سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Food
60. بَابُ : أَكْلِ الْجُبْنِ وَالسَّمْنِ
60. باب: پنیر اور گھی کھانے کا بیان۔
Chapter: Eating cheese and ghee
حدیث نمبر: 3367
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى السدي , حدثنا سيف بن هارون , عن سليمان التيمي , عن ابي عثمان النهدي , عن سلمان الفارسي , قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء , قال:" الحلال ما احل الله في كتابه , والحرام ما حرم الله في كتابه , وما سكت عنه فهو مما عفا عنه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ , حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ , قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ , قَالَ:" الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ , وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ , وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ".
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: یعنی حلال ہے اس کے کھانے میں کچھ مواخذہ نہیں، کیونکہ حلال سیکڑوں چیزیں ہیں، ان سب کا بیان کرنا دشوار تھا، اس لئے جو چیزیں حرام تھیں ان کو قرآن اور حدیث میں بیان کر دیا گیا، اسی طرح وہ چیزیں جو حلال تھیں لیکن مشرکین جہالت سے ان کو حرام سمجھتے تھے، انہیں بھی بیان کر دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/اللباس 6 (1726)، (تحفة الأشراف: 4496) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ہارون ضعیف ہے، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: 428)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1726)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 498

   جامع الترمذي1726سلمان بن الإسلامالحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه ما سكت عنه فهو مما عفا عنه
   سنن ابن ماجه3367سلمان بن الإسلامالحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه ما سكت عنه فهو مما عفا عنه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3367 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3367  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
فراء کے دومعنی ہیں:

(الف)
فرو کی جمع یعنی پوستین یا کھال سے بنا ہوا لباس۔

(ب)
فرأ جمع یعنی حمار و حشی (گورخر)
یہاں دونوں مطلب صحیح ہو سکتے ہیں۔ (گورخر کی وضاحت کے لیے دیکھیے حدیث: 3090 کا فائدہ نمبر 1)

(2)
اللہ کی کتاب سے مراد اللہ کا قانون ہے جس میں قرآن اور حدیث دونوں شامل ہیں۔

(3)
جن چیزوں کےبارے میں حرمت کی صراحت نہ ہو بلکہ حرمت کا اشارہ ملتا ہو وہ بھی حرام ہیں مثلاً:
وہ جانور جنہیں مار ڈالنےکا حکم ہے۔ (دیکھیے حدیث: 3087)
یا جنہیں قتل کرنے سےمنع کیاگیا ہے۔ (دیکھیے حدیث: 3223)

(4)
جن چیزوں میں حرمت کا کوئی سبب نہ پایا جائے وہ حلال ہیں خواہ ان کاذکر قرآن وحدیث میں آیا ہو نا نہ آیا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3367   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1726  
´چمڑے کا لباس (پوستین) پہننے کا بیان۔`
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1726]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے،
یہی وجہ ہے کہ فقہا ء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں،
اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً﴾ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو،
کیوں کہ حرمت کی دلیل آجانے کے بعد وہ حرام ہوجائیں گی،
فقہاء کے مذکورہ اصول اور مذکورہ آیت سے بعض نے پان،
تمباکو اور بیڑی سگریٹ کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے،
لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے،
کیوں کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں،
لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ضرررساں نہ ہوں،
اگر دیر یا سویر نقصان ظاہر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ ہرگز مباح نہیں ہوں گی،
اور مذکورہ چیزوں میں جو ضرر ونقصان ہے یہ کسی سے مخفی نہیں،
نیز ان کا استعمال تبذیر (اسراف اورفضول خرچی) کے باب میں آتا ہے،
لہٰذا ان کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔

نوٹ:
(شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے،
ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں،
دیکھئے:
غایۃ المرام رقم: 3،
وتراجع الألبانی 428)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1726   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.