کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ایک بکری کو پتھر سے ذبح کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
جارية لهم كانت ترعى غنما بسلع فأبصرت بشاة من غنمها موتا فكسرت حجرا فذبحتها فقال لأهله لا تأكلوا حتى آتي النبي فأسأله أو حتى أرسل إليه من يسأله فأتى النبي أو بعث إليه فأمر النبي بأكلها
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1154
´شکار اور ذبائح کا بیان` سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پتھر سے ایک بکری کو ذبح کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کھانے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے کا حکم فرمایا۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1154»
تخریج: «أخرجه البخاري، الذبائح، باب ذبيحة المرأة والأمة، حديث:5504.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذبح چھری وغیرہ کے علاوہ اور چیزوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ 2. ایک روایت میں ہے کہ یہ پتھر دھار دار تھا جس سے خون بہہ گیا تھا۔ 3. یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کا ذبیحہ حلال ہے اور اس کا کھانا بلاکراہت جائز ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1154
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2304
2304. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، کہ ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑتھا جو سلع پہاڑ پر چرتی تھیں۔ ہماری لونڈی نے ایک بکری کو ذبح کردیا۔ حضرت کعب ؓ نے کہا: اسے کھاؤ نہیں تاآنکہ میں خود رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھ لوں یا نبی ﷺ کے پاس کسی آدمی کو بھیجوں جو آپ سے اس کے متعلق دریافت کرے۔ چنانچہ انھوں نے خود نبی ﷺ سے دریافت کیا یا کسی آدمی کو بھیجا تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اسے کھاسکتے ہیں۔ (راوی حدیث)عبید اللہ نے کہا: مجھے حیرت ہوئی کہ وہ لونڈی تھی اور اس نے بکری ذبح کردی۔ (اس روایت کو) عبید اللہ سے بیان کرنے میں عبدہ نے (سلیمان بن معتمر کی) متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2304]
حدیث حاشیہ: سند میں نافع کی سماعت ابن کعب بن مالک ؓ سے مذکور ہے۔ مزی نے اطراف میں لکھا ہے کہ ابن کعب سے مراد عبداللہ ہیں۔ لیکن ابن وہب نے اس حدیث کو اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے۔ حافظ نے کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن ہیں۔ اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا ثبوت ملتا ہے کہ بوقت ضرورت مسلمان عورت کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور عورت اگر باندی ہو تب بھی اس کا ذبیحہ حلال ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ چاقو، چھری پاس نہ ہونے کی صورت میں تیز دھار پتھر سے بھی ذبیحہ درست ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی حلال جانور اگر اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو مرنے سے پہلے اس کا ذبح کر دینا ہی بہتر ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مسئلہ کی تحقیق مزید کر لینا بہرحال بہتر ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ ریوڑکی بکریاں سلع پہاڑی پر چرانے کے لیے ایک عورت (باندی) بھیجی جایا کرتی تھی۔ جس سے بوقت ضرورت جنگلوں میں پردہ اور ادب کے ساتھ عورتوں کا جانا بھی ثابت ہوا۔ عبید اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ اس دور میں بھی باندی عورت کے ذبیحہ پر اظہار تعجب کیا جایا کرتا تھا۔ کیوں کہ دستور عام ہر قرن میں مردوں ہی کے ہاتھ سے ذبح کرنا ہے۔ سلع پہاڑی مدینہ طیبہ کے متصل دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ابھی ابھی مسجد فتح و بئر عثمان ؓ وغیرہ پر جانا ہوا تو ہماری موٹر سلع پہاڑی ہی کے دامن سے گزری تھی۔ الحمد للہ کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم کے صدقہ میں عمر کے اس آخری حصہ میں پھر ان مقامات مقدسہ کی دید سے مشرف فرمایا۔ فلله الحمد والشکر۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2304
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2304
2304. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، کہ ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑتھا جو سلع پہاڑ پر چرتی تھیں۔ ہماری لونڈی نے ایک بکری کو ذبح کردیا۔ حضرت کعب ؓ نے کہا: اسے کھاؤ نہیں تاآنکہ میں خود رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھ لوں یا نبی ﷺ کے پاس کسی آدمی کو بھیجوں جو آپ سے اس کے متعلق دریافت کرے۔ چنانچہ انھوں نے خود نبی ﷺ سے دریافت کیا یا کسی آدمی کو بھیجا تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اسے کھاسکتے ہیں۔ (راوی حدیث)عبید اللہ نے کہا: مجھے حیرت ہوئی کہ وہ لونڈی تھی اور اس نے بکری ذبح کردی۔ (اس روایت کو) عبید اللہ سے بیان کرنے میں عبدہ نے (سلیمان بن معتمر کی) متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2304]
حدیث حاشیہ: (1) اگر کوئی چیز خراب ہورہی ہو تو مالک سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ وکیل یا ملازم اسے خود ہی ٹھیک کر دے۔ اسی طرح چرواہے بکریاں چراتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی بکری بیمار ہوجائے یا کوئی درندہ اسے زخمی کردے اور وہ ہلاکت کے قریب ہوجائے تو مالک کے مفاد میں ہے کہ اسے مرنے سے پہلے پہلے ذبح کردیا جائے۔ اگر مالک سے پیشگی اجازت لینا ضروری قرار دیا جائے تو بکری ہلاک ہوجائے گی۔ بہر حال اس قسم کی صورت میں بطور وکیل قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر کسی کام کے لیے کوئی وکیل مقرر کیا گیا ہے تو جب تک اس کی خیانت ظاہر نہ ہو اس کی تصدیق کرنا جائز ہے۔ (3) امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے ذبیحہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چرواہے اور وکیل سے ضمان ساقط ہوگی، اس قسم کے نقصان ہونے کی صورت میں ان پر کوئی تاوان نہیں ہوگا، مگر وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ مؤکل کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اس قسم کا راستہ اختیار نہ کرے۔ (فتح الباري: 607/4) آخر میں بیان کردہ متابعت کو خود امام بخاری رحمہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الذبائح، حدیث: 5504)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2304