سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
19. بَابُ : الرَّمْيِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
19. باب: اللہ کی راہ میں تیر اندازی کا بیان۔
Chapter: Shooting arrows in the cause of Allah
حدیث نمبر: 2815
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا سفيان ، عن الاعمش ، عن زياد بن الحصين ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بنفر يرمون، فقال:" رميا بني إسماعيل، فإن اباكم كان راميا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَفَرٍ يَرْمُونَ، فَقَالَ:" رَمْيًا بَنِي إِسْمَاعِيل، فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو تیر اندازی کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسماعیل کی اولاد! تیر اندازی کرو، تمہارے والد (اسماعیل) بڑے تیر انداز تھے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: اسماعیل علیہ السلام کو ان کے باپ ابراہیم علیہ السلام فاران کے میدان یعنی مکہ کی چٹیل زمین میں چھوڑ کر چلے آئے تھے وہ وہیں بڑے ہوئے، اور ان کو شکار کا بہت شوق تھا، اور بڑے تیر انداز اور بہادر تھے، تو نبی کریم ﷺ نے عربوں کو بھی تیر اندازی کی اس طرح سے ترغیب دی کہ یہ تمہارا آبائی پیشہ ہے اس کو خوب بڑھاؤ۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5428، ومصباح الزجاجة: 996)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/364) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن ابن ماجه2815عبد الله بن عباسرميا بني إسماعيل فإن أباكم كان راميا

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2815 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2815  
اردو حاشہ:
  فوائد و مسائل:
(1)
تیر اندازی مستحسن مشغلہ ہے۔

(2)
جہاد میں کام آنے والے تمام کھیلوں کا یہی حکم ہے۔

(3)
بزرگوں کو چاہیے کہ اچھے کام کرنے والے نوجوانوں کو حوصلہ افزائی کریں۔

(4)
مہاجر اور انصار کے قبائل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے اس لیے رسول اللہﷺ نے انھیں اس نام سے پکارا۔

(5)
مختلف قبائل اور شاخوں کے افراد کو مشترک نام سے پکارنے کا فائدہ یہ ہے کہ ان میں محبت، اتحاد واتفاق اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔

(6)
دادا پردادا وغیرہ بزرگوں کو والد کے نام سے یاد کیا جا سکتا ہے۔

(7)
جو مسلمان نسلی طور پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے نہیں روحانی اور اعتقادی طور پر وہ بھی ان کی آل میں شامل ہیں اس لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام ایسے مسلمانوں کے بھی باپ ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2815   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.