سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہتا ہے، تو اس کے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے درخت، پتھر اور ڈھیلے سبھی تلبیہ کہتے ہیں، دونوں جانب کی زمین کے آخری سروں تک“۔
سائب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ سے کہوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پکاریں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ حکم مردوں کے لیے ہے، عورت بھی تلبیہ پکارے گی لیکن دھیمی آواز سے، حدیث کے مطابق طریقہ یہ ہے کہ حاجی غسل کرے،پھر خوشبو لگائے اور احرام کی چادریں اوڑھے، اور لبیک پکار کر کہے، اگر صرف حج کی نیت ہو تو «لبیک بحجۃ» کہے، اور اگر عمرے کی نیت ہو تو «لبیک عمرۃ» کہے، اگر دونوں کی ایک ساتھ نیت ہو یعنی حج قران کی تو یوں کہے «لبیک بحجۃ وعمرۃ» ۔
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل آئے اور بولے: اے محمد! اپنے صحابہ سے کہو کہ وہ تلبیہ باآواز بلند پکاریں، اس لیے کہ یہ حج کا شعار ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3750، و مصباح الزجاجة: 1031)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/192) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے لبیک پکارنے کا وجوب نکلتا ہے، «شعار» کے لفظ سے واجب ہونا ضروری نہیں، بہت سی چیزیں سنت ہیں، پر شعائر میں سے ہیں جیسے اذان وغیرہ۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے بہتر عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عج» اور «ثج»“، یعنی باآواز بلند تلبیہ پکارنا، اور خون بہانا (یعنی قربانی کرنا)“۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم (احرام باندھنے والا) جو چاشت کے وقت سے سورج ڈوبنے تک سارے دن اللہ کے لیے (دھوپ میں) لبیک کہتا رہے، تو سورج اس کے گناہوں کو ساتھ لے کر ڈوبے گا، اور وہ ایسا (بےگناہ) ہو جائے گا گویا اس کی ماں نے جنم دیا ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2362، ومصباح الزجاجة: 1032)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/273) (ضعیف)» (سند میں عاصم بن عبید اللہ اور عاصم بن عمر بن حفص ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 5018)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف (ح 2928،انظر ص 342،371) عاصم بن عمر: ضعيف وعاصم بن عبيد اللّٰه: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کے وقت احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی، اور احرام کھولنے کے وقت بھی طواف افاضہ کرنے سے پہلے۔ سفیان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: خوشبو میں نے اپنے انہی دونوں ہاتھوں سے لگائی۔
(مرفوع) حدثنا ابو مصعب ، حدثنا مالك بن انس ، عن نافع عن عبد الله بن عمر : ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم: ما يلبس المحرم من الثياب؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يلبس القمص، ولا العمائم، ولا السراويلات، ولا البرانس، ولا الخفاف، إلا ان لا يجد نعلين، فليلبس خفين، وليقطعهما اسفل من الكعبين، ولا تلبسوا من الثياب شيئا مسه الزعفران، او الورس". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَلْبَسُ الْقُمُصَ، وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَنْ لَا يَجِدَ نَعْلَيْنِ، فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا مِنَ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ، أَوِ الْوَرْسُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: محرم کون سے کپڑے پہنے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”قمیص، عمامے (پگڑیاں)، پاجامے، ٹوپیاں، اور موزے نہ پہنے، البتہ اگر جوتے میسر نہ ہوں تو موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کر لے، اور کوئی ایسا لباس بھی نہ پہنے جس میں زعفران یا ورس لگی ہو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: امام احمد کے نزدیک موزوں کا کاٹنا ضروری نہیں، دیگر ائمہ کے نزدیک کاٹنا ضروری ہے، دلیل ان کی یہی حدیث ہے، اور امام احمد کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث ہے جس میں کاٹنے کا ذکر نہیں ہے، جب کہ وہ میدان عرفات کے موقع کی حدیث ہے، یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کی ناسخ ہے، اور ورس اور زعفران سے منع اس لیے کیا گیا کہ اس میں خوشبو ہوتی ہے، یہی حکم ہر اس رنگ کا ہے جس میں خوشبو ہو۔