(قدسي) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو عامر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن عمير ، قال: سمعت ربعي بن حراش يحدث، عن حذيفة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" ان رجلا مات، فقيل له: ما عملت؟ فإما ذكر او ذكر، قال: إني كنت اتجوز في السكة والنقد وانظر المعسر فغفر الله له"، قال ابو مسعود: انا قد سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم. (قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ رَجُلًا مَاتَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا عَمِلْتَ؟ فَإِمَّا ذَكَرَ أَوْ ذُكِّرَ، قَالَ: إِنِّي كُنْتُ أَتَجَوَّزُ فِي السِّكَّةِ وَالنَّقْدِ وَأُنْظِرُ الْمُعْسِرَ فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ"، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: أَنَا قَدْ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مر گیا تو اس سے پوچھا گیا: تم نے کیا عمل کیا ہے؟ تو اس کو یا تو یاد آیا یا یاد لایا گیا، اس نے کہا: میں سکہ اور نقد کو کھوٹ کے باوجود لے لیتا تھا، اور تنگ دست کو مہلت دیا کرتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کوئی کھوٹا سکہ یا نقدی دیتا تو بھی میں اسے قبول کر لیتا تھا۔
كنت أبايع الناس فإذا بايعت معسرا تركت له وإذا بايعت موسرا أنظرته فيقول الله أنا أحق بالتجوز عن عبدي فيغفر له فقال الآخر صدقت هكذا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2420
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لین دین میں نرمی کرنا اللہ تعالی کی بہت پسند ہے۔
(2) وفات کےبعد تین مشہور سوالوں (تیرارب کون ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ تیرا دین کیاہے؟) کےعلاوہ بھی بعض معاملات کےبارے میں پوچھا جاتاہے۔
(3) سکے میں چشم پوشی کا مطلب یہ ہے کہ سکے کی معمولی خرابی کونظر انداز کردیتا تھا جب کہ عام لوگ اس کس وجہ سے سکہ قبول کرنے سے انکار کردیتے تھے جس طرح آج کل گھسا ہواسکہ یا پھٹا ہوا نوٹ قبول کرنے سے انکار کردیا جاتاہے۔
(4) اللہ کے ہاں حسن اخلاق کی بہت قدروقیمت ہے۔
(5) مقروض کوقرض کی ادائیگی مزید مہلت دے دینا بہت بڑی نیکی ہے۔
(6) بعض اوقات ایک نیکی انسان کو نظر میں معمولی ہوتی ہے لیکن وہ بخشش کا ذریعہ بن جاتی ہے، اس لیے چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی طرف بھی پوری توجہ دینی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2420
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3993
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح کا فرشتوں نے استقبال کیا، یعنی اس کی روح قبض کی، اور اس سے پوچھا، کیا تو نے کوئی نیک کام، اچھا عمل کیا ہے؟ اس نے کہا، نہیں، فرشتوں نے کہا، یاد کر، اس نے کہا، میں لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے نوکروں کو یہ ہدایت دیتا تھا کہ تنگدست کو مہلت دینا اور مالدار سے وصولی میں آسانی اور سہولت کا رویہ اختیار کرنا، آپﷺ نے فرمایا، اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3993]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: معسر تنگدست کو انظار ڈھیل اور مہلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم جب آسانی اور سہولت کے ساتھ اداکرسکو، اس وقت اداکردینا، یا اس سے آسان قسطوں کے ذریعہ قرض وصول کرنا، اور موسر مالدار سے تجوز یا تجاوز، درگذراور چشم پوشی سے کام لینا، اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے قرض وصول کرنے میں درشت اور سخت رویہ اختیارنہ کرنا، نقد ادائیگی کی سکت وطاقت کے باوجود یا وقت مقررہ کی آمد کے باوجود ایک آدھ دن کی ڈھیل دے دینا، رقم میں کچھ کمی یا نقص ہو تو اس سے درگزر کرنا، اور مکمل ادائیگی کا تقاضا چھوڑ دینا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3993
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2077
2077. حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "پہلے زمانے میں فرشتوں نے ایک شخص کی روح سے ملاقات کے وقت پوچھا: کیا تو نے کوئی نیک کام کیا ہے؟اس نے کہا: میں اپنے ملازمین کو یہ حکم دیتا تھا کہ وہ تنگ دست کو ادائیگی میں مہلت دیں اور مال دار سے بھی نرمی کریں تو انھوں نے بھی اس سے نرمی اختیار فرمائی۔ " ابو عبداللہ(امام بخاری) ؓ کہتے ہیں کہ ابو مالک کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: "میں مال داروں سے آسانی کرتا اور غریبوں کو مہلت دیتا تھا۔ " شعبہ نے ابومالک کی متابعت کی ہے۔ ابو عوانہ کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: " میں مالدار کو مہلت دیتا اور نادار سے درگزر کرتا تھا۔ " ایک دوسری روایت بایں الفاظ ہے: "میں مالدار کا عذر قبول کرتا اور غریب سے درگزر کرتا تھا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2077]
حدیث حاشیہ: یعنی گو قرض دار مالدار ہو مگر اس پر سختی نہ کرے، اگر وہ مہلت چاہے تو مہلت دے۔ مالدار کی تعریف میں اختلاف ہے بعض نے کہا جس کے پاس اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچہ موجود ہو۔ ثوری اور ابن مبارک اور امام احمد اور اسحاق نے کہا جس کے پاس پچاش درہم ہوں۔ اور امام شافعی نے کہا کہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں کرسکتے۔ کبھی جس کے پاس ایک درہم ہو مالدار کہلا سکتاہے جب وہ اس کے خرچ سے فاضل ہو اور کبھی ہزار رکھ کر بھی آدمی مفلس ہوتا ہے جب کہ اس کا خرچہ زیادہ ہو اور عیال بہت ہوں اور وہ قرض دار رہتا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2077
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2077
2077. حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "پہلے زمانے میں فرشتوں نے ایک شخص کی روح سے ملاقات کے وقت پوچھا: کیا تو نے کوئی نیک کام کیا ہے؟اس نے کہا: میں اپنے ملازمین کو یہ حکم دیتا تھا کہ وہ تنگ دست کو ادائیگی میں مہلت دیں اور مال دار سے بھی نرمی کریں تو انھوں نے بھی اس سے نرمی اختیار فرمائی۔ " ابو عبداللہ(امام بخاری) ؓ کہتے ہیں کہ ابو مالک کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: "میں مال داروں سے آسانی کرتا اور غریبوں کو مہلت دیتا تھا۔ " شعبہ نے ابومالک کی متابعت کی ہے۔ ابو عوانہ کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: " میں مالدار کو مہلت دیتا اور نادار سے درگزر کرتا تھا۔ " ایک دوسری روایت بایں الفاظ ہے: "میں مالدار کا عذر قبول کرتا اور غریب سے درگزر کرتا تھا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2077]
حدیث حاشیہ: (1) قرض دار اگرچہ مال دار ہی کیوں نہ ہو اس سے بھی درگزر والا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس پر سختی نہ کی جائے۔ اگر وہ مزید مہلت طلب کرے تو خوش دلی کے ساتھ اسے مہلت دی جائے۔ (2) مال دار کون ہے؟اس کی تعریف میں اختلاف ہے،تاہم حالات وظروف کے پیش نظر بعض اوقات انسان ایک درہم کمانے سے غنی ہوجاتا ہے اور کبھی ہزار درہم رکھنے کے باوجود فقیر رہتا ہے کیونکہ اس کے ہاں اہل وعیال کی کثرت ہوتی ہے۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ انتہائی مہربان ہے۔ وہ معمولی سی نیکی کے عوض بہت بڑے گناہ گار کو معاف کردیتا ہے کیونکہ انسان جب اچھی نیت سے کوئی نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ خسارے میں نہیں رہتا۔ (4) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مال دار کو مہلت دینے میں اس کے ظلم کا ساتھ دیتا ہے،اس میں اجرو ثواب کی امید نہیں رکھی جاسکتی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ مال دار کو مہلت دینے میں اجر ملے گا۔ بہر حال عرف عام میں جو بھی مال دار ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک اور اچھے برتاؤ سے پیش آنا چاہیے۔ (5) حدیث کے آخر میں (قال فتجا وزواعنه) کا ترجمہ ہم نے یہ کیا ہے: "انھوں نے بھی اس سے نرمی اختیار کی۔ "اس لفظ کی دو سورتیں ہیں: اگر (فتجا وزواعنه) ہو اور فعل ماضی ہوتو اس کے معنی وہی ہوں گے جو ہم نے کیے ہیں،یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فرشتوں نے اس سے نرمی اختیار کی۔ " اور(فتجا وزواعنه) اگر فعل امر ہوتو پھر معنی ہوں گے: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا: "تم بھی اس کے ساتھ نرمی کرو۔ "صحیح مسلم وغیرہ سے دوسرے معنی کی تائید ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم،المساقاۃ،حدیث: 3993(1560)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2077