(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا عبد الرحمن المحاربي ، عن يحيى بن عبيد الله ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: حدثني ابو بكر بن ابي قحافة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له ولعمر:" انطلقوا بنا إلى الواقفي"، قال: فانطلقنا في القمر، حتى اتينا الحائط، فقال:" مرحبا واهلا"، ثم اخذ الشفرة، ثم جال في الغنم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إياك والحلوب"، او قال:" ذات الدر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي قُحَافَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ وَلِعُمَرَ:" انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى الْوَاقِفِيِّ"، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فِي الْقَمَرِ، حَتَّى أَتَيْنَا الْحَائِطَ، فَقَالَ:" مَرْحَبًا وَأَهْلًا"، ثُمَّ أَخَذَ الشَّفْرَةَ، ثُمَّ جَالَ فِي الْغَنَمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّاكَ وَالْحَلُوبَ"، أَوْ قَالَ:" ذَاتَ الدَّرِّ".
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم دونوں ہمیں واقفی کے پاس لے چلو، تو ہم لوگ چاندنی رات میں چلے یہاں تک کہ باغ میں پہنچے تو اس نے ہمیں مرحبا و خوش آمدید کہا، پھر چھری سنبھالی اور بکریوں میں گھوما آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دودھ والی“ یا فرمایا: ”تھن والی بکری سے اپنے آپ کو بچانا“ یعنی اسے ذبح نہ کرنا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6627، ومصباح الزجاجة: 1100) (ضعیف جدا)» (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يحيي بن عبيد اﷲ: متروك والمحاربي عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 490
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ایک بکری کو پتھر سے ذبح کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک اونٹ سرکش ہو گیا، ایک شخص نے اس کو تیر مارا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں کچھ وحشی ہوتے ہیں“، میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنگلی جانوروں کی طرح تو جو ان میں سے تمہارے قابو میں نہ آ سکے، اس کے ساتھ ایسا ہی کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی بسم اللہ کہہ کر تیر، برچھی وغیرہ سے مار دو، اگر وہ مر جائے تو حلال ہو گا یہ اضطراری ذبح ہے، اس کا حکم مثل ذبح کے ہے، جب ذبح پر قدرت نہ ہو، اب تیر کے قائم مقام بندوق اور توپ ہے، اگر بندوق بسم اللہ کہہ کر چلائے، اور جانور ذبح کرنے سے پہلے مر جائے تو وہ حلال ہے، یہی قول محققین کا ہے۔
ابوالعشراء کے والد کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا صرف حلق اور کوڑی کے بیچ ہی میں (ذبح) کرنا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کی ران میں کونچ دو تو بھی کافی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحي 16 (2825)، سنن الترمذی/الصید 13 (1481)، سنن النسائی/الضحایا 24 (4413)، (تحفة الأشراف: 15694)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/334)، سنن الدارمی/الأضاحي 12 (2015) (ضعیف)» (ابو العشراء اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2535)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2825) ترمذي (1481) نسائي (4413) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 490
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4294، ومصباح الزجاجة: 1101) (ضعیف جدا)» (موسیٰ بن محمد بن ابراہیم ضعیف راوی ہے، لیکن مثلہ سے ممانعت کی حدیث صحیح ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 2230)
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کا کوئی عضو کاٹنے سے مثلا ناک، کان اور ہاتھ پاؤں وغیرہ کیونکہ اس میں جانور کی تعذیب ہے، اور وہ حرام ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف موسي بن محمد بن إبراهيم: منكر الحديث (تقريب: 7006) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 490
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی چیز کو جس میں روح (جان) ہو اسے (مشق کے لیے تیروں وغیرہ کا) نشانہ نہ بناؤ“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جلالہ»(گندگی اور نجاست کھانے والے جانور) کے گوشت اور اس کے دودھ سے منع فرمایا۔