابْنَتَانِ , فَيُحْسِنُ إِلَيْهِمَا مَا صَحِبَتَاهُ أَوْ صَحِبَهُمَا , إِلَّا أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک (اچھا برتاؤ) کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5681، ومصباح الزجاجة: 1278)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/235، 363) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 382)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3671
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا العباس بن الوليد الدمشقي , حدثنا علي بن عياش , حدثنا سعيد بن عمارة , اخبرني الحارث بن النعمان , سمعت انس بن مالك يحدث , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" اكرموا اولادكم , واحسنوا ادبهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُمَارَةَ , أَخْبَرَنِي الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ , سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ , وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور انہیں بہترین ادب سکھاؤ۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 520، ومصباح الزجاجة: 1279) (ضعیف جداً)» ‏‏‏‏ (سند میں حارث بن نعمان منکر الحدیث اور سعید بن عمارہ ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سعيد بن عمارة و الحارث بن النعمان:ضعيفان (تقريب: 2367،ضعيف سنن الترمذي: 2352)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 509
4. بَابُ: حَقِّ الْجِوَارِ
4. باب: جوار (پڑوس) کے حق کا بیان۔
Chapter: The neighbour's rights
حدیث نمبر: 3672
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا سفيان بن عيينة , عن عمرو بن دينار , سمع نافع بن جبير يخبر , عن ابي شريح الخزاعي , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر , فليحسن إلى جاره , ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر , فليكرم ضيفه , ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر , فليقل خيرا او ليسكت".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ يُخْبِرُ , عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ , فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ , وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ , فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ , وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ , فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ".
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام اور اس کی خاطرداری کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 31 (6019)، الرقاق 23 (6476)، صحیح مسلم/الإیمان 19 (48)، سنن ابی داود/الأطعمة 5 (3748)، سنن الترمذی/البر الصلة 43 (1967، 1968)، (تحفة الأشراف: 12056)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صفة النبیﷺ 10 (22)، مسند احمد (4/31، 6/384، 385)، سنن الدارمی/الأطعمة 11 (2078) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: صرف اچھی بات کہنے یا خاموش رہنے کی اس عمدہ نصیحت نبوی پر عمل کے سلسلے میں اکثر لوگ کوتاہی کا شکار ہیں، لوگوں کے جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں، آدمی کو چاہئے کہ اگر اچھی بات ہو تو منہ سے نکالے، اور بری بات جیسے جھوٹ، غیبت، بہتان، فضول اور بیکار باتوں سے ہمیشہ بچتا رہے، عقلاء کے نزدیک کثرت کلام بہت معیوب ہے، تمام حکیموں اور داناوں کا اس پر اتقاق ہے کہ آدمی کی عقل مندی اس کے بات کرنے سے معلوم ہو جاتی ہے، لہذا ضروری ہے کہ خوب سوچ سمجھ کر بولے کہ اس کی بات سے کوئی نقصان تو پیدا نہ ہو گا، پھر یہ سوچے کہ اس بات میں کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں، اس کے بعد اگر اس بات میں فائدہ ہو تو منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے، اگر خاموشی سے تھک جائے تو ذکر الہٰی یا تلاوت قرآن کرے، یا دینی علوم کو حاصل کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 3673
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون , وعبدة بن سليمان . ح وحدثنا محمد بن رمح , انبانا الليث بن سعد جميعا , عن يحيى بن سعيد , عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم , عن عمرة , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" ما زال جبريل يوصيني بالجار , حتى ظننت انه سيورثه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ , أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ جَمِيعًا , عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ , عَنْ عَمْرَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ , حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبرائیل علیہ السلام برابر پڑوس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 28 (6014)، صحیح مسلم/البر والصلة 42 (2624)، سنن ابی داود/الأدب 132 (5151)، سنن الترمذی/البروالصلة 28 (1942)، (تحفة الأشراف: 17947)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/91، 125، 238) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: پڑوس کا حق بہت ہے، اگرچہ کافر ہو لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک ضروری ہے، اگر وہ کوئی چیز عاریتاً مانگے تو اس کو دے، اگر بھوکا ہو تو اپنے کھانے میں سے اس کو کھلائے، اگر اس کو قرض کی ضرورت ہو تو دے، بہر حال خوشی اور مصیبت دونوں میں اس کا شریک رہے، اور اس کی ہمدردی کرتا رہے اس میں دین اور دنیا دونوں کے فائدے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3674
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا وكيع , حدثنا يونس بن ابي إسحاق , عن مجاهد , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما زال جبرائيل يوصيني بالجار , حتى ظننت انه سيورثه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا زَالَ جِبْرَائِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ , حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل برابر پڑوسی کے بارے میں وصیت و تلقین کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ ہمسایہ کو وارث بنا دیں گے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14352، ومصباح الزجاجة: 1280)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/259، 305، 445، 514) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
5. بَابُ: حَقِّ الضَّيْفِ
5. باب: مہمان کے حق کا بیان۔
Chapter: The guest's rights
حدیث نمبر: 3675
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا سفيان بن عيينة , عن ابن عجلان , عن سعيد بن ابي سعيد , عن ابي شريح الخزاعي , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر , فليكرم ضيفه , وجائزته يوم وليلة , ولا يحل له ان يثوي عند صاحبه , حتى يحرجه الضيافة ثلاثة ايام , وما انفق عليه بعد ثلاثة ايام فهو صدقة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ , عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ , فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ , وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ , وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَ صَاحِبِهِ , حَتَّى يُحْرِجَهُ الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ , وَمَا أَنْفَقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فَهُوَ صَدَقَةٌ".
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اور ایک رات کی ہے، مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری (ضیافت) تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أنظر حدیث رقم: (3672) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3676
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح , انبانا الليث بن سعد , عن يزيد بن ابي حبيب , عن ابي الخير , عن عقبة بن عامر , انه قال: قلنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنك تبعثنا فننزل بقوم , فلا يقرونا فما ترى في ذلك , قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن نزلتم بقوم , فامروا لكم بما ينبغي للضيف فاقبلوا , وإن لم يفعلوا , فخذوا منهم حق الضيف الذي ينبغي لهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ , أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ , فَلَا يَقْرُونَا فَمَا تَرَى فِي ذَلِكَ , قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ , فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا , وَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا , فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، اور ہم ان کے پاس اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جب تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لیے ان چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو، اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لیے مناسب ہو ان سے وصول کر لو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 18 (2461)، الأدب 85 (6137)، صحیح مسلم/اللقطة 3 (1727)، سنن الترمذی/السیر 32 (1589)، سنن ابی داود/الأطعمة 5 (3752)، (تحفة الأشراف: 9954)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/149) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: جب میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کے عوض میں بقدر مہمانی کے میزبان سے نقد وصول کر سکتا ہے، اور یہ واجب مہمانی پہلی رات میں ہے کیونکہ رات میں مسافر کو نہ کھانا مل سکتا ہے نہ بازار معلوم ہوتا ہے، تو صاحب خانہ پر اس کے کھانے پینے کا انتظام کر دینا واجب ہے، بعض علماء کے نزدیک یہ وجوب اب بھی باقی ہے، جمہور کہتے ہیں کہ وجوب منسوخ ہوگیا، لیکن سنت ہونا اب بھی باقی ہے، تو ایک دن رات مہمانی کرنا سنت مؤکدہ ہے، یعنی ضروری ہے اور تین دن مستحب ہے، اور تین دن بعد پھر مہمانی نہیں، اب مہمان کو چاہئے کہ وہاں سے چلا جائے یا اپنے کھانے پینے کا انتظام خود کر ے، اور میزبان پر بوجھ نہ بنے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.