سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
حدیث نمبر: 2812
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن سليمان بن عبد الرحمن القرشي ، عن القاسم بن عبد الرحمن ، عن عمرو بن عبسة ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من رمى العدو بسهم فبلغ سهمه العدو، اصاب او اخطا فعدل رقبة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيِّ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ رَمَى الْعَدُوَّ بِسَهْمٍ فَبَلَغَ سَهْمُهُ الْعَدُوَّ، أَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ فَعَدْلُ رَقَبَةٍ".
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو دشمن کو تیر مارے، اور اس کا تیر دشمن تک پہنچے، ٹھیک لگے یا چوک جائے، تو اس کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10765)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/فضائل الجہاد 11 (1638) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 2813
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، انبانا عبد الله بن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن ابي علي الهمداني ، انه سمع عقبة بن عامر الجهني ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا على المنبر: واعدوا لهم ما استطعتم من قوة سورة الانفال آية 60، الا وإن القوة الرمي ثلاث مرات".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ سورة الأنفال آية 60، أَلَا وَإِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر آیت کریمہ: «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة» (سورۃ الانفال: ۶۰) دشمن کے لیے طاقت بھر تیاری کرو کو پڑھتے ہوئے سنا: (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:) آگاہ رہو! طاقت کا مطلب تیر اندازی ہی ہے یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 52 (1917)، سنن ابی داود/الجہاد 24 (2514)، (تحفة الأشراف: 9911)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن 9 (3083)، مسند احمد (4/157)، سنن الدارمی/الجہاد 14 (2448) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی جنگجو کفار و مشرکین اور اعداء اسلام کے مقابلہ کے لئے ہمیشہ اپنی طاقت کو بڑھاتے رہو، اور ہر وقت جنگ کے لئے مستعد رہو گو جنگ نہ ہو، اس لئے کہ معلوم نہیں دشمن کس وقت حملہ کر بیٹھے، ایسا نہ ہو کہ دشمن تمہاری طاقت کم ہونے کے وقت غفلت میں حملہ کر بیٹھے اور تم پر غالب ہو جائے، افسوس ہے کہ مسلمانوں نے قرآن شریف کو مدت سے بالائے طاق رکھ دیا، ہزاروں میں سے ایک بھی مسلمان ایسا نظر نہیں آتا جو قرآن کو اس پر عمل کرنے کے لئے سمجھ کر پڑھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2814
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حرمله بن يحيى المصري ، انبانا عبد الله بن وهب ، اخبرني ابن لهيعة ، عن عثمان بن نعيم الرعيني ، عن المغيرة بن نهيك ، انه سمع عقبة بن عامر الجهني ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من تعلم الرمي ثم تركه، فقد عصاني".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَرْمَلَهُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي ابنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ نُعَيْمٍ الرُّعَيْنِيِّ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ نَهِيكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ تَعَلَّمَ الرَّمْيَ ثُمَّ تَرَكَهُ، فَقَدْ عَصَانِي".
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا، تو اس نے میری نافرمانی کی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9971)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 24 (2513)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 11 (1637)، سنن النسائی/الجہاد 26 (3148)، الخیل 8 (3608)، مسند احمد (4/144، 146، 148، 154، سنن الدارمی/الجہاد 14 (2449) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (فقد عصانی کے لفظ سے ضعیف ہے، اور «فلیس منّا» کے لفظ سے صحیح ہے)

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ہتھیار چلانے کا علم سیکھے تو کبھی کبھی اس کی مشق کرتا رہے چھوڑ نہ دے تاکہ ضرورت کے وقت کام آئے اب تیر کے عوض بندوق اور توپ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ فليس منا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عثمان بن نعيم الرعيني والمغيرة بن نھيك مجھولان (تقريب: 4523،6853)
و حديث مسلم (1919) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 480
حدیث نمبر: 2815
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا سفيان ، عن الاعمش ، عن زياد بن الحصين ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بنفر يرمون، فقال:" رميا بني إسماعيل، فإن اباكم كان راميا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَفَرٍ يَرْمُونَ، فَقَالَ:" رَمْيًا بَنِي إِسْمَاعِيل، فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو تیر اندازی کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسماعیل کی اولاد! تیر اندازی کرو، تمہارے والد (اسماعیل) بڑے تیر انداز تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5428، ومصباح الزجاجة: 996)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/364) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اسماعیل علیہ السلام کو ان کے باپ ابراہیم علیہ السلام فاران کے میدان یعنی مکہ کی چٹیل زمین میں چھوڑ کر چلے آئے تھے وہ وہیں بڑے ہوئے، اور ان کو شکار کا بہت شوق تھا، اور بڑے تیر انداز اور بہادر تھے، تو نبی کریم ﷺ نے عربوں کو بھی تیر اندازی کی اس طرح سے ترغیب دی کہ یہ تمہارا آبائی پیشہ ہے اس کو خوب بڑھاؤ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
20. بَابُ: الرَّايَاتِ وَالأَلْوِيَةِ
20. باب: (جنگ میں) بڑے اور چھوٹے جھنڈوں کے استعمال کا بیان۔
Chapter: Flags and standards
حدیث نمبر: 2816
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن الحارث بن حسان ، قال:" قدمت المدينة فرايت النبي صلى الله عليه وسلم قائما على المنبر وبلال قائم بين يديه متقلد سيفا وإذا راية سوداء، فقلت: من هذا؟، قالوا: هذا عمرو بن العاص قدم من غزاة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ:" قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا عَلَى الْمِنْبَرِ وَبِلَالٌ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْهِ مُتَقَلِّدٌ سَيْفًا وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَدِمَ مِنْ غَزَاةٍ".
حارث بن حسان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر کھڑے دیکھا، اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے گلے میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، پھر اچانک ایک کالا بڑا جھنڈا دکھائی دیا، میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں جو ایک غزوہ سے واپس آئے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآ ن 51 (2) (3273، 3274)، (تحفة الأشراف: 3277)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/482) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2817
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال ، وعبدة بن عبد الله ، قال: حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا شريك ، عن عمار الدهني ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله " ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل مكة يوم الفتح، ولواؤه ابيض".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، وَعَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ، وَلِوَاؤُهُ أَبْيَضُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا جھنڈا سفید تھا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 76 (2592)، سنن الترمذی/الجہاد 9 (1679)، سنن النسائی/الحج 106 (2869)، (تحفة الأشراف: 2889) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 2818
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن إسحاق الواسطي الناقد ، حدثنا يحيى بن إسحاق ، عن يزيد بن حيان ، سمعت ابا مجلز ، يحدث عن ابن عباس " ان راية رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت سوداء، ولواؤه ابيض".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاق الْوَاسِطِيُّ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ ، سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ ، يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّ رَايَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ سَوْدَاءَ، وَلِوَاؤُهُ أَبْيَضُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا جھنڈا کالا اور چھوٹا جھنڈا سفید تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجہاد 10 (1681)، (تحفة الأشراف: 6542) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث میں «رایہ» اور «لواء» کا لفظ ہے، «رایہ» یعنی بڑا جھنڈا کالا تھا،اور «لواء» چھوٹا جھنڈا سفید تھا، اس سے معلوم ہوا کہ امام کو لشکروں کو ترتیب دینا اور جھنڈے اور نشان بنانا مستحب ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
21. بَابُ: لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ فِي الْحَرْبِ
21. باب: جنگ میں حریر و دیبا (ریشمی کپڑوں) کے پہننے کا بیان۔
Chapter: Wearing silk and brocade in war
حدیث نمبر: 2819
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان ، عن حجاج ، عن ابي عمر مولى اسماء، عن اسماء بنت ابي بكر ، انها اخرجت جبة مزررة بالديباج فقالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يلبس هذه إذا لقي العدو".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِي عُمَرَ مَوْلَى أَسْمَاءَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا أَخْرَجَتْ جُبَّةً مُزَرَّرَةً بِالدِّيبَاجِ فَقَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ هَذِهِ إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ریشم کی گھنڈیاں لگا ہوا جبہ نکالا اور کہنے لگیں: دشمن سے مقابلہ کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس و الزینة 2 (2069)، سنن ابی داود/اللباس 12 (4054)، سنن النسائی/الکبری الزینة (9619)، (تحفة الأشراف: 15721)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/47، 348، 353)، الأدب المفرد (348) (صحیح) (اس کی سند میں حجاج بن ارطاہ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، کما فی التخریج)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اکثر اہل علم کے نزدیک لڑائی میں ریشمی کپڑا پہننا جائز ہے کیونکہ تلوار ریشم کو مشکل سے کاٹتی ہے، حریر اور دیباج میں یہ فرق ہے کہ دیباج خالص ریشم ہوتا ہے اور حریر میں ریشم ملا ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس و عنعن
وأصل الحديث في صحيح مسلم (2069) وغيره بدون ’’إذا لقي العدو‘‘ و انظر الحديث الآتي (الأصل: 3594)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 480
حدیث نمبر: 2820
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا حفص بن غياث ، عن عاصم الاحول ، عن ابي عثمان ، عن عمر " انه كان ينهى عن الحرير والديباج، إلا ما كان هكذا ثم اشار بإصبعه، ثم الثانية، ثم الثالثة، ثم الرابعة، وقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهانا عنه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عُمَرَ " أَنَّهُ كَانَ يَنْهَى عَنِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ، إِلَّا مَا كَانَ هَكَذَا ثُمَّ أَشَارَ بِإِصْبَعِهِ، ثُمَّ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ الثَّالِثَةِ، ثُمَّ الرَّابِعَةِ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا عَنْهُ".
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حریر اور دیباج (ریشمی کپڑوں کے استعمال) سے منع کرتے تھے مگر جو اتنا ہو، پھر انہوں نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا، پھر دوسری سے پھر تیسری سے پھر چوتھی سے، اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہمیں منع فرمایا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 25 (5828)، صحیح مسلم/اللباس 2 (2069)، سنن ابی داود/اللباس 10 (4042)، سنن النسائی/الزینة 38 (5314)، (تحفة الأشراف: 10597)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/15، 36، 43) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی چار انگل تک اجازت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
22. بَابُ: لُبْسِ الْعَمَائِمِ فِي الْحَرْبِ
22. باب: جنگ میں عمامہ (پگڑی) پہننے کا بیان۔
Chapter: Wearing turbans during war
حدیث نمبر: 2821
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن مساور ، حدثني جعفر بن عمرو بن حريث ، عن ابيه ، قال:" كاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه عمامة سوداء، قد ارخى طرفيها بين كتفيه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُسَاوِرٍ ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ، قَدْ أَرْخَى طَرَفَيْهَا بَيْنَ كَتِفَيْهِ".
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ کے سر پر سیاہ عمامہ (کالی پگڑی) ہے جس کے دونوں کنارے آپ اپنے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکائے ہوئے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 84 (1359)، (تحفة الأشراف: 10716)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/اللباس 24 (4077)، سنن الترمذی/الشمائل 16 (108، 109)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ 56 (5348)، مسند احمد (4/307)، سنن الدارمی/المناسک 88 (1982) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: عمامہ باندھنا سنت ہے اور کئی حدیثوں میں اس کی فضیلت آئی ہے، اور عمامہ میں شملہ لٹکانا بہتر ہے لیکن ہمیشہ نہیں، نبی کریم ﷺ نے کبھی شملہ لٹکایا ہے کبھی نہیں، اور بہتر یہ ہے کہ شملہ پیٹھ کی طرف لٹکائے اور کبھی داہنے ہاتھ کی طرف، لیکن بائیں ہاتھ کی طرف لٹکانا سنت کے خلاف ہے اور شملہ کی مقدار چار انگل سے لے کر ایک ہاتھ تک ہے اور آدھی پیٹھ سے زیادہ لٹکانا اسراف اور فضول خرچی اور خلاف سنت ہے، اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کالے رنگ کا عمامہ باندھنا مسنون ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.