سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ضیافت کی اور آپ کے لیے کھانا تیار کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کاش ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناول فرماتے، چنانچہ لوگوں نے آپ کو بھی مدعو کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے اپنے ہاتھ دروازے کے دونوں بازو پر رکھے، تو آپ کی نظر گھر کے ایک گوشے میں ایک باریک منقش پردے پر پڑی، آپ لوٹ آئے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: جائیے اور پوچھئے: اللہ کے رسول! آپ کیوں واپس آ گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے لیے مناسب نہیں کہ میں ایسے گھر میں قدم رکھوں جس میں آرائش و تزئیین کی گئی ہو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 8 (3755)، (تحفة الأشراف: 4483)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/220، 221، 222) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «مزوق» کا لفظ آیا ہے یعنی آرائش و تزیین، بعضوں نے کہا کہ «مزوق» کے معنی یہ ہیں کہ سونا چڑھا ہوا، یعنی جس گھر کی چھت یا دیوار پر طلائی نقرئی کام ہو یا قیمتی پردے لٹکے ہوں۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب , حدثنا يحيى بن عبد الرحمن الارحبي , حدثنا يونس بن ابي اليعفور , عن ابيه , عن ابن عمر , قال: دخل عليه عمر وهو على مائدته , فاوسع له عن صدر المجلس , فقال: بسم الله , ثم ضرب بيده فلقم لقمة , ثم ثنى باخرى , ثم قال: إني لاجد طعم دسم ما هو بدسم اللحم , فقال عبد الله: يا امير المؤمنين , إني خرجت إلى السوق اطلب السمين لاشتريه فوجدته غاليا , فاشتريت بدرهم من المهزول وحملت عليه بدرهم سمنا , فاردت ان يتردد عيالي عظما عظما , فقال عمر :" ما اجتمعا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم قط , إلا اكل احدهما , وتصدق بالآخر" , قال عبد الله: خذ يا امير المؤمنين , فلن يجتمعا عندي , إلا فعلت ذلك , قال:" ما كنت لافعل". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَرْحَبِيُّ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي الْيَعْفُورِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: دَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ وَهُوَ عَلَى مَائِدَتِهِ , فَأَوْسَعَ لَهُ عَنْ صَدْرِ الْمَجْلِسِ , فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ فَلَقِمَ لُقْمَةً , ثُمَّ ثَنَّى بِأُخْرَى , ثُمّ قَالَ: إِنِّي لَأَجِدُ طَعْمَ دَسَمٍ مَا هُوَ بِدَسَمِ اللَّحْمِ , فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , إِنِّي خَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ أَطْلُبُ السَّمِينَ لِأَشْتَرِيَهُ فَوَجَدْتُهُ غَالِيًا , فَاشْتَرَيْتُ بِدِرْهَمٍ مِنَ الْمَهْزُولِ وَحَمَلْتُ عَلَيْهِ بِدِرْهَمٍ سَمْنًا , فَأَرَدْتُ أَنْ يَتَرَدَّدَ عِيَالِي عَظْمًا عَظْمًا , فَقَالَ عُمَرُ :" مَا اجْتَمَعَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ , إِلَّا أَكَلَ أَحَدَهُمَا , وَتَصَدَّقَ بِالْآخَرِ" , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: خُذْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , فَلَنْ يَجْتَمِعَا عِنْدِي , إِلَّا فَعَلْتُ ذَلِكَ , قَالَ:" مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور وہ اس وقت دستر خوان پر تھے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مجلس کے درمیان میں جگہ بنائی، عمر رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ کہا، پھر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا، اور ایک لقمہ لیا، پھر دوسرا لقمہ لیا، پھر کہا: مجھے اس میں چکنائی کا ذائقہ مل رہا ہے، اور یہ چکنائی گوشت کی چربی نہیں ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اے امیر المؤمنین! میں فربہ گوشت کی تلاش میں بازار نکلا تاکہ اسے خریدوں، لیکن میں نے اسے مہنگا پایا تو ایک درہم میں دبلا گوشت خرید لیا، اور ایک درہم کا گھی خرید کر اس میں ملا دیا، اس سے میرا مقصد یہ تھا کہ ایک ایک ہڈی میرے تمام گھر والوں کے حصے میں آ جائے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ دونوں چیزیں بیک وقت اکٹھا ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کھا لی، اور دوسری صدقہ کر دی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! اب تو اسے کھا لیجئیے پھر جب کبھی میرے پاس یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہوں گی میں بھی ایسا ہی کروں گا، عمر رضی اللہ عنہ بولے: میں اسے کھانے والا نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10579، ومصباح الزجاجة: 1164)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/220، 221، 222) (ضعیف)» (یونس بن أبی یعفور ضعیف را وی ہے)
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سالن پکاؤ تو اس میں شوربا بڑھا لو، اور اس میں سے ایک ایک چمچہ پڑوسیوں کو بھجوا دو“۔
معدان بن أبی طلحہ یعمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا: لوگو! تم دو ایسے پودے کھاتے ہو جو میرے نزدیک خبیث ہیں: ایک لہسن، دوسرا پیاز، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دیکھا کہ جس شخص کے منہ سے ان کی بو آتی اس کا ہاتھ پکڑ کر بقیع تک لے جا کر چھوڑا جاتا، تو جس کو لہسن، پیاز کھانا ہی ہو وہ انہیں پکا کر ان کی بو مار دے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کچا نہ کھائے چونکہ کچے میں بو ہوتی ہے، پکانے سے بو کم ہو جاتی ہے، یا بالکل ختم ہو جاتی ہے، گرچہ پیاز اور لہسن حرام نہیں ہے مگر رسول اکرم ﷺ ان کو برا جانتے تھے، اور نہیں کھاتے تھے اس وجہ سے کہ آپ ﷺ پر وحی آتی، اور فرشتوں کو اس کی بونا گوار ہوتی، اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ کچا نہ کھائیں اگر کچا ئیں کھائیں تو ان کو کھا کر مسجد میں نہ جائیں تاکہ دوسرے مسلمانوں کو تکلیف نہ ہو۔
ام ایوب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا، اس میں کچھ سبزیاں (پیاز اور لہسن) پڑی تھیں، آپ نے اسے نہیں کھایا، اور فرمایا: ”مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں (اس کی بو سے) اپنے ساتھی (جبرائیل علیہ السلام) کو تکلیف پہنچاؤں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: فتح الباری میں ہے کہ پیاز اور لہسن اور گندنا حلال ہیں، لیکن جو کوئی ان کو کھائے اس کو مسجد میں جانا مکروہ ہے، اور فقہاء نے مُولی کو بھی ان کی مثل سمجھا ہے، اور جس ترکاری میں بری بو ہو وہ اس کی مثل ہے، اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ کراہت تنزیہی ہے۔ اور بیڑی سگریٹ، سگار وغیرہ کے پینے والوں یا تمباکو کھانے والوں کے منہ بھی عموما ً بدبو کرتے ہیں، جس سے لوگوں کو مسجد اور مسجد سے باہر اذیت اور تکلیف ہوتی ہے، اس لیے اس سے بھی احتیاط ضروری ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کو ان کی جانب سے گندنے کی بو محسوس ہوئی تو فرمایا: ”کیا میں نے تمہیں اس پودے کو کھانے سے نہیں روکا تھا؟ یقیناً فرشتوں کے لیے وہ چیزیں باعث اذیت ہوتی ہیں، جو انسان کے لیے باعث اذیت ہیں“۔
دخین حجری سے روایت ہے کہا انہوں نے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”پیاز مت کھاؤ،، پھر ایک لفظ آہستہ سے کہا: ”کچی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9925، ومصباح الزجاجة: 1165) (صحیح)» (سند میں عثمان ا ور مغیرہ دونوں مجہول ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، آخری جملہ «ثم قال كلمة خفية: النيئ» ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2389)
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ثم قال
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عثمان بن نعيم والمغيرة بن نهيك: مجهولان (تقريب: 4523،6853) وابن لهيعة عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/اللباس 6 (1726)، (تحفة الأشراف: 4496) (حسن)» (سند میں ہارون ضعیف ہے، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: 428)
وضاحت: ۱؎: یعنی حلال ہے اس کے کھانے میں کچھ مواخذہ نہیں، کیونکہ حلال سیکڑوں چیزیں ہیں، ان سب کا بیان کرنا دشوار تھا، اس لئے جو چیزیں حرام تھیں ان کو قرآن اور حدیث میں بیان کر دیا گیا، اسی طرح وہ چیزیں جو حلال تھیں لیکن مشرکین جہالت سے ان کو حرام سمجھتے تھے، انہیں بھی بیان کر دیا گیا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1726) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طائف سے انگور ہدیہ میں آئے، آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا: ”یہ خوشہ لو اور اپنی ماں کو پہنچا دو“، میں نے وہ خوشہ ماں تک پہنچانے سے پہلے ہی کھا لیا، جب چند روز ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”خوشے کا کیا ہوا؟ کیا تم نے اسے اپنی ماں کو دیا“؟ میں نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام (محبت و مزاح سے)”دغا باز“ رکھ دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11633، ومصباح الزجاجة: 1166) (ضعیف)» (اس کی سند میں عبدالرحمن بن عرق مقبول راوی ہیں، جن کا کوئی متابع نہیں اس لئے وہ لین الحدیث ہیں، اور اس کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد الرحمٰن بن عرق:مجهول (التحرير: 3951) لم يوثقه غير ابن حبان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498
طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کے ہاتھ میں بہی (سفرجل)۱؎ تھا، آپ نے مجھ سے فرمایا: ”طلحہ! اسے لے لو، یہ دل کے لیے راحت بخش ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5004، ومصباح الزجاجة: 1167) (ضعیف الإسناد)» (سند میں نقیب بن حاجب، ابو سعید اور عبدالملک سب مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: بہی اور سیب دونوں دل کے لئے مقوی اور دل کی دھڑکن دور کرنے میں مفید ہیں، اگرچہ حدیث ضعیف ہے، مگر یہ دونوں گرم مزاج والوں کے لئے مفید ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف نقيب بن حاجب و أبو سعيد و عبدالملك الزبيري:مجهولون (تقريب: 7185،8134،4230) وللحديث شواهد ضعيفة في العلل المتناهية (165/2،166) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498