عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی (دھرن) گاڑنے سے منع نہ کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6211، ومصباح الزجاجة: 819)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/255) (صحیح)» (سند میں ابن لھیعہ ہیں، اور عبد اللہ بن وہب کی ان سے روایت صحیح ہے، نیز ابن وہب کی متابعت بھی موجود ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2947)
وضاحت: ۱؎: یہ وہاں ہے جہاں ایک جگہ پر کئی لوگ رہتے ہوں اور راستہ کی لمبائی چوڑائی پہلے سے معلوم نہ ہو۔ اب اس میں جھگڑا کریں تو سات ہاتھ کے برابر راستہ چھوڑ دینا چاہئے، لیکن جو راستے پہلے سے بنے ہوئے ہیں اور ان کی لمبائی چوڑائی معلوم ہے، ان میں کسی کو تصرف کرنے مثلاً عمارت بنانے اور راستہ کی زمین تنگ کر دینے کا اختیار نہیں ہے، اور سات ہاتھ کا راستہ ضرورت کے لئے کافی ہے، نبی کریم ﷺ کے عہد میں صرف آدمی، گھوڑے اور اونٹ راستوں پر چلتے تھے، ان کے لئے اتنا لمبا چوڑا راستہ کافی تھا، لیکن عام راستے جہاں آمد و رفت عام ہو اور گاڑیاں اور بگھیاں بہت چلتی ہوں وہاں اگر یہ لمبائی اور چوڑائی تنگ ہو تو حاکم کو اختیار ہے جتنا راستہ ضروری معلوم ہو اس کی تحدید کر دے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ”کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ ً“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5065، ومصباح الزجاجة: 821)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/326، 327) (صحیح)» (سند میں اسحاق مجہول الحال راوی ہے، اور اسحاق اور عبادہ رضی اللہ عنہ کے مابین انقطاع ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 250 و الإرواء: 896، و غایة المرام 68)
وضاحت: ۱؎: مثلاً پڑوسی کے مکان کی طرف ایک نئی کھڑکی یا روشندان کھولے، یا پرنالہ یا نالی نکالے یا ایک پاخانہ گھر بنائے، ان امور میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر پڑوسی کو اس سے نقصان ہوتا ہو تو یہ تصرف صحیح نہ ہو گا، ورنہ صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسحاق بن يحيي: مجھول الحال،أرسل عن عبادة وله شواھد كثيرة جدًا ولم يصح منھا شئ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں نہ ابتداء ً نہ مقابلۃ ً“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6016، ومصباح الزجاجة: 822)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/313) (صحیح)» (اس سند میں جابر جعفی ضعیف روای ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا جابر الجعفي: ضعيف رافضي وانظر الحديث السابق (2340) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463
ابوصرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی کو نقصان پہنچائے گا اللہ تعالیٰ اسے نقصان پہنچائے گا، اور جو کسی پر سختی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر سختی کرے گا“۔
جاریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ ایک جھونپڑی کے متعلق جو ان کے بیچ میں تھی جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے بھیجا، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جھونپڑی ان کی ہے جن سے رسی قریب ہے، پھر جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے، اور انہیں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ٹھیک اور اچھا فیصلہ کیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 3181، ومصباح الزجاجة: 823) (ضعیف جدا)» (سند میں نمران بن جاریہ مجہول الحال، اور دھشم بن قران متروک راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا دهثم: ضعيف جدًا (الإصابة 218/1 ت 1048) وھو متروك (تقريب: 1831) ونمران مجهول (تقريب: 7187) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 463
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مال دو آدمیوں کے ہاتھ بیچا جائے تو وہ مال اس شخص کا ہو گا جس نے پہلے خریدا“۱؎۔ ابوالولید کہتے ہیں کہ اس حدیث سے خلاصی کی شرط باطل ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4582، 9918)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/النکاح 20 (1110)، سنن النسائی/البیوع 94 (4686)، مسند احمد (5/8، 11، 12، 18، 22)، سنن الدارمی/النکاح 15 (2239) (ضعیف)» (سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور عقیقہ کی حدیث کے علاوہ سمرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر دوسرے خریدار نے اپنے بائع سے یہ شرط لگائی تھی کہ جس طرح تم سے ہو سکے یہ مال چھڑا کر مجھ کو دینا تو یہ شرط مفید نہ ہو گی اور بائع پہلے خریدار سے اس کے چھڑانے پر مجبور نہ کیا جائے گا، مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید کے پاس ایک گھوڑا تھا، زید نے اس کو عمرو کے ہاتھ بیچ دیا، اس کے بعد زید کے وکیل (ایجنٹ) نے اس کو بکر کے ہاتھ بیچ دیا اور بکر نے وکیل سے شرط لگائی کہ اس گھوڑے کو چھڑا کر میرے حوالہ کرنا تمہارے ذمہ ہے، اس نے قبول کیا جب بھی وہ گھوڑا عمرو ہی کو ملے گا کیونکہ اس کی بیع پہلی تھی اور بکر کی بیع دوبارہ صحیح نہیں ہوئی۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص کے چھ غلام تھے، ان غلاموں کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، مرتے وقت اس نے ان سب کو آزاد کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حصے کئے (دو دو کے تین حصے)(اور قرعہ اندازی کر کے) دو کو (جن کے نام قرعہ نکلا) آزاد کر دیا، اور چار کو بدستور غلام رکھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب آدمی بیمار ہو تو اس کو چاہئے کہ وارثوں کا خیال رکھے، اور اپنی ساری دولت تقسیم نہ کر دے، اگر ایسا ہی ضروری ہو تو تہائی مال تک اللہ کی راہ میں دے دے، اور دو تہائی دولت وارثوں کے لئے چھوڑ دے، اگر ساری دولت کے صدقہ کی وہ وصیت کرے تو یہ وصیت تہائی مال ہی میں نافذ ہو گی۔ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا، دو غلاموں کو قرعہ ڈال کر آزاد کرایا، اور قرعہ اس واسطے ڈالا کہ وہ جھگڑا نہ کریں، اور وہ وارثوں کی ملکیت میں بدستور غلام رہے، دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے حق میں سخت کلمہ کہا کیونکہ اس نے وارثوں کا خیال نہیں رکھا تھا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بیع کے متعلق دو آدمیوں نے جھگڑا کیا، اور ان میں کسی کے پاس گواہ نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم کھانے کے لیے قرعہ ڈالنے کا حکم دیا خواہ انہیں یہ فیصلہ پسند ہو یا ناپسند۔