ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شتر مرغ کے انڈوں کے بارے میں جو محرم کو ملیں، فرمایا: ”اسے اس کی قیمت دینی ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14835، ومصباح الزجاجة: 1070) (ضعیف)» (سند میں ابوالمہزم ضعیف، اور علی بن عبدالعزیز مجہول ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو المهزم:متروك وعلي بن عبدالعزيز ھو علي بن غراب مدلس وللحديث شواهد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ موذی جانور ہیں جنہیں حرم اور حرم سے باہر دونوں جگہوں میں قتل کیا جائے گا: سانپ، چتکبرا کوا، چوہیا، کاٹنے والا کتا، اور چیل“۔
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا عبد الله بن نمير ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خمس من الدواب لا جناح على من قتلهن، او قال في قتلهن وهو حرام: العقرب، والغراب، والحداة، والفارة، والكلب العقور". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ قَتَلَهُنَّ، أَوْ قَالَ فِي قَتْلِهِنَّ وَهُوَ حَرَامٌ: الْعَقْرَبُ، وَالْغُرَابُ، وَالْحُدَأَةُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے جانور ہیں جنہیں احرام کی حالت میں مارنے میں گناہ نہیں: بچھو، کوا، چیل، چوہیا اور کاٹ کھانے والا کتا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: علماء نے اس پر اور موذی جانوروں کو قیاس کیا ہے، جیسے چھچھوندر اور کاٹنے والے زہریلے کیڑے،اور پھاڑنے والے درندے جیسے شیر یا بھیڑیا یا ریچھ وغیرہ۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، حدثنا محمد بن فضيل ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن ابن ابي نعم ، عن ابي سعيد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" يقتل المحرم: الحية، والعقرب، والسبع العادي، والكلب العقور، والفارة الفويسقة"، فقيل له: لم قيل لها الفويسقة؟، قال:" لان رسول الله صلى الله عليه وسلم استيقظ لها، وقد اخذت الفتيلة لتحرق بها البيت". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ: الْحَيَّةَ، وَالْعَقْرَبَ، وَالسَّبُعَ الْعَادِيَ، وَالْكَلْبَ الْعَقُورَ، وَالْفَأْرَةَ الْفُوَيْسِقَةَ"، فَقِيلَ لَهُ: لِمَ قِيلَ لَهَا الْفُوَيْسِقَةُ؟، قَالَ:" لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ لَهَا، وَقَدْ أَخَذَتِ الْفَتِيلَةَ لِتُحْرِقَ بِهَا الْبَيْتَ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم سانپ، بچھو، حملہ آور درندے، کاٹ کھانے والے کتے، اور فسادی چوہیا کو قتل کر سکتا ہے“، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: اسے فسادی کیوں کہا گیا؟ کہا: اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وجہ سے جاگتے رہے، وہ بتی لے گئی تھی تاکہ گھر میں آگ لگا دے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4133، ومصباح الزجاجة: 1071)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/المناسک 40 (1848)، سنن الترمذی/الحج 21 (838)، مسند احمد (3/3، 42، 79) (ضعیف)» (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1848) ترمذي (838) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گزرے، میں ابواء یا ودان میں تھا، میں نے آپ کو ہدیہ میں ایک نیل گائے دی، آپ نے اسے لوٹا دیا، پھر جب آپ نے میرے چہرہ پر ناگواری دیکھی تو فرمایا: ”ہم یہ تمہیں نہیں لوٹاتے، لیکن ہم احرام باندھے ہوئے ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: محرم کے لیے خود بھی خشکی کا شکار کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح وہ جانور بھی جائز نہیں جو اس کے لیے شکار کیا جائے، اور اسی طرح محرم کو شکار زندہ جانور لا کر دیا جائے تو بھی اس کا کھانا جائز نہیں، اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیل گائے کو واپس کر دیا، اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ جس شکار کو حلال ذبح کر ے اس کا بھی کھانا محرم کے لیے جائز نہیں، ثوری اور مالک یہی مذہب ہے لیکن امام ابوحنیفہ اور امام احمد کا قول ہے کہ اس کا کھانا جائز ہے اگر محرم کے لیے ذبح نہ ہوا ہو، اور نہ محرم نے اس کے شکار میں مدد کی ہو جیسے آگے آئے گا۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکار کا گوشت لایا گیا، اور آپ احرام کی حالت میں تھے تو آپ نے اسے نہیں کھایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10199 (ألف)، ومصباح الزجاجة: 1072)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/105) (صحیح)» (سند میں عبدالکریم بن أبی المخارق ضعیف راوی ہے، لیکن یہ دوسرے طریق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 1621)
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک نیل گائے دی، اور حکم دیا کہ اسے اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیں، اور وہ سب محرم تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5006، ومصباح الزجاجة: 1073) (ضعیف)» (سند میں علت ہے، اور متن میں غلطی، صحیح روایت نسائی کی ہے، ملاحظہ ہو: سنن النسائی: 2218)
قال الشيخ الألباني: إسناده معلول
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان بن عينة عنعن والصحيح ما رواه النسائي (183/5 ح 2820) وغيره بغير ھذا اللفظ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ، قال:" خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم زمن الحديبية، فاحرم اصحابه، ولم احرم، فرايت حمارا فحملت عليه واصطدته، فذكرت شانه لرسول الله صلى الله عليه وسلم وذكرت اني لم اكن احرمت واني إنما اصطدته لك، فامر النبي صلى الله عليه وسلم اصحابه فاكلوا، ولم ياكل منه حين اخبرته اني اصطدته له". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ، وَلَمْ أُحْرِمْ، فَرَأَيْتُ حِمَارًا فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ وَاصْطَدْتُهُ، فَذَكَرْتُ شَأْنَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَحْرَمْتُ وَأَنِّي إِنَّمَا اصْطَدْتُهُ لَكَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ فَأَكَلُوا، وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ حِينَ أَخْبَرْتُهُ أَنِّي اصْطَدْتُهُ لَهُ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حدیبیہ کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا، آپ کے صحابہ نے احرام باندھ لیا، اور میں بغیر احرام کے تھا، میں نے ایک نیل گائے دیکھی تو اس پر حملہ کر کے اس کا شکار کر لیا، پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، اور عرض کیا کہ میں بغیر احرام کے تھا، اور میں نے اس کا شکار آپ ہی کے لیے کیا ہے، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کہ وہ اسے کھا لیں، اور جب میں نے آپ کو یہ بتایا کہ یہ شکار میں نے آپ کے لیے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے نہیں کھایا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ جس جانور کا شکار محرم کے لیے کیا جائے اس کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں جیسے اوپر گذرا اور صحیحین کی روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نیل گائے میں سے کھایا جس کو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے شکار کیا تھا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اور شاید وہ دوسرا واقعہ ہو گا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کا جانور مدینہ سے بھیجتے تھے، میں آپ کے ہدی کے جانوروں کے لیے قلادہ ۱؎(پٹہ) بٹتی تھی، پھر آپ ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے تھے جن سے محرم پرہیز کرتا ہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ یا اور کوئی چیز لٹکانے کو تقلید کہتے ہیں، تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ جانور ہدی کا ہے، اس کا فائدہ یہ تھا کہ عرب ایسے جانور کو لوٹتے نہیں تھے۔ ۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقیم کے لیے بھی ہدی کا جانور بھیجنا درست ہے، اور صرف ہدی بھیج دینے سے وہ محرم نہیں ہو گا، اور نہ اس پر کوئی چیز حرام ہو گی جو محرم پر ہوتی ہے، جب تک کہ وہ احرام کی نیت کر کے احرام پہن کر خود حج کو نہ جائے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی ۱؎ کے لیے قلادہ (پٹہ) بٹتی تھی، آپ وہ قلادہ اپنی ہدی والے جانور کے گلے میں ڈالتے، پھر اس کو روانہ فرما دیتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہی میں مقیم رہتے، اور جن باتوں سے محرم پرہیز کرتا ہے ان میں سے کسی بات سے آپ پرہیز نہیں کرتے تھے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «أنظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 15947) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ہدی اس جانور کو کہتے ہیں جو حج تمتع یا حج قران میں مکہ میں ذبح کیا جاتا ہے، نیز اس جانورکو بھی ہدی کہتے ہیں جس کو غیر حاجی حج کے موقع سے مکہ میں ذبح کر نے کے لیے بھیجتا ہے۔ ۲؎: کیونکہ ہدی بھیج دینے سے آدمی محرم نہیں ہوتا، امام نودی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ نکلتاہے کہ ہدی کا حرم میں بھیجنا مستحب ہے، اگر خود نہ جائے تو کسی اور کے ہاتھ بھیج دے، جمہور کا یہی قول ہے کہ اگر ہدی کسی اور کے ہاتھ بھیج دے تو بھیجنے والے پر احرام کا حکم جاری نہ ہو گا، البتہ اگر اپنے ساتھ ہدی لے کر جائے تو محرم ہو جائے گا۔