سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
56. بَابُ : إِذَا رَأَى الضَّيْفُ مُنْكَرًا رَجَعَ
باب: (دعوت میں) خلاف شرع بات دیکھ کر مہمان کے لوٹ جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3360
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْجَزَرِيُّ , حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ , حَدَّثَنَا سَفِينَةُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّ رَجُلًا أَضَافَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ : لَوْ دَعَوْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ مَعَنَا , فَدَعَوْهُ فَجَاءَ , فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى عِضَادَتَيِ الْبَابِ , فَرَأَى قِرَامًا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ , فَرَجَعَ , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ لِعَلِيٍّ: الْحَقْ فَقُلْ لَهُ: مَا رَجَعَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ لِي أَنْ أَدْخُلَ بَيْتًا مُزَوَّقًا".
سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ضیافت کی اور آپ کے لیے کھانا تیار کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کاش ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے تو آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناول فرماتے، چنانچہ لوگوں نے آپ کو بھی مدعو کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے اپنے ہاتھ دروازے کے دونوں بازو پر رکھے، تو آپ کی نظر گھر کے ایک گوشے میں ایک باریک منقش پردے پر پڑی، آپ لوٹ آئے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: جائیے اور پوچھئے: اللہ کے رسول! آپ کیوں واپس آ گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے لیے مناسب نہیں کہ میں ایسے گھر میں قدم رکھوں جس میں آرائش و تزئیین کی گئی ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 8 (3755)، (تحفة الأشراف: 4483)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/220، 221، 222) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «مزوق» کا لفظ آیا ہے یعنی آرائش و تزیین، بعضوں نے کہا کہ «مزوق» کے معنی یہ ہیں کہ سونا چڑھا ہوا، یعنی جس گھر کی چھت یا دیوار پر طلائی نقرئی کام ہو یا قیمتی پردے لٹکے ہوں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3360 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3360
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھانے کی دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا اچھے اخلاق میں شامل ہے۔
(2)
پردے سے مراد وہ کپڑا ہے جو گھر میں زینت کےلیے لٹکایا جائے۔
دروازے یا کھڑکی پر اس لیے لٹکایا ہوا کپڑا کہ باہر سے کسی کی نظر اندر نہ پڑے، مطلوب ہے۔
(3)
سادگی شرعاً مطلوب ہے۔
بے جا تکلفات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(4)
نامناسب چیز سامنے آنے پر فوراً تنبیہ کرنا مناسب ہے بشرطیکہ تاخیر میں کوئی حکمت نہ ہو۔
(5)
اگر دعوت دینے والا کسی ناجائز کام کا ارتکاب کرے تو کھانا کھائے بغیر واپس چلے جانا جائز ہے البتہ اگر وہ اس غلطی کا ازالہ کردے تو واپس نہ جائیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3360
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3755
´غیر شرعی امور کی موجودگی میں دعوت میں شرکت کے حکم کا بیان۔`
سفینہ ابوعبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ کی دعوت کی اور ان کے لیے کھانا بنایا (اور بھیج دیا) تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناول فرما لیتے چنانچہ انہوں نے آپ کو بلوایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنا ہاتھ دروازے کے دونوں پٹ پر رکھا، تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھر کے ایک کونے میں ایک منقش پردہ لگا ہوا ہے، (یہ دیکھ کر) آپ لوٹ گئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: جا کر ملئیے اور دیکھئیے آپ کیوں لوٹے جا رہے ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3755]
فوائد ومسائل:
1۔
گھروں میں دیواروں کو غیر ضروری رنگا رنگ منقش پردوں وغیرہ سے مزین کرنا اسلامی ثقافت کے منافی ہے۔
2۔
اور اسی طرح جس دعوت میں غیرشرعی بات کا ارتکاب ہواس میں بھی شرکت درست نہیں۔
بالخصوص ایسی شخصیات کےلئے جو عوام کے ہاں شرعی امور میں معتبر ہوں۔
ان کی شرکت اور پھر منکرات پر ان کی خاموشی ایک لحاظ سے رضا مندی سمجھی جاسکتی ہے۔
جو ان کے حق میں بہت بڑا عیب ہے۔
3۔
اور ایسے ہی گھر جن کی تعمیر ہی منکرات وفواحش اورغیر شرعی کاموں کےلئے ہوتی ہے۔
وہاں جانا حرام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3755