ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی تنگ دست پر آسانی کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12544)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 67 (1306) (صحیح)»
بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے صدقہ کا ثواب ملے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2012، ومصباح الزجاجة: 848)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/351، 360) (صحیح)» (سند میں ابوداود نفیع بن الحارث ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق و شواہد سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 86)
صحابی رسول ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے (عرش کے) سائے میں رکھے، تو وہ تنگ دست کو مہلت دے، یا اس کا قرض معاف کر دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 18 (3006)، (تحفة الأشراف: 11123)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/427)، سنن الدارمی/البیوع 50 (2630) (صحیح)»
(قدسي) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو عامر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن عمير ، قال: سمعت ربعي بن حراش يحدث، عن حذيفة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" ان رجلا مات، فقيل له: ما عملت؟ فإما ذكر او ذكر، قال: إني كنت اتجوز في السكة والنقد وانظر المعسر فغفر الله له"، قال ابو مسعود: انا قد سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم. (قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ رَجُلًا مَاتَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا عَمِلْتَ؟ فَإِمَّا ذَكَرَ أَوْ ذُكِّرَ، قَالَ: إِنِّي كُنْتُ أَتَجَوَّزُ فِي السِّكَّةِ وَالنَّقْدِ وَأُنْظِرُ الْمُعْسِرَ فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ"، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: أَنَا قَدْ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مر گیا تو اس سے پوچھا گیا: تم نے کیا عمل کیا ہے؟ تو اس کو یا تو یاد آیا یا یاد لایا گیا، اس نے کہا: میں سکہ اور نقد کو کھوٹ کے باوجود لے لیتا تھا، اور تنگ دست کو مہلت دیا کرتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۱؎۔
ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی حق کا مطالبہ کرے تو شریفانہ طور پر کرے، خواہ وہ حق پورا پا سکے یا نہ پا سکے“۔
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «عفاف» کا لفظ آیا ہے، مطلب یہ ہے کہ صاحب حق اچھے ڈھنگ اور شریفانہ طور طریقے سے قرض کا مطالبہ کرے، نرمی اور شفقت کا لحاظ رکھے، خلاف شرع سختی نہ کرے، اور گالی گلوچ نہ بکے یا وہی مال لے جو حلال ہے، حرام مال سے اپنا قرض پورا نہ کرے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں بہتر وہ ہے یا بہتر لوگوں میں سے وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو“۔
وضاحت: ۱؎: قرض کا اچھی طرح ادا کرنا یہ ہے کہ قرض کے مال سے اچھا مال دے یا کچھ زائد دے یا قرض خواہ کا شکریہ ادا کرے، قرض میں زائد ادا کرنا مستحب ہے اور یہ منع نہیں ہے، منع وہ قرض ہے جس میں زیادہ دینے کی شرط ہو اور وہ سود ہے۔
عبداللہ بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر ان سے تیس یا چالیس ہزار قرض لیا، پھر جب حنین سے واپس آئے تو قرض ادا کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تیرے اہل و عیال اور مال و دولت میں برکت دے، قرض کا بدلہ اس کو پورا کا پورا چکانا، اور قرض دینے والے کا شکریہ ادا کرنا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الإستقراض 95 (4687)، (تحفة الأشراف: 5252)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/36) (حسن)» (سند میں ابراہیم بن عبداللہ کے حالات غیر معروف ہیں، شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإراوء: 1388)
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني ، حدثنا معتمر بن سليمان ، عن ابيه ، عن حنش ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: جاء رجل يطلب نبي الله صلى الله عليه وسلم بدين او بحق، فتكلم ببعض الكلام فهم صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مه، إن صاحب الدين له سلطان على صاحبه حتى يقضيه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يَطْلُبُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَيْنٍ أَوْ بِحَقٍّ، فَتَكَلَّمَ بِبَعْضِ الْكَلَامِ فَهَمَّ صَحَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَهْ، إِنَّ صَاحِبَ الدَّيْنِ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى صَاحِبِهِ حَتَّى يَقْضِيَهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا قرض یا حق مانگنے آیا، اور کچھ (نامناسب) الفاظ کہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی طرف بڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، رہنے دو، قرض خواہ کو مقروض پر غلبہ اور برتری رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اسے ادا کر دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6031، ومصباح الزجاجة: 851) (ضعیف جدا)» (حنش کے بارے میں بخاری نے کہا کہ اس کی احادیث بہت زیادہ منکر ہیں، اس حدیث کو لکھا نہیں جائے گا، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 318)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا حنش: حسين بن قيس الرحبي: متروك وبه ضعفه البوصيري ولبعض الحديث شاهد حسن عند البزار (كشف الأستار 104/2 ح 1307) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 466
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن عبد الله بن محمد بن عثمان ابو شيبة ، حدثنا ابن ابي عبيدة ، اظنه قال: حدثنا ابي ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم يتقاضاه دينا كان عليه فاشتد عليه حتى قال له: احرج عليك إلا قضيتني. فانتهره اصحابه وقالوا: ويحك! تدري من تكلم؟ قال: إني اطلب حقي. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هلا مع صاحب الحق كنتم"، ثم ارسل إلى خولة بنت قيس، فقال لها:" إن كان عندك تمر فاقرضينا حتى ياتينا تمرنا فنقضيك"، فقالت: نعم، بابي انت يا رسول الله، قال: فاقرضته. فقضى الاعرابي واطعمه، فقال: اوفيت اوفى الله لك، فقال:" اولئك خيار الناس، إنه لا قدست امة لا ياخذ الضعيف فيها حقه غير متعتع". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ أَبُو شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ ، أَظُنُّهُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَاضَاهُ دَيْنًا كَانَ عَلَيْهِ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ حَتَّى قَالَ لَهُ: أُحَرِّجُ عَلَيْكَ إِلَّا قَضَيْتَنِي. فَانْتَهَرَهُ أَصْحَابُهُ وَقَالُوا: وَيْحَكَ! تَدْرِي مَنْ تُكَلِّمُ؟ قَالَ: إِنِّي أَطْلُبُ حَقِّي. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلَّا مَعَ صَاحِبِ الْحَقِّ كُنْتُمْ"، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى خَوْلَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، فَقَالَ لَهَا:" إِنْ كَانَ عِنْدَكِ تَمْرٌ فَأَقْرِضِينَا حَتَّى يَأْتِيَنَا تَمْرُنَا فَنَقْضِيَكِ"، فَقَالَتْ: نَعَمْ، بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَقْرَضَتْهُ. فَقَضَى الْأَعْرَابِيَّ وَأَطْعَمَهُ، فَقَالَ: أَوْفَيْتَ أَوْفَى اللَّهُ لَكَ، فَقَالَ:" أُولَئِكَ خِيَارُ النَّاسِ، إِنَّهُ لَا قُدِّسَتْ أُمَّةٌ لَا يَأْخُذُ الضَّعِيفُ فِيهَا حَقَّهُ غَيْرَ مُتَعْتَعٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا مطالبہ کرنے کے لیے آیا، اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سختی سے مطالبہ کیا، اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں آپ کو تنگ کروں گا، نہیں تو میرا قرض ادا کر دیجئیے (یہ سن کر) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کو جھڑکا اور کہا: افسوس ہے تجھ پر، تجھے معلوم ہے کہ تو کس سے بات کر رہا ہے؟ وہ بولا: میں اپنے حق کا مطالبہ کر رہا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام سے) فرمایا: ”تم صاحب حق کی طرف داری کیوں نہیں کرتے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خولہ بنت قیس کے پاس ایک آدمی بھیجا، اور ان کو کہلوایا کہ ”اگر تمہارے پاس کھجوریں ہوں تو ہمیں اتنی مدت تک کے لیے قرض دے دو کہ ہماری کھجوریں آ جائیں، تو ہم تمہیں ادا کر دیں گے“، انہوں نے کہا: ہاں، میرے باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ کے رسول! میرے پاس ہے، اور انہوں نے آپ کو قرض دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعرابی کا قرض ادا کر دیا، اور اس کو کھانا بھی کھلایا، وہ بولا: آپ نے میرا حق پورا ادا کر دیا، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی بہتر لوگ ہیں، اور کبھی وہ امت پاک اور مقدس نہ ہو گی جس میں کمزور بغیر پریشان ہوئے اپنا حق نہ لے سکے“۔
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ آپ ﷺ کا کیا عدل و انصاف تھا، اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہ فرمایا کہ تم قرض خواہ کی مدد کرو، میری رعایت کیوں کرتے ہو، حق کا خیال اس سے زیادہ کیا ہو گا، آپ ﷺ کی نبوت کی یہ ایک کھلی دلیل ہے، نبی کے علاوہ دوسرے سے ایسا عدل و انصاف ہونا ممکن نہیں ہے، دوسری روایت میں ہے کہ پھر وہ گنوار جو کافر تھا مسلمان ہو گیا، اور کہنے لگا: میں نے آپ ﷺ سے زیادہ صابر نہیں دیکھا۔