معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب لوگ شراب پئیں تو انہیں کوڑے لگاؤ، پھر پئیں تو کوڑے لگاؤ، اس کے بعد بھی پئیں تب بھی کوڑے لگاؤ، اس کے بعد پئیں تو انہیں قتل کر دو“۱؎۔
1 سعید بن سعد بن عبادہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک ناقص الخلقت (لولا لنگڑا) اور ضعیف و ناتواں شخص تھا، اس سے کسی شر کا اندیشہ نہیں تھا، البتہ (ایک بار) وہ گھر کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی کے ساتھ زنا کر رہا تھا، سعد رضی اللہ عنہ اس کے معاملے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے سو کوڑے مارو“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے، اگر ہم اسے سو کوڑے ماریں گے تو مر جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا کھجور کا ایک خوشہ لو جس میں سو شاخیں ہوں، اور اس سے ایک بار مار دو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1 447، ومصباح الزجاجة: 910)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الحدود 34 (4472)، مسند احمد (5/222) (صحیح)» (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: تو گویا سو مار ماریں، یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے ضعیف بندوں پر عنایت ہے، اور مسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ کی ایک لونڈی نے زنا کیا، تو آپ ﷺ نے مجھ کو اسے کوڑے مارنے کا حکم دیا، میں اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ اس نے ابھی بچہ جنا ہے، میں ڈرا کہیں کوڑے لگانے سے وہ مر نہ جائے، میں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ نفاس سے پاک ہو جائے“ صحیح مسلم کی اس روایت میں مہلت کا ذکر ہے جب کہ اس سے پہلی والی حدیث میں بوڑھے پر کوڑے لگانے میں کسی مہلت کا ذکر نہیں تو ان دونوں حدیثوں میں جمع کی صورت یہ ہے کہ جب کسی بیمار کے اچھا ہونے کی امید ہو تو حد نافذ کرنے سے رک جائے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے اور جو اس کے اچھا ہو جانے کی امید نہ ہو تو حد نافذ کر دیں جیسے سعید بن عبادہ کی روایت میں ہے، واضح رہے بڑھاپا وہ بیماری ہے جس سے اچھا ہونے کی کوئی امید نہیں، اور نفاس وہ بیماری جو کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جاتی ہے، اس لئے اس میں مہلت ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہم مسلمانوں پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «حدیث یعقوب بن حمید بن کاسب عن عبدالعزیز أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 43 (101)، (تحفة الأشراف: 12692)، وحدیث یعقوب بن حمید بن کاسب عن المغیرة بن عبدالرحمن تفرد بہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف: 14149)، وحدیث یعقوب بن حمید بن کاسب عن أنس بن عیاض قد تفرد بہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف: 14601، 14631) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ارشاد گرامی: ”وہ ہم میں سے نہیں ہے“ میں اس شخص کے لئے جو مسلمان پر ہتھیار اٹھائے بڑی وعید ہے، یعنی وہ اپنے اخلاق و عادات میں زمانہ جاہلیت کے کفار کی طرح ہو گیا، جو آپس میں لڑنے بھڑنے اور جنگ کرنے کے عادی تھے، جن احادیث میں گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے سے رسول اکرم ﷺ کی براءت کا ذکر ہے اس کے سلسلے میں علماء اسلام کی آراء مندرجہ ذیل ہیں: ۱- مرتکب کبیرہ سے رسول اکرم ﷺ کے اعلان براءت کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کی اطاعت و اقتداء کرنے والا نہیں، اور اسلامی شریعت کا محافظ و پابند نہیں ہے، تو وہ احادیث جن میں نبی اکرم ﷺ نے صغیرہ گناہوں کے مرتکب سے متعلق «ليس منا»(فلاں کام کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے) فرمایا ہے، تو ان میں ایمان کی نفی سے مراد ایسا ضروری ولابدی ایمان ہے جس کے ذریعہ وہ بغیر سزا و عقاب کے ثواب و اجر کا مستحق ہے، اور یہ معنی سابقہ ایمان کی نفی سے توجیہ کے ہم مثل ہے، ابوعبید القاسم بن سلام اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہی مذہب ہے۔ ۲- امام سفیان بن عیینہ سے اس کا معنی یوں منقول ہے: «ليس مثلنا»”یعنی وہ ہماری طرح نہیں ہے“۔
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا عبد الوهاب ، حدثنا حميد ، عن انس بن مالك ، ان اناسا من عرينة قدموا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاجتووا المدينة فقال:" لو خرجتم إلى ذود لنا، فشربتم من البانها وابوالها"، ففعلوا فارتدوا عن الإسلام، وقتلوا راعي رسول الله صلى الله عليه وسلم، واستاقوا ذوده، فبعث رسول الله في طلبهم، فجيء بهم، فقطع ايديهم وارجلهم وسمر اعينهم وتركهم بالحرة حتى ماتوا". (مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ فَقَالَ:" لَوْ خَرَجْتُمْ إِلَى ذَوْدٍ لَنَا، فَشَرِبْتُمْ مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا"، فَفَعَلُوا فَارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ، وَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَاقُوا ذَوْدَهُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ فِي طَلَبِهِمْ، فَجِيءَ بِهِمْ، فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ وَتَرَكَهُمْ بِالْحَرَّةِ حَتَّى مَاتُوا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اگر تم ہمارے اونٹوں کے ریوڑ میں جاؤ، اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو تو صحت مند ہو جاؤ گے“۱؎ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، پھر وہ اسلام سے پھر گئے (مرتد ہو گئے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے آپ کے اونٹوں کو ہانک لے گئے، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا، چنانچہ وہ گرفتار کر کے لائے گئے، تو آپ نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے، ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائی پھیر دی، ۲؎ اور انہیں حرہ ۳؎ میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے“۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ حلال جانور کا پیشاب پاک ہے، ورنہ اس کے پینے کی اجازت نہ ہوتی، کیونکہ حرام اور نجس چیز سے علاج درست نہیں۔ ۲؎: یہ سزا قصاص کے طور پر تھی کیونکہ انہوں نے بھی رسول اکرم ﷺ کے چرواہوں کے ساتھ ایسے ہی کیا تھا۔ ۳؎: مدینہ منورہ کے مشرقی اور مغربی حصہ میں سیاہ پتھریلی جگہ کو حرہ کہتے ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کر دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ پیاس کے مارے تڑپتے رہے لیکن کسی نے ان کو پانی نہیں دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے، یہ آنکھیں پھوڑنا اور پانی نہ دینا تشدد کے لئے نہ تھا بلکہ اس لئے تھا کہ انہوں نے کئی کبیرہ گناہ کئے تھے، ارتداد، قتل، لوٹ پاٹ، ناشکری وغیرہ۔ بعضوں نے کہا کہ یہ قصاص میں تھا کیونکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا، غرض بدکار، بدفعل، بے رحم اور ظالم پر ہرگز رحم نہ کرنا چاہئے، اور اس کو ہمیشہ سخت سزا دینی چاہئے تاکہ عام لوگ تکلیف سے محفوظ رہیں، اور یہ عام لوگوں پر عین رحم و کرم ہے کہ ظالم کو سخت سزا دی جائے، اور ظالم پر رحم کرنا غریب رعایا پر ظلم ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے اس کا مال چھینا جائے اور لڑا جائے پھر وہ بھی لڑے اور قتل ہو جائے، تو وہ شہید ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7468، ومصباح الزجاجة: 912) (صحیح)» (سند میں یزید بن سنان تمیمی ضعیف ہیں لیکن، سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)