ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب حق سے فرمایا: ”شریفانہ انداز سے اپنا حق لو خواہ پورا ملے یا نہ ملے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «عفاف» کا لفظ آیا ہے، مطلب یہ ہے کہ صاحب حق اچھے ڈھنگ اور شریفانہ طور طریقے سے قرض کا مطالبہ کرے، نرمی اور شفقت کا لحاظ رکھے، خلاف شرع سختی نہ کرے، اور گالی گلوچ نہ بکے یا وہی مال لے جو حلال ہے، حرام مال سے اپنا قرض پورا نہ کرے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2422
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قرض واپس مانگتے وقت جب مقروض ادا کرنے سے انکار کرے یا بہانہ بازی کرکے مزید مہلت کا طالب ہوتو غصہ آ جانا فطری بات ہے لیکن غصے پرقابو پانا بہت بڑی نیکی ہے۔
(2) عفاف (گناہ سے اجتناب یا شرافت) کامطلب یہ ہے کہ نرمی اورشفقت سےمطالبہ کرے۔ گالی گلوچ تک نوبت نہ پہنچنے دے۔ وہی مال وصول کرے جواس کےلیے لینا حلال ہے۔
(3) مقروض کو بھی چاہیے کہ قرض خواہ کےاحسان کا خیال کرتے ہوئے اچھے طریقےسے بات کرے۔ وقت پرقرض اداکرے۔ نہ کرسکے تومزید مہلت طلب کرے اورمعذرت کرے۔
(4)(واف اوغیرواف) اگرعفاف کی صفت بنایا جائے توعفاف کےمکمل یاغیر مکمل ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر غصہ آ جائے تو بھی حد سے نہ بڑھے اگر پوری طرح عفاف پرعمل نہیں ہوسکا توجہاں تک ہوسکے اس کا خیال کرے۔ مسلمان بھائی کےاحترام کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2422