عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ اگر تین آدمی موجود ہوں تو تیسرے کو اکیلا چھوڑ کر دو آدمی باہم سرگوشی کریں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7177)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاستئذان 45 (6288)، صحیح مسلم/السلام 15 (2184)، سنن ابی داود/الأدب 29 (4851)، موطا امام مالک/الکلام 6 (14)، مسند احمد (1/425، 462، 464) (صحیح)»
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا: کیا آپ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ایک شخص مسجد میں تیر لے کر گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی پیکان (نوک و پھل) تھام لو“، انہوں نے کہا: ہاں (سنا ہے)۱؎۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا ابو اسامة , عن بريد , عن جده ابي بردة , عن ابي موسى , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا مر احدكم في مسجدنا او في سوقنا ومعه نبل , فليمسك على نصالها بكفه , ان تصيب احدا من المسلمين بشيء , او فليقبض على نصالها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ , عَنْ بُرَيْدٍ , عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ , عَنْ أَبِي مُوسَى , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَسْجِدِنَا أَوْ فِي سُوقِنَا وَمَعَهُ نَبْلٌ , فَلْيُمْسِكْ عَلَى نِصَالِهَا بِكَفِّهِ , أَنْ تُصِيبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِشَيْءٍ , أَوْ فَلْيَقْبِضْ عَلَى نِصَالِهَا".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص ہماری مسجد یا بازار میں سے ہو کر گزرے، اور اس کے ساتھ تیر ہو تو اس کی پیکان اپنی ہتھیلی سے پکڑے رہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کو اس کی نوک لگ جائے، (اور وہ زخمی ہو)، یا چاہیئے کہ وہ تیر کی پیکان اپنی مٹھی میں دبائے رہے“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن کے پڑھنے میں ماہر ہو، وہ معزز اور نیک سفراء (فرشتوں) کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہو اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہو تو اس کو دو گنا ثواب ہے“۱؎۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن والے (قرآن کی تلاوت کرنے والے سے، یا حافظ قرآن سے) سے جب وہ جنت میں داخل ہو گا کہا جائے گا: ”پڑھتا جا اور اوپر چڑھتا جا، تو وہ پڑھتا اور چڑھتا چلا جائے گا، وہ ہر آیت کے بدلے ایک درجہ ترقی کرتا چلا جائے گا، یہاں تک کہ جو اسے یاد ہو گا وہ سب پڑھ جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4226، ومصباح الزجاجة: 1320)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/40) (صحیح) (سند میں عطیہ العوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2240، صحیح أبی داود: 1317)»
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا وكيع , عن بشير بن مهاجر , عن ابن بريدة , عن ابيه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يجيء القرآن يوم القيامة كالرجل الشاحب , فيقول: انا الذي اسهرت ليلك , واظمات نهارك". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ بَشِيرِ بْنِ مُهَاجِرٍ , عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ , فَيَقُولُ: أَنَا الَّذِي أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ , وَأَظْمَأْتُ نَهَارَكَ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن قرآن ایک تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا، اور حافظ قرآن سے کہے گا کہ میں نے ہی تجھے رات کو جگائے رکھا، اور دن کو پیاسا رکھا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1953، ومصباح الزجاجة: 1321)، وقد أخرجہ: حم (5/348، 352، 361)، سنن الدارمی/فضائل القران 15 (3434) (حسن)» (سند میں بشیر بن مہاجر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2837)
وضاحت: ۱؎: یعنی دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو قرآن پڑھتا یا قرآن سنتا تھا پس سننے والوں کو بھی ایسا ہی کہے گا۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , وعلي بن محمد , قالا: حدثنا وكيع , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايحب احدكم إذا رجع إلى اهله , ان يجد فيه ثلاث خلفات عظام سمان"، قلنا: نعم , قال:" فثلاث آيات يقرؤهن احدكم في صلاته , خير له من ثلاث خلفات سمان عظام". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ , أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ"، قُلْنَا: نَعَمْ , قَالَ:" فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَؤُهُنَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ , خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ سِمَانٍ عِظَامٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر جائے تو اسے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیاں گھر پر بندھی ہوئی ملیں“؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں (کیوں نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں تین آیتیں پڑھتا ہے، تو یہ اس کے لیے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیوں سے افضل ہیں“۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن الازهر , حدثنا عبد الرزاق , انبانا معمر , عن ايوب , عن نافع , عن ابن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مثل القرآن مثل الإبل المعقلة , إن تعاهدها صاحبها بعقلها امسكها عليه , وإن اطلق عقلها ذهبت". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْقُرْآنِ مَثَلُ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ , إِنْ تَعَاهَدَهَا صَاحِبُهَا بِعُقُلِهَا أَمْسَكَهَا عَلَيْهِ , وَإِنْ أَطْلَقَ عُقُلَهَا ذَهَبَتْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جب تک مالک اسے باندھ کر دیکھ بھال کرتا رہے گا تب تک وہ قبضہ میں رکھے گا، اور جب اس کی رسی کھول دے گا تو وہ بھاگ جائے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لیے حافظ قرآن کو چاہئے کہ وہ پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہے، کیونکہ اگر وہ اسے پڑھنا ترک کر دے گا، تو بھول جائے گا پھر اس کی ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔
(قدسي) حدثنا ابو مروان محمد بن عثمان العثماني , حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , عن العلاء بن عبد الرحمن , عن ابيه , عن ابي هريرة , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" قال الله عز وجل: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي شطرين , فنصفها لي , ونصفها لعبدي , ولعبدي ما سال" , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرءوا: يقول العبد: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 فيقول الله عز وجل: حمدني عبدي , ولعبدي ما سال , فيقول: الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 3 , فيقول: اثنى علي عبدي , ولعبدي ما سال , يقول: مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4 , فيقول الله: مجدني عبدي , فهذا لي , وهذه الآية بيني وبين عبدي نصفين , يقول العبد: إياك نعبد وإياك نستعين سورة الفاتحة آية 5 , يعني: فهذه بيني وبين عبدي , ولعبدي ما سال , وآخر السورة لعبدي , يقول العبد: اهدنا الصراط المستقيم {6} صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين {7} سورة الفاتحة آية 6-7 , فهذا لعبدي , ولعبدي ما سال". (قدسي) حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي شَطْرَيْنِ , فَنِصْفُهَا لِي , وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ" , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَءُوا: يَقُولُ الْعَبْدُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ , فَيَقُولُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3 , فَيَقُولُ: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ , يَقُولُ: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 , فَيَقُولُ اللَّهُ: مَجَّدَنِي عَبْدِي , فَهَذَا لِي , وَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ , يَقُولُ الْعَبْدُ: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سورة الفاتحة آية 5 , يَعْنِي: فَهَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ , وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي , يَقُولُ الْعَبْدُ: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ {6} صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ {7} سورة الفاتحة آية 6-7 , فَهَذَا لِعَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، آدھا میرے لیے ہے، اور آدھا میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پڑھو!، جب بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «حمدني عبدي ولعبدي ما سأل» میرے بندے نے میری حمد ثنا بیان کی، اور بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور جب بندہ «الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «أثنى علي عبدي ولعبدي ما سأل» میرے بندے نے میری تعریف کی، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر جب بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «مجدني عبدي فهذا لي وهذه الآية بيني وبين عبدي نصفين» میرے بندے نے میری عظمت بیان کی تو یہ میرے لیے ہے، اور یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، یعنی پھر جب بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «فهذه بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل وآخر السورة لعبدي» یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور سورت کی اخیر آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، پھر جب بندہ «اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: «فهذا لعبدي ولعبدي ما سأل» یہ میرے بندہ کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا غندر , عن شعبة , عن خبيب بن عبد الرحمن , عن حفص بن عاصم , عن ابي سعيد بن المعلى , قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا اعلمك اعظم سورة في القرآن قبل ان اخرج من المسجد؟" , قال: فذهب النبي صلى الله عليه وسلم ليخرج , فاذكرته , فقال:" الحمد لله رب العالمين وهي السبع المثاني , والقرآن العظيم الذي اوتيته". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى , قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ؟" , قَالَ: فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ , فَأَذْكَرْتُهُ , فَقَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي , وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ".
ابوسعید بن معلّیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”کیا میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں وہ سورت نہ سکھاؤں جو قرآن مجید میں سب سے عظیم سورت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ سورت «الحمد لله رب العالمين» ہے جو سبع مثانی ہے، اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے عطا کیا گیا ہے“۔