سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Food
حدیث نمبر: 3360
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله الجزري , حدثنا عفان بن مسلم , حدثنا حماد بن سلمة , حدثنا سعيد بن جمهان , حدثنا سفينة ابو عبد الرحمن , ان رجلا اضاف علي بن ابي طالب , فصنع له طعاما , فقالت فاطمة : لو دعونا النبي صلى الله عليه وسلم فاكل معنا , فدعوه فجاء , فوضع يده على عضادتي الباب , فراى قراما في ناحية البيت , فرجع , فقالت فاطمة لعلي: الحق فقل له: ما رجعك يا رسول الله , قال:" إنه ليس لي ان ادخل بيتا مزوقا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْجَزَرِيُّ , حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ , حَدَّثَنَا سَفِينَةُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّ رَجُلًا أَضَافَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ : لَوْ دَعَوْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ مَعَنَا , فَدَعَوْهُ فَجَاءَ , فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى عِضَادَتَيِ الْبَابِ , فَرَأَى قِرَامًا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ , فَرَجَعَ , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ لِعَلِيٍّ: الْحَقْ فَقُلْ لَهُ: مَا رَجَعَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ لِي أَنْ أَدْخُلَ بَيْتًا مُزَوَّقًا".
سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ضیافت کی اور آپ کے لیے کھانا تیار کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کاش ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناول فرماتے، چنانچہ لوگوں نے آپ کو بھی مدعو کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے اپنے ہاتھ دروازے کے دونوں بازو پر رکھے، تو آپ کی نظر گھر کے ایک گوشے میں ایک باریک منقش پردے پر پڑی، آپ لوٹ آئے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: جائیے اور پوچھئے: اللہ کے رسول! آپ کیوں واپس آ گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے لیے مناسب نہیں کہ میں ایسے گھر میں قدم رکھوں جس میں آرائش و تزئیین کی گئی ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الأطعمة 8 (3755)، (تحفة الأشراف: 4483)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/220، 221، 222) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث میں «مزوق» کا لفظ آیا ہے یعنی آرائش و تزیین، بعضوں نے کہا کہ «مزوق» کے معنی یہ ہیں کہ سونا چڑھا ہوا، یعنی جس گھر کی چھت یا دیوار پر طلائی نقرئی کام ہو یا قیمتی پردے لٹکے ہوں۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
57. بَابُ: الْجَمْعِ بَيْنَ السَّمْنِ وَاللَّحْمِ
57. باب: گھی اور گوشت ملا کر کھانے کا بیان۔
Chapter: Ghee and meat together
حدیث نمبر: 3361
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب , حدثنا يحيى بن عبد الرحمن الارحبي , حدثنا يونس بن ابي اليعفور , عن ابيه , عن ابن عمر , قال: دخل عليه عمر وهو على مائدته , فاوسع له عن صدر المجلس , فقال: بسم الله , ثم ضرب بيده فلقم لقمة , ثم ثنى باخرى , ثم قال: إني لاجد طعم دسم ما هو بدسم اللحم , فقال عبد الله: يا امير المؤمنين , إني خرجت إلى السوق اطلب السمين لاشتريه فوجدته غاليا , فاشتريت بدرهم من المهزول وحملت عليه بدرهم سمنا , فاردت ان يتردد عيالي عظما عظما , فقال عمر :" ما اجتمعا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم قط , إلا اكل احدهما , وتصدق بالآخر" , قال عبد الله: خذ يا امير المؤمنين , فلن يجتمعا عندي , إلا فعلت ذلك , قال:" ما كنت لافعل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَرْحَبِيُّ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي الْيَعْفُورِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: دَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ وَهُوَ عَلَى مَائِدَتِهِ , فَأَوْسَعَ لَهُ عَنْ صَدْرِ الْمَجْلِسِ , فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ فَلَقِمَ لُقْمَةً , ثُمَّ ثَنَّى بِأُخْرَى , ثُمّ قَالَ: إِنِّي لَأَجِدُ طَعْمَ دَسَمٍ مَا هُوَ بِدَسَمِ اللَّحْمِ , فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , إِنِّي خَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ أَطْلُبُ السَّمِينَ لِأَشْتَرِيَهُ فَوَجَدْتُهُ غَالِيًا , فَاشْتَرَيْتُ بِدِرْهَمٍ مِنَ الْمَهْزُولِ وَحَمَلْتُ عَلَيْهِ بِدِرْهَمٍ سَمْنًا , فَأَرَدْتُ أَنْ يَتَرَدَّدَ عِيَالِي عَظْمًا عَظْمًا , فَقَالَ عُمَرُ :" مَا اجْتَمَعَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ , إِلَّا أَكَلَ أَحَدَهُمَا , وَتَصَدَّقَ بِالْآخَرِ" , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: خُذْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , فَلَنْ يَجْتَمِعَا عِنْدِي , إِلَّا فَعَلْتُ ذَلِكَ , قَالَ:" مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور وہ اس وقت دستر خوان پر تھے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مجلس کے درمیان میں جگہ بنائی، عمر رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ کہا، پھر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا، اور ایک لقمہ لیا، پھر دوسرا لقمہ لیا، پھر کہا: مجھے اس میں چکنائی کا ذائقہ مل رہا ہے، اور یہ چکنائی گوشت کی چربی نہیں ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اے امیر المؤمنین! میں فربہ گوشت کی تلاش میں بازار نکلا تاکہ اسے خریدوں، لیکن میں نے اسے مہنگا پایا تو ایک درہم میں دبلا گوشت خرید لیا، اور ایک درہم کا گھی خرید کر اس میں ملا دیا، اس سے میرا مقصد یہ تھا کہ ایک ایک ہڈی میرے تمام گھر والوں کے حصے میں آ جائے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ دونوں چیزیں بیک وقت اکٹھا ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کھا لی، اور دوسری صدقہ کر دی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! اب تو اسے کھا لیجئیے پھر جب کبھی میرے پاس یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہوں گی میں بھی ایسا ہی کروں گا، عمر رضی اللہ عنہ بولے: میں اسے کھانے والا نہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10579، ومصباح الزجاجة: 1164)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/220، 221، 222) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یونس بن أبی یعفور ضعیف را وی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
58. بَابُ: مَنْ طَبَخَ فَلْيُكْثِرْ مَاءَهُ
58. باب: سالن پکاتے وقت شوربا میں پانی زیادہ کر دینے کا بیان۔
Chapter: Whoever cooks, let him add more water
حدیث نمبر: 3362
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا عثمان بن عمر , حدثنا ابو عامر الخزاز , عن ابي عمران الجوني , عن عبد الله بن الصامت , عن ابي ذر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا عملت مرقة , فاكثر ماءها واغترف لجيرانك منها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ , عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ , عَنْ أَبِي ذَرٍّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا عَمِلْتَ مَرَقَةً , فَأَكْثِرْ مَاءَهَا وَاغْتَرِفْ لِجِيرَانِكَ مِنْهَا".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سالن پکاؤ تو اس میں شوربا بڑھا لو، اور اس میں سے ایک ایک چمچہ پڑوسیوں کو بھجوا دو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر 42 (2625)، سنن الترمذی/الأطعمة 30 (1833)، (تحفة الأشراف: 11951)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/161، 171)، سنن الدارمی/الأطعمة 37 (2124) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
59. بَابُ: أَكْلِ الثُّومِ وَالْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ
59. باب: لہسن، پیاز اور گندنا کھانے کا بیان۔
Chapter: Eating garlic, onions and leeks
حدیث نمبر: 3363
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا إسماعيل بن علية , عن سعيد بن ابي عروبة , عن قتادة , عن سالم بن ابي الجعد الغطفاني , عن معدان بن ابي طلحة اليعمري , ان عمر بن الخطاب قام يوم الجمعة خطيبا , فحمد الله واثنى عليه , ثم قال:" يا ايها الناس , إنكم تاكلون شجرتين لا اراهما إلا خبيثتين: هذا الثوم وهذا البصل , ولقد كنت ارى الرجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوجد ريحه منه , فيؤخذ بيده حتى يخرج به إلى البقيع , فمن كان آكلهما لا بد فليمتهما طبخا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ , عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ خَطِيبًا , فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ: هَذَا الثُّومُ وَهَذَا الْبَصَلُ , وَلَقَدْ كُنْتُ أَرَى الرَّجُلَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوجَدُ رِيحُهُ مِنْهُ , فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ حَتَّى يُخْرَجَ بِهِ إِلَى الْبَقِيعِ , فَمَنْ كَانَ آكِلَهُمَا لَا بُدَّ فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا".
معدان بن أبی طلحہ یعمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا: لوگو! تم دو ایسے پودے کھاتے ہو جو میرے نزدیک خبیث ہیں: ایک لہسن، دوسرا پیاز، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دیکھا کہ جس شخص کے منہ سے ان کی بو آتی اس کا ہاتھ پکڑ کر بقیع تک لے جا کر چھوڑا جاتا، تو جس کو لہسن، پیاز کھانا ہی ہو وہ انہیں پکا کر ان کی بو مار دے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 17 (567)، (تحفة الأشراف: 10646)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/15، 49، 26، 27، 48، 4/19، 26، 27، 48) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی کچا نہ کھائے چونکہ کچے میں بو ہوتی ہے، پکانے سے بو کم ہو جاتی ہے، یا بالکل ختم ہو جاتی ہے، گرچہ پیاز اور لہسن حرام نہیں ہے مگر رسول اکرم ﷺ ان کو برا جانتے تھے، اور نہیں کھاتے تھے اس وجہ سے کہ آپ ﷺ پر وحی آتی، اور فرشتوں کو اس کی بونا گوار ہوتی، اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ کچا نہ کھائیں اگر کچا ئیں کھائیں تو ان کو کھا کر مسجد میں نہ جائیں تاکہ دوسرے مسلمانوں کو تکلیف نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3364
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا سفيان بن عيينة , عن عبيد الله بن ابي يزيد , عن ابيه , عن ام ايوب , قالت: صنعت للنبي صلى الله عليه وسلم طعاما فيه من بعض البقول , فلم ياكل , وقال:" إني اكره ان اوذي صاحبي".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أُمِّ أَيُّوبَ , قَالَتْ: صَنَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فِيهِ مِنْ بَعْضِ الْبُقُولِ , فَلَمْ يَأْكُلْ , وَقَالَ:" إِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُوذِيَ صَاحِبِي".
ام ایوب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا، اس میں کچھ سبزیاں (پیاز اور لہسن) پڑی تھیں، آپ نے اسے نہیں کھایا، اور فرمایا: مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں (اس کی بو سے) اپنے ساتھی (جبرائیل علیہ السلام) کو تکلیف پہنچاؤں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأطعمة 14 (1810)، (تحفة الأشراف: 18304)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/433، 462)، سنن الدارمی/الأطعمة 21 (2098) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: 504).» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: فتح الباری میں ہے کہ پیاز اور لہسن اور گندنا حلال ہیں، لیکن جو کوئی ان کو کھائے اس کو مسجد میں جانا مکروہ ہے، اور فقہاء نے مُولی کو بھی ان کی مثل سمجھا ہے، اور جس ترکاری میں بری بو ہو وہ اس کی مثل ہے، اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ کراہت تنزیہی ہے۔ اور بیڑی سگریٹ، سگار وغیرہ کے پینے والوں یا تمباکو کھانے والوں کے منہ بھی عموما ً بدبو کرتے ہیں، جس سے لوگوں کو مسجد اور مسجد سے باہر اذیت اور تکلیف ہوتی ہے، اس لیے اس سے بھی احتیاط ضروری ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3365
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حرملة بن يحيى , حدثنا عبد الله بن وهب , انبانا ابو شريح , عن عبد الرحمن بن نمران الحجري , عن ابي الزبير , عن جابر , ان نفرا اتوا النبي صلى الله عليه وسلم فوجد منهم ريح الكراث , فقال:" الم اكن نهيتكم عن اكل هذه الشجرة , إن الملائكة تتاذى مما يتاذى منه الإنسان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ , أَنْبَأَنَا أَبُو شُرَيْحٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نِمْرَانَ الْحَجْرِيِّ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , أَنَّ نَفَرًا أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ مِنْهُمْ رِيحِ الْكُرَّاثِ , فَقَالَ:" أَلَمْ أَكُنْ نَهَيْتُكُمْ عَنْ أَكْلِ هَذِهِ الشَّجَرَةِ , إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسَانُ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کو ان کی جانب سے گندنے کی بو محسوس ہوئی تو فرمایا: کیا میں نے تمہیں اس پودے کو کھانے سے نہیں روکا تھا؟ یقیناً فرشتوں کے لیے وہ چیزیں باعث اذیت ہوتی ہیں، جو انسان کے لیے باعث اذیت ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 787)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 160 (854، 855)، الأطعمة 49 (5452)، الاعتصام 24 (7359)، صحیح مسلم/المساجد 17 (564)، سنن ابی داود/الأطعمة 41 (3822)، سنن الترمذی/الأطعمة 13 (1806)، سنن النسائی/المساجد 16 (708)، مسند احمد (3/374، 387) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3366
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حرملة بن يحيى , حدثنا عبد الله بن وهب , اخبرني ابن لهيعة , عن عثمان بن نعيم , عن المغيرة بن نهيك , عن دخين الحجري , انه سمع عقبة بن عامر الجهني , يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال لاصحابه:" لا تاكلوا البصل" , ثم قال كلمة خفية:" النيء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يُحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ , أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ عُثْمَانَ بْنِ نُعَيْمٍ , عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ نَهِيكٍ , عَنْ دُخَيْنٍ الْحَجْرِيِّ , أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ , يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لِأَصْحَابِهِ:" لَا تَأْكُلُوا الْبَصَلَ" , ثُمَّ قَالَ كَلِمَةً خَفِيَّةً:" النِّيءَ".
دخین حجری سے روایت ہے کہا انہوں نے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: پیاز مت کھاؤ،، پھر ایک لفظ آہستہ سے کہا: کچی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9925، ومصباح الزجاجة: 1165) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں عثمان ا ور مغیرہ دونوں مجہول ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، آخری جملہ «ثم قال كلمة خفية: النيئ» ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2389)

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ثم قال

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عثمان بن نعيم والمغيرة بن نهيك: مجهولان (تقريب: 4523،6853) وابن لهيعة عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498
60. بَابُ: أَكْلِ الْجُبْنِ وَالسَّمْنِ
60. باب: پنیر اور گھی کھانے کا بیان۔
Chapter: Eating cheese and ghee
حدیث نمبر: 3367
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى السدي , حدثنا سيف بن هارون , عن سليمان التيمي , عن ابي عثمان النهدي , عن سلمان الفارسي , قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء , قال:" الحلال ما احل الله في كتابه , والحرام ما حرم الله في كتابه , وما سكت عنه فهو مما عفا عنه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ , حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ , قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ , قَالَ:" الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ , وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ , وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ".
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/اللباس 6 (1726)، (تحفة الأشراف: 4496) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ہارون ضعیف ہے، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: 428)

وضاحت:
۱؎: یعنی حلال ہے اس کے کھانے میں کچھ مواخذہ نہیں، کیونکہ حلال سیکڑوں چیزیں ہیں، ان سب کا بیان کرنا دشوار تھا، اس لئے جو چیزیں حرام تھیں ان کو قرآن اور حدیث میں بیان کر دیا گیا، اسی طرح وہ چیزیں جو حلال تھیں لیکن مشرکین جہالت سے ان کو حرام سمجھتے تھے، انہیں بھی بیان کر دیا گیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1726)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498
61. بَابُ: أَكْلِ الثِّمَارِ
61. باب: پھل اور میوہ کھانے کا بیان۔
Chapter: Eating fruits
حدیث نمبر: 3368
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي , حدثنا ابي , حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن عرق , عن ابيه , عن النعمان بن بشير , قال: اهدي للنبي صلى الله عليه وسلم عنب من الطائف فدعاني , فقال:" خذ هذا العنقود , فابلغه امك" , فاكلته قبل ان ابلغه إياها , فلما كان بعد ليال , قال لي:" ما فعل العنقود؟ هل ابلغته امك؟" , قلت: لا , فسماني غدر.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ , حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عِرْقٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ , قَالَ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنَبٌ مِنْ الطَّائِفِ فَدَعَانِي , فَقَالَ:" خُذْ هَذَا الْعُنْقُودَ , فَأَبْلِغْهُ أُمَّكَ" , فَأَكَلْتُهُ قَبْلَ أَنْ أُبْلِغَهُ إِيَّاهَا , فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ لَيَالٍ , قَالَ لِي:" مَا فَعَلَ الْعُنْقُودُ؟ هَلْ أَبْلَغْتَهُ أُمَّكَ؟" , قُلْتُ: لَا , فَسَمَّانِي غُدَرَ.
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طائف سے انگور ہدیہ میں آئے، آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا: یہ خوشہ لو اور اپنی ماں کو پہنچا دو، میں نے وہ خوشہ ماں تک پہنچانے سے پہلے ہی کھا لیا، جب چند روز ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: خوشے کا کیا ہوا؟ کیا تم نے اسے اپنی ماں کو دیا؟ میں نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام (محبت و مزاح سے) دغا باز رکھ دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11633، ومصباح الزجاجة: 1166) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں عبدالرحمن بن عرق مقبول راوی ہیں، جن کا کوئی متابع نہیں اس لئے وہ لین الحدیث ہیں، اور اس کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عبد الرحمٰن بن عرق:مجهول (التحرير: 3951) لم يوثقه غير ابن حبان
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498
حدیث نمبر: 3369
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن محمد الطلحي , حدثنا نقيب بن حاجب , عن ابي سعيد , عن عبد الملك الزبيري , عن طلحة , قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وبيده سفرجلة , فقال:" دونكها يا طلحة فإنها تجم الفؤاد".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّلْحِيُّ , حَدَّثَنَا نُقَيْبُ بْنُ حَاجِبٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ الزُّبَيْرِيِّ , عَنْ طَلْحَةَ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِيَدِهِ سَفَرْجَلَةٌ , فَقَالَ:" دُونَكَهَا يَا طَلْحَةُ فَإِنَّهَا تُجِمُّ الْفُؤَادَ".
طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کے ہاتھ میں بہی (سفرجل) ۱؎ تھا، آپ نے مجھ سے فرمایا: طلحہ! اسے لے لو، یہ دل کے لیے راحت بخش ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5004، ومصباح الزجاجة: 1167) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (سند میں نقیب بن حاجب، ابو سعید اور عبدالملک سب مجہول ہیں)

وضاحت:
۱؎: بہی اور سیب دونوں دل کے لئے مقوی اور دل کی دھڑکن دور کرنے میں مفید ہیں، اگرچہ حدیث ضعیف ہے، مگر یہ دونوں گرم مزاج والوں کے لئے مفید ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
نقيب بن حاجب و أبو سعيد و عبدالملك الزبيري:مجهولون (تقريب: 7185،8134،4230)
وللحديث شواهد ضعيفة في العلل المتناهية (165/2،166)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498

Previous    8    9    10    11    12    13    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.