سنن ابن ماجه
كتاب الأدب
کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
5. بَابُ : حَقِّ الضَّيْفِ
باب: مہمان کے حق کا بیان۔
حدیث نمبر: 3675
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ , عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ , فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ , وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ , وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَ صَاحِبِهِ , حَتَّى يُحْرِجَهُ الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ , وَمَا أَنْفَقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فَهُوَ صَدَقَةٌ".
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اور ایک رات کی ہے، مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری (ضیافت) تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «أنظر حدیث رقم: (3672) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3675 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3675
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ایک دن رات تک مہمان کی خاطر تواضع کرنا ضروری ہے، تاہم یہ تکلف اپنی استطاعت کے مطابق ہی کرنا چاہیے۔
(2)
دوسرے اور تیسرے دن بھی مہمان کو کھانا کھلانا اور گھر میں ٹھہرانا اس کا حق ہے۔
(3)
مہمان کو چاہیے کہ تین دن سے زیادہ میزبان کے ہاں نہ ٹھہرے، البتہ اگر میزبان قریبی تعلق یا دوستی کی وجہ سے زیادہ ٹھہرنے میں تکلیف محسوس نہ کرے یا مزید ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو ٹھہرنا بھی درست ہے۔
(4)
تین دن سے زیادہ کسی کے ہاں مہمان بن کر کھانا اور ٹھہرنا اس طرح ہے جیسے صدقہ کھانا، اور خوشحال آدمی صدقہ کھانا پسند نہیں کرتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3675
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 460
´مہمان اور میزبانی کے آداب`
«. . . 416- وعن سعيد بن أبى سعيد المقبري عن أبى شريح الكعبي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة، والضيافة ثلاثة أيام، فما كان بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه.“ . . .»
”. . . سیدنا ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئیے کہ اپنے مہمان کا اکرام (عزت) کرے۔ مہمان کی بہترین دعوت ایک دن اور رات ہے اور ضیافت تین دن ہے۔ اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ میزبان کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرا رہے کہ میزبان تنگ ہو جائے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 460]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6135، من حديث مالك، ومسلم 48 بعد ح1762، من حديث سعيد المقبري به]
تفقه:
➊ پڑوسی کی عزت وتکریم ضروری ہے۔
➋ میزبان کے لئے مہمان کی احسن طریقے سے ضیافت تین دن تک ہے، اس کے بعد میزبان کو اختیار ہے۔
➌ اکرامِ ضیف (مہمان کی میزبانی اور عزت و احترام) کے موضوع پر حافظ ابواسحاق ابراہیم بن اسحاق الحربی رحمہ اللہ (متوفی 285ھ) نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ اپنی سند کے ساتھ ایک سو بتیس حدیثیں لائے ہیں۔
➍ حافظ ابن عبدالبر نے اس حدیث میں «جائزته» کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مہمان کی میزبانی واجب نہیں ہے۔ دیکھئے [التمهيد 21/42]
● اس کے مقابلے میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لیلة الضیف حق علیٰ کل مسلم فمن أصبح بفنائه فھو علیه دین إن شاء اقتضی وإن شاء ترك۔» میزبانی کی رات ہر مسلمان پر حق ہے پھر جو اس کے صحن میں رات گزارے تو گھر والے پر قرض ہے چاہے وہ اسے ادا کرے یا چھوڑ دے۔ [سنن ابي داود: 3750 وسنده صحيح]
یہی روایت [سنن ابن ماجه 3677 وسنده قوي] میں «ليلة الضيف واجبة۔» مہمانی کی رات واجب ہے، کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
➎ کسی دوسرے کے ہاں اتنے لمبے عرصے تک بطور مہمان قیام کرنا جائز نہیں کہ میزبان بیزار ہو جائے۔
➏ کتاب و سنت میں اعتدال اور میانہ روی کا درس ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 416
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3748
´ضیافت (مہمان نوازی) کا بیان۔`
ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہیئے، اس کا جائزہ ایک دن اور ایک رات ہے اور ضیافت تین دن تک ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے، اور اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے پاس اتنے عرصے تک قیام کرے کہ وہ اسے مشقت اور تنگی میں ڈال دے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبر دی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: امام مالک سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان «جائزته يوم وليلة» کے متعلق پوچھا گیا: ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3748]
فوائد ومسائل:
1۔
(جائزہ) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
کہ مہمان کے روانہ ہوتے وقت بھی اسے اس قدر دے کہ ایک دن رات کی مسافت آسانی سے طے ہوجائے۔
(فتح الباري: 6135)
2۔
مہمان کے لئے لازم ہے۔
کہ اپنے میزبان کے احوال کا خیال رکھے اور اسکے لئے اذیت یا مشقت کا باعث نہ بنے۔
3۔
میزبان اگر مطالبہ کرے یا کوئی اضطراری کیفیت ہو توتین دن سے زیادہ بھی ٹھر سکتا ہے۔
مگر یہ خدمت میزبان کی طرف سے صدقہ ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3748
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3672
´جوار (پڑوس) کے حق کا بیان۔`
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام اور اس کی خاطرداری کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3672]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نیک اعمال انجام دینا ایمان کا تقاضا ہے۔
(2)
پڑوسی کے ساتھ عام طور پر واسطہ پڑنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، لہٰذا اس کے ساتھ حسن سلوک کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے تاکہ لڑائی جھگڑا نہ ہو۔
(3)
کاروبار میں شراکت رکھنے ولا، بازار میں قریب کا دکاندار، تعلیمی ادارے میں ہم مکتب یا ہم جماعت، ہو سٹل میں ہم کمرہ یا اس عمارت میں رہائش پذیر طالب علم، ایک ہی کارخانے میں کام کرنے والے کارکن اور اس قسم کے دوسرے افراد بھی پڑوسی کے حکم میں ہیں۔
(4)
مہمان کی عزت کا مطلب اس کے لیے معمول سے بہتر کھانا تیار کرنا، اس کےآرام و راحت کا خیال رکھنا، اس کی آمد پر ناگوار ی کا اظہار نہ کرنا اور اس قسم کے دوسرے امور ہیں۔
(5)
بے سوچے سمجھے بات کرنے سے گناہ کی بات منہ سے نکل جاتی ہے، یا ایسی بات کہی جاتی ہے جس سے انسان بعد میں شرمندہ ہو تا ہے، اس لیے غیر ضروری گپ شپ سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(6)
زبان کی حفاظت کے نتیجے میں ذکر وتلاو ت وغیرہ کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3672
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1967
´مہمان نوازی کا ذکر اور اس کی مدت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اور کانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے“، صحابہ نے عرض کیا، مہمان کی عزت و تکریم اور آؤ بھگت کیا ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات، اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ صدقہ ہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے“ ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1967]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی کتنے دن تک اس کے لیے پرتکلف کھانابنایاجائے۔
2؎:
اس حدیث میں ضیافت اور مہمان نوازی سے متعلق اہم باتیں مذکور ہیں،
مہمان کی عزت و تکریم کا یہ مطلب ہے کہ خوشی سے اس کا استقبال کیاجائے،
اس کی مہمان نوازی کی جائے،
پہلے دن اور رات میں اس کے لیے پرتکلف کھانے کاانتظام کیا جائے،
مزید اس کے بعد تین دن تک معمول کے مطابق مہمان نوازی کی جائے،
اپنی زبان ذکر الٰہی،
توبہ و استغفار اور کلمہ خیر کے لیے وقف رکھے یا بے فائدہ فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے اسے خاموش رکھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1967
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:585
585- سیدنا ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جوشخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کر کے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت افزائی کرے“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:585]
فائدہ:
اس حدیث میں ہمسائے اور مہمان کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، جو ہمسائے اور مہمان کے حقوق ادا نہیں کرتا گویا وہ اللہ اور آخرت کے دن کا منکر ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 585
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:586
586-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسی کی مانند منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائدہیں۔ ”مہمان نوازی تین دن تک ہوتی ہے، جواس سے زیادہ ہوگی وہ صدقہ ہوگا۔مہمان کا اہتمام کے ساتھ کھانا ایک دن اور ایک رات کیا جاۓ گا اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے،وہ میزبان کے ہاں اتنا عرصہ مقیم رہے، کہ اسے حرج میں مبتلا کر دے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:586]
فائدہ:
اس حدیث میں ایسے مہمان کی مذمت بیان کی گئی ہے جو میزبان کے پاس اتنا رہے کہ میز بان تنگ آ جائے، تین دن تک مہمان کو کھانا کھلانا اس کا حق ہے، لیکن تکلفات میں نہیں پڑنا چاہیے، جو میسر ہو وہ پیش کر دینا چاہیے لیکن بعض لوگوں نے باتیں بنالی ہیں کہ مہمان کے لیے قرضہ بھی لینا پڑے تو لے لیں، یہ بات غلط ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 586
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 176
حضرت ابو شریح خزاعی ؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے، اور جو اللہ اور پچھلے دن پر یقین رکھتا ہے، تو وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے، اور جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموشی اختیا ر کرے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:176]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی اور آخرت میں کامیابی وکامرانی کے مطالبات میں سے چند ایک یہ ہیں:
(1)
انسان بات کرنے پہلے سوچے یعنی ”پہلے تولو پھر بولو“ کے اصول پر عمل پیرا ہو،
ہر وہ بات کرے تو اس کے لیے اجر وثواب اور اللہ کی رضا کا باعث ہو،
اور ہر اس گفتگو یا کلام سے باز رہے جو اس کی گرفت اور مواخذہ کا باعث ہو یا لغو،
بے مقصد،
فضول اور بے فائدہ یا لایعنی ہو۔
(2)
اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک اور بہتر برتاؤ کرے،
ہر اس حرکت قول وفعل سے باز رہے جو پڑوسی کےلیے تکلیف واذیت یا اس کی دل آزاری کا سبب بنتا ہو۔
میل ملاپ کے وقت خندہ پیشانی،
کشادہ روئی اور اعزاز واکرام سےپیش آئے۔
(3)
مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کہے اس کی حتی المقدور مہمان نوازی کرے اور اچھے انداز سے الوداع کہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 176
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4513
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو فرمائی تو میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی خاطر و مدارت کر کے اس کا احترام کرے۔“ صحابہ نے پوچھا، اس کا جائزہ (خاطر مدارت) کتنا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ایک دن، رات اور مہمانی تین دن ہے اور اس سے زائد دن اس پر صدقہ ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4513]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الجائزة:
عطیہ وتحفہ،
یعنی ایک دن رات اپنی وسعت،
مقدرت کے مطابق اس کے لیے اچھا کھانا پینا تیار کرے اور دوسرے،
تیسرے دن جو گھر میں پکتا ہے،
وہ پیش کرے،
اس کے بعد مرضی ہے،
اس کی مہمان نوازی کرے یانہ کرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4513
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4514
حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضیافت (مہمان نوازی) تین دن اور خاطر مدارات ایک دن رات ہے اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کے پاس اتنے دن ٹھہرے کہ اس کو گناہ گار کر دے۔“ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس کو گناہ گار کیسے کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پاس ٹھہر گیا ہے، حالانکہ اس کے پاس اس کی مہمان نوازی کے لیے کچھ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4514]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
کسی کے ہاں تین دن سے زیادہ ٹھہرنا درست نہیں ہے،
کیونکہ ممکن ہے اس کے پاس گنجائش نہ ہو کہ وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے،
کیونکہ اس کے پاس اس کی استطاعت نہیں یا اس کے معمولات میں خلل اندازی ہو سکتی ہے یا وہ مہمان کو وقت نہیں دے سکتا،
اس لیے کراہت سے اس کی مہمان نوازی کرتا ہے یا غیبت کرتا ہے کہ یہ جاتا ہی نہیں ہے،
لیکن اگر خود میزبان،
زیادہ ٹھہرنے پر اصرار کرتا ہے یا مہمان جانتا ہے،
میرا قیام ان کے لیے تنگی یا پریشانی کا باعث نہیں ہے،
بلکہ مسرت و شادمانی کا سبب ہے تو وہ زیادہ دیر ٹھہر سکتا ہے،
لیکن آج کل کے حالات کا تقاضا ہے کہ وہ کسی کے ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرے،
الا یہ کہ وہ خود تقاضا کریں اور خوش دلی سے اصرار کریں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4514
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6018
6018. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ اور کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6018]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایمان کا تقاضا ہے کہ پڑوسی کو دکھ نہ دیا جائے۔
مہمان کی عزت کی جائے، زبان کو قابو میں رکھا جائے، ورنہ ایمان کی خیر منانی چاہیئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6018
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6476
6476. حضرت ابو شریح خزاعی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ”مہمانی تین دن ہوتی ہے اور اس کا جائزہ بھی“ پوچھا گیا: اس کا جائز کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک دن رات“ اور فرمایا: ”جو کوئی اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6476]
حدیث حاشیہ:
(1)
شریعت میں زبان کی حفاظت کے متعلق بہت زور دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
“ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 10)
ایک دفعہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا:
”اے معاذ! تجھے تیری ماں گم پائے! لوگوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل ان کی زبان سے نکلی ہوئی بے معنی باتیں ہی گرائیں گی۔
“ (مسند أحمد: 237/2) (2)
آج بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جو بڑے بڑے گناہ وبا کی طرح عام ہیں اور جن سے محفوظ رہنے والے بہت کم ہیں ان کا تعلق زیادہ تر زبان ہی سے ہے۔
أعاذنا اللہ منھا
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6476